• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(نوٹ:محترم سلیم صافی صاحب کے جواب میں مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا کالم صحافتی اخلاقیات کے مطابق شائع کیا جا رہا ہے۔ امید ہے مفتی منیب الرحمٰن اپنے موقف کی اشاعت سے ادارے کی صحافتی غیر جانبداری پر مطمئن ہو جائیں گے۔)

سلیم صافی صاحب کو جانے مجھ سے خدا واسطے کا کیا بغض ہے اور یہ برسوں پر محیط ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’اُن کا بغض تو اُن کی باتوں سے عیاں ہوچکا اور جو (نفرت)وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں،وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے،(آل عمران:118)‘‘۔

 میرے خلاف اُن کے لکھے ہوئے مضامین سے ایک رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔ میرے خلاف بغض نکالنے کے لیے انہیں جنگ اور جیو کا فورم دستیاب ہے،جومجھے دستیاب نہیں۔ 

پچھلے سال انہوں نے میرے خلاف یکے بعد دیگرے چار کالم لکھے،میںنے چاروں کا جواب دیا، تین کالم ادارے نے کچھ قطع وبرید کے بعد ازراہِ کرم شائع کردیے،لیکن چوتھے کالم کا جواب شائع نہیں کیا، جو صحافتی اصول واقدار کے خلاف ہے۔

 آخری کالم میں انہوں نے لکھا ’’اس کے بعد میں اس موضوع پر نہیں لکھوں گا‘‘، لیکن اپنے جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں بدستور بغض نکالتے رہے،اب انہوں نے جنگ میں اپنے تازہ کالم میں یہ الزام لگایاہے کہ میں ریاست کے خلاف کھڑا ہوں، یہ صریح جھوٹ ہے، لعنۃ اللہ علی الکذبین۔

ہمارے دستور کے مطابق ریاست کی نمائندگی صدرِ پاکستان کرتے ہیں اور حکومت کا مظہر یعنی چیف ایگزیکٹیو وزیر اعظم ہیں اور ریاست وحکومت دونوں کے سربراہوں نے معاہدے کی توثیق کی اور بیس نکاتی چارٹر پر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام کے ساتھ اتفاق کیا،جو ایک منفرد مثال ہے۔اس سے صافی صاحب کو شدید تکلیف ہے، وہ اپنے زعم میں صرف اپنے آپ کو حق کی پہچان اور حق کی علامت سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں ان کے علاوہ باقی کوئی بھی قابلِ اعتبار نہیں ہے۔

وہ اپنے زعم میں مفتی اعظم اور شیخ الاسلام بھی ہیں اور ہم طالبِ علم لوگوں کو دین بھی پڑھانا چاہتے ہیں کہ شریعت میں احکام کی حیثیت کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او،امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد ماہر دیندار (نیفرالوجسٹ) ڈاکٹرحافظ رشید اور صوبہ خیبر پختونخوا کے مقرر کردہ ڈاکٹر امجد محبوب کے مرتّبہ SOPسے ہم نے اتفاق کیا اور صدرِ پاکستان نے بیس نکاتی چارٹرکو خود پڑھ کر سنایا اور یہ کہ اس SOPپر عمل کرتے ہوئے مساجد میں نماز کی اجازت ہوگی اور تب سے ہم اب تک روزانہ اپنے فیس بک پیج سے بھی اور الیکٹرونک وپرنٹ میڈیاپر اس کی تشہیر کر رہے ہیں اور بیشتر مساجد میں اس پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔

اس SOPپر عمل درآمد کے نتیجے میں مَیں دسمبر 1965کے بعد پہلی مرتبہ کراچی میں رہتے ہوئے اپنی مسجد میں جمعہ پڑھانے نہیں جارہا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ علماء کے قول وفعل میں تضاد ہے۔

اسی طرح مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ادارے کی مسجد ان کے گھر سے دومنٹ کے فاصلے پر ہے،وہ بھی معاہدے پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں نہیں جارہے کیونکہ میری اور انکی عمریں بالترتیب 75اور 78سال ہیں۔انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن پر بھی گھر پر نماز پڑھنے کے سلسلے میں اعتراض کیا ہے،ان کی عمر بھی 67سال ہے اور وہ بھی اپنے آپ کو علماء کے اس متفقہ میثاق کا پابند سمجھتے ہیں۔

