• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیتا رہے حامد میر جس نے نوجوان نسل کو امام ابو حنیفہ ؒ سے لیکر دوسرے آئمہ پر عباسیوں کی خلافت کے دوران کیا گزری، سب بتا دیا۔ میں اُن سب بچوں کو واپس پاکستان کی تاریخ کی جانب لانا چاہتی ہوں 1949میں لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد پیش کی مولوی تمیزالدین خان اسپیکر پارلیمنٹ تھے۔ اس زمانے کو کم مگر بعد ازاں، قراردادِ مقاصد پر قراردادِ پاکستان سے زیادہ عمل ہوا اور اس پر بہت توجہ دی گئی اور آج تک دی جارہی ہے۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔ ایوب خان کے زمانے سے سرکاری پیروں کا دور شروع ہوا۔ میں کوئی 25برس کی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک تھے پیر صاحب آف دیول شریف۔ نیا نیا پی سی لاہور کھلا تھا۔ وہ وہاں ٹھہرا کرتے تھے۔ سنا ہے ان کے پاس پریوں جیسی دوشیزائیں دعائیں لینے آتی تھیں۔ ان کی ایک شبیہ میں نے حنیف رامے کے دفتر میں دیکھی تھی۔ اس زمانے میں مسلم لیگ (نجانے کونسی تھی) کا ڈیوس روڈ پر بہت بڑی بلڈنگ پر قبضہ تھا اور حنیف رامے اس وقت اُس مسلم لیگ کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔ میں ان سے ملنے گئی کہ میرے بھائی کا گھر اس کوٹھی کے ساتھ تھا اور ابھی تک ہے (ماشاءاللہ) رامے صاحب کی ٹیبل کی پشت پر ایک قد آدم تصویر لگی تھی، جس میں پیر صاحب بادلوں یا فرشتوں کے جلو میں (دھندلا دھندلا یاد ہے) زمین کی جانب اتر رہے تھے اور ان کے ہمرکاب جناب ایوب خان تھے۔ یہ تھا پہلا تاریخی سرکاری پیری مریدی کا سلسلہ، اُن کے بعد یحییٰ خان تو اپنے زمانے کے واجد علی شاہ تھے تو ان کو جب بتایا جاتا کہ فلاں جانب سے ہندوستان کے جہاز حملہ کرنے آرہے ہیں، تو وہ فوراً پوچھتے، بتائو نور جہاں کی گاڑی کہاں پہنچی ہے۔ ان کے زمانے میں ایک نیازی تھے جو چاہے مغربی پاکستان میں ہوتے یا مشرقی پاکستان میں، ہر وقت صنف نازک کے نخرے اٹھانے کے چکر میں رہتے تھے، ان کا یہ مشغلہ اس وقت بھی جاری تھا جب وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنے تمغے انڈین کمانڈر کے سامنے ڈھیر کر رہے تھے اور ساری دنیا کا میڈیا دیکھ رہا تھا۔ بھٹو صاحب کے اندر ایک مجبور عورت اور جہانگیری دور کے وڈیرے کا خون تھا، وہ سوشلزم کی بات کرتے مگر بات مولانا کوثر نیازی کی مانتے تھے۔ مولانا بھی دو دھاری تلوار تھے۔ حکومت مخالف اداریے اسلام آباد سے ہوائی ڈاک کے ذریعہ، ہمارے دفتر کے ذریعے ایک دائیں بازو کے نظریاتی اخبار کے مالک تک پہنچاتے۔ بھٹو صاحب کو اطلاع پہنچانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ وہ تو ڈاکٹر مبشر ہوں کہ جے اے رحیم، ان سب کو مائی فٹ کہہ کر آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ نو ستارے اکٹھے ہوئے رات کو عہد نامہ ہوا، اس کی فوری اطلاع جنرل ضیاء الحق کو دینے وہی دینی رہنما دوڑے گئے اور لائن لگ گئی، باقی آپ کو معلوم کہ اگلے دن جب بھٹو صاحب کو جنرل ضیاء نے بتایا کہ آپ قید میں ہیں اور آج آپ کو مری پہنچا دیا جائے گا۔ اس زمانے میں میڈیا پر ڈراموں میں اشفاق احمد گروہ کا راج تھا۔ دینی تقاریر میں ڈاکٹر اسرار احمد اور کبھی طاہر القادری اور ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کی تقاریر میں زور ہوتا تھا کہ خواتین برآمدے میں بھی نہ نکلیں، بے پردگی ہوتی ہے، کس سے، یہ نہیں معلوم ہوتا تھا۔ پھر ضیاء الحق کا ہوائی حادثہ ہو گیا۔ اب سیاست سیاست کھیلی جانے لگی۔ مقتدر طاقتوں کے ساتھ معاہدوں کے بعد پی پی برسراقتدار آئی تو انہیں ہر نصیحت اور ہر مشورے کے لئے مری کے جنگلوں کے درمیان بیٹھےبابا تَنکا یاد آتے اور تو اور نواز شریف بھی چھڑیاں مروانے ان کے پاس جاتے، چونکہ رسوائی دونوں کے مقدر میں لکھی تھی کہ ایسے معاہدوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ بینظیر کے قتل کے بعد آصف زرداری صدر بنے۔ جب وہ وہاں سے جا رہے تھے تو میڈیا والوں نے دیکھا اور دکھایا کہ دھوتی میں ایک سادھو بھی وہاں سے نکل رہا تھا۔