 ہم اگر سماجی فاصلےکے متفقہ چارٹر کی مسلسل تبلیغ کر رہے ہیں،تو ہم صافی صاحب کی نظر میں قابلِ ملامت ہیںلیکن اسی کارِ خیر کے لیے مولانا طارق جمیل قابلِ صد ستائش ہیں۔ 

سعودی عرب کی مثالیں دینے والوں کو چاہیے کہ یہاں بھی شاہی نظام کا مطالبہ کریں، اس کے بعد اسٹوڈیوز میں رونق افروز عقلِ رسااور دانشِ کامل کے حاملین کو بھی گھروں میں بیٹھنا ہوگا، نیز ذرا سا سرقلم کرنے اور ہاتھ کاٹنے کے حق میں بھی اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں مہم چلائیں،یہ نہایت کارِ ثواب ہوگا، یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ،کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘۔ پھر آپ روزانہ جو کسی کو تخت پر بٹھانے اور کسی کو تخت سے اتارنے کا شوق پورا کرتے ہیں، اس مشن کوبھی خیرباد کہنا ہوگا۔

صافی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے ’’سماجی فاصلے کے اصول پر مساجد میں عمل، عملاً ناممکن ہے‘‘۔

ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کراچی میں اس پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے، نئے فارمولے کے مطابق صفوں کی نشاندہی کردی گئی ہے اوراسی طرح سے نمازیوں کے کھڑے ہونے کی جگہوں کی بھی نشاندہی کردی گئی ہے،خود صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے ایسی نمازوں کی تصویروں کو ٹویٹ کیا ہے،میرے پاس تو ضلع مانسہرہ کی تحصیل اوگی سے متصل ایک گائوں کی مسجد کی تصویر بھی وٹس اپ کے ذریعے بھیجی گئی ہے،جہاں اسی فارمولے کے مطابق نماز پڑھی جارہی ہے۔

اسلام کا حکم تو یہ ہے ’’بدگمانی سے بچو،بے شک بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے،(صحیح بخاری)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اے ایمان والو!بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، (الحجرات:12)‘‘۔لیکن حضرت کے پاس بدگمانی کا فری لائسنس ہے،کیونکہ ایک بڑے اخبار کا ادارتی صفحہ اورایک بڑے ٹیلی وژن چینل کا شیشے کا گھر یعنی اسٹوڈیوزتک اُن کی رسائی ہے اور ہمیں یہ سہولت میسر نہیں ہے کہ جب ہم چاہیں تو اپنی مرضی کا پروگرام کرسکیں۔

اگر صافی صاحب کی خواہش کے مطابق لوگ تراویح گھر پر پڑھنا شروع کردیں، لیکن باقی پنج وقتہ نمازیں اور جمعۃ المبارک مسجد میں پڑھیں تو اُن کا اعتراض قائم رہے گا،کیونکہ شخصی نفرت اور بغض کی بیماری لا علاج ہے، سوا اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر مہربان ہوجائے اور اس کے دل کو نفرتوں، رنجشوں، کدورتوں اور بغض و عداوت کے میل سے پاک نہ فرمادے۔

 اگر صافی صاحب کے فرمان کے مطابق مولانا فضل الرحمن، جنابِ سراج الحق، مولانا طارق جمیل، مفتی تقی عثمانی صاحب اور پیر نقیب الرحمٰن صاحب کے قد بلند ہوگئے ہیں، تو اُن کی خوش نصیبی ہے، مگر مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جو میرے ساتھ اس مہم میں شریک ہیں اور دستخط کنندہ ہیں،بلکہ مولانا فضل الرحمٰن اور جنابِ سراج الحق بھی تائید کنندہ ہیں اور محترم پیر نقیب الرحمٰن صاحب نے ایک سے زائد بار مجھے فون کر کے یقین دلایا کہ ہم آپ کے موقف کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ اس بیس نکاتی ایس او پی کی توثیق کے مرحلے پر وہ خود بھی ایوانِ صدر میں موجود تھے، تو ان سب حضرات کے اس ’’قصور ‘‘کی تلافی صافی صاحب کے نزدیک کیسے ہوگی،ذرا رہنمائی فرمادیں، منیب الرحمٰن کے قصور تو ان کے نزدیک ویسے ہی ناقابلِ معافی ہیں۔ 

تازہ ترین