جنرل مشرف اپنے زمانے کے نئے واجد علی شاہ تھے وہ گانے والیوں کے سروں سے اپنی قسمت کا حال معلوم کر لیتے تھے اور پھر انہی حلقوں نے ان کو وہاں پہنچادیا، جہاں سے خبر بھی نہیں آتی ہے۔ اسی زمانے میں مولانا طارق جمیل کا ظہور ہوا۔ مشرف نے انہیں سندھ کے وزیراعلیٰ سے کیا ملوایا پھر وہ ملتے ہی گئے۔ بیگم کلثوم کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی۔ جتنے چینل تھے ان پر ان کی حکمرانی ہو گئی۔ جمعہ ہو، اتوار ہو کہ کوئی دن، ان کا روئے مبارک چمکتا اور ان کی تقدیر کی طرح درخشاں نظر آتا۔ وہ تو زبان پھسل گئی ورنہ ابھی اور بھی منزلیں انہیں طے کرنا ہیں۔

دیگر بزرگ جو بہت پڑھے لکھے پروفیسر احمد رفیق اختر ہیں، جنہیں ایک صاحب ’’عارف‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ کسی کو کچھ نہیں کہتے مگر ان کی دہلیز پر ہزاروں سر بہ زانو جاتے ہیں۔ بابا یحییٰ اور پروفیسر احمد رفیق اختر کے علاوہ علامہ غامدی بھی دنیا بھر میں بلائے جاتے ہیں۔ یوٹیوب پر دیکھ لیں۔ اللہ کو کچھ کہہ دو، ان سارے بزرگوں کو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

رمضان کے مہینے کی بڑی تیاریاں ہوتی ہیں۔ سہروردی صاحب سے لیکر سارے نعت خواں دن رات میں کئی کئی محفلیں بھگتاتے اور ثواب سمیٹتے ہیں۔ نورانی چہروں کو رمضان میں نئی سے نئی پگڑیوں اور رنگدار خوبصورت داڑھیوں کے ساتھ دیکھ کر واقعی رونق رمضان نظر آتی ہے۔ البتہ خواتین اور سنجیدہ حلقے ابھی تک مولانا طارق جمیل کی ’’خواتین کی بے حیائی‘‘ کے جملے پر اخباروں سے لیکر ویف اور خواتین کے ادارے سیخ پا ہیں۔ حالانکہ حامد میر اور صحافیوں کے بارے میں سوال اٹھاتے وقت خواتین کے بارے میں اعتراض کو بھی سامنے لاتے تو مولانا کی سرکاریات اور ذہنی پرداخت کا اندازہ بھی ہو جاتا۔ سوال صرف اتنا سا ہے کہ رمضان کا رحمتوں والا مہینہ صرف اور صرف ریش دار عظامہ کے لیے کیوں مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ آخر عربی اور اسلامیات میں ڈاکٹر یٹ کئے ہوئے اکابرین کیوں بلائے نہیں جاتے۔ خاتون بھی اگر مجبوری میں بلائی جائے تو وہ اپنے چہرے پر صرف آنکھیں دکھاتی ہے۔ ساری عالمہ خواتین کو سامنے خاص کر رمضان میں نہیں لایا جاتا۔ پر شاید اب منظر بدل جائے کہ شبلی جیسا ہونہار، اپنی وزارت کی عزت بحال کرتے، روشن خیالی کو فروغ دے سکے۔ خدا کرے میری خوش گمانی رسوا نہ ہو۔

تازہ ترین