• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیریں مزاری اور حامد میر کیخلاف سوشل میڈیا مہم کون چلا رہا ہے؟

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) وفاقی وزیر برائے حقوق انسانی شیریں مزاری اور صحافی حامد میر کیخلاف سوشل میڈیا پر جاری گالم گلوچ پر مبنی مہم نے حکمران جماعت تحریک انصاف کو پارٹی کے اندر کچھ ایسے گروپس اور افراد کی نشاندہی پر مجبور کیا ہے جو اس وقت نفرت پھیلا رہے ہیں جس وقت ریاست کو کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ 

شیریں مزاری اور حامد میر کیخلاف سوشل میڈیا پر یہ مہم گزشتہ ہفتے تین گھنٹے طویل ٹیلی تھون کے آخر میں مولانا طارق جمیل کے خطاب کے بعد شروع ہوئی۔ 

مولانا طارق جمیل نے اپنی دعا سے قبل ایک طویل تقریر کی جس میں انہوں نے کچھ ایسی چیزیں کہیں جسے کئی لوگوں نے خواتین اور میڈیا مخالف سمجھا۔ 

انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک ٹی وی چینل کے مالک نے انہیں بتایا کہ وہ اپنا چینل بنا جھوٹ کے چلا نہیں سکتے۔ 

ان کے ریمارکس کو ایسے سوشل میڈیا اکائونٹس پر سراہا گیا جن میں ٹوئٹر اکائونٹ پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے جھنڈے کی تصویر تھی۔ 

شیریں مزاری نے مذہبی اسکالر کے بیان کو مسترد کیا اور ٹوئیٹ میں لکھا کہ ہم خواتین کو ایسے مضحکہ خیز الزامات کی وجہ سے نشانہ بننے نہیں دیں گے۔ 

حامد میر نے بھی یہ معاملہ جیو نیوز پر اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں اٹھایا اور مولانا طارق جمیل سے سوال کیا کہ وہ اس ٹی وی مالک کا نام بتائیں جس نے اعتراف کیا تھا کہ جھوٹ کے بغیر وہ چینل نہیں چلا سکتے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹر فیصل جاوید خان بھی پروگرام میں موجود تھے اور انہوں نے مولانا طارق جمیل کے دفاع میں کچھ نہیں کہا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی پرائم منسٹر ہائوس میں اس ٹیلی تھون کی میزبانی کر رہے تھے اور انہوں نے ہی مولانا کو خطاب کیلئے بلایا تھا۔ 

در حقیقت، سینیٹر فیصل جاوید نے ماضی میں فنڈز جمع کرنے کی مہمات میں حامد میر کے کردار کی تعریف کی تھی۔ 

حامد میر نے مولانا سے سوال کیا لیکن ایک اور صحافی جاوید چوہدری نے اسی رات مولانا طارق جمیل کو اپنے پروگرام پر فون پر مدعو کرکے انہیں مجبور کیا کہ وہ کم از کم دو ایسے صحافیوں کے نام بتا دیں جو جھوٹ نہیں بولتے۔

 مولانا نے کہا کہ ایک تو چوہدری صاحب آپ ہیں اور دوسرے حسن نثار ہیں۔ اس بیان نے بھی ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا۔ 

اگلے دن مولانا کو محمد مالک کے پروگرام میں مدعو کیا گیا جہاں حامد میر بھی موجود تھے۔ حامد میر نے کوئی سوال نہیں کیا اور مولانا نے رضاکارانہ طور پر کہا کہ میں کوئی بحث نہیں چاہتا، میرے پاس دلائل نہیں ہیں میں حامد میر صاحب سے اور میڈیا میں ہر شخص سے معذرت چاہتا ہوں جو میرے بیان سے ناراض ہوئے تھے، شاید میں نے غلطی کر دی۔ 

حامد میر نے شائستہ انداز میں مولانا سے کہا کہ وہ چینل مالک کا نام بتا دیں، لیکن مولانا نے کہا کہ وہ نام نہیں بتا سکتے کیونکہ یہ نجی گفتگو تھی۔

 انہوں نے ایک مرتبہ پھر معذرت کا اظہار کیا۔ حامد میر اور محمد مالک نے مولانا طارق جمیل کو سراہا اور بات چیت مکمل ہوئی۔ لیکن مولانا کی معذرت نے ٹوئٹر اور فیس بک پر طوفان برپا کر دیا۔ واٹس ایپ پر چند گروپس شروع کیے گئے جس میں شیریں مزاری اور حامد میر کو گالیاں دی گئیں۔ 

کچھ لوگوں نے محمد مالک، جاوید چوہدری اور کامران شاہد کو بھی نہ چھوڑا۔ اے آر وائی نے کچھ مذہبی اسکالرز سے رابطہ کرکے ان سے کہا کہ حامد میر کی مذمت کریں، کئی نامور علما نے حامد میر کی مذمت سے انکار کر دیا لیکن کچھ نامعلوم مولانا صاحبان نے بیانات جاری کرنا شروع کر دیے کہ حامد میر مولانا طارق جمیل سے معافی مانگیں۔ کچھ اینکرز، جنہیں ٹیلی تھون میں وزیراعظم ہائوس نہیں بلایا گیا تھا، بھی اس تنازع میں کود گئے۔

 انہوں نے مولانا طارق جمیل کے حق میں ٹوئیٹس کیں۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ اے آر وائی اور بول نیوز والوں نے گندی اور مغلظات پر مشتمل مہم حامد میر کیخلاف شروع کی اور اس کی وجہ پیشہ ورانہ حسد ہے۔

 بول والوں نے خلیل الرحمان قمر کو استعمال کیا جس نے تمام صحافیوں کیخلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔ 

سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم میں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی شامل تھیں۔ پی ٹی آئی قیادت نے یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھا حالانکہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ ان کا دفاع کریں جنہوں نے وزیراعظم کی فنڈز جمع کرنے میں مدد کی۔

 تنازع میں پی ٹی آئی کے سینٹرل انفارمیشن سیکریٹری احمد جواد نے حامد میر کے حق میں ٹوئٹ کی اور سوال اٹھایا کہ کیا وزیراعظم نے کبھی حامد میر کیخلاف کبھی تنقید کی؟ 

نتیجتاً احمد جواد کو بھی سوشل میڈیا پر حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جعلی آئی ڈیز اور جعلی ناموں سے لوگوں نے حملے کیے اور یہ لوگ بظاہر پی ٹی آئی کے کارکن بن کر ایسا کر رہے تھے۔ احمد جواد نے مہم میں جواب دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ یہ لوگ کیوں شیریں مزاری اور حامد میر کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

 ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے پاس جواب نہیں تھا۔ احمد جواد نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مہم چلانے والے اصل میں 40؍ لوگ (سائبر کمانڈوز) اصل میں 40؍ نہیں تھے بلکہ ایک مخصوص گروپ کا حصہ ہیں جو ایک دوسرے کو ری ٹوئیٹ دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔

 معلوم ہوا ہے کہ شیریں مزاری نے پی ایم سیکریٹریٹ میں کچھ حلقوں سے رابطہ کرکے ان سے کہا ہے کہ وہ اس غلیظ مہم کے پیچھے موجود لوگوں کا پتہ کریں کہ اس کا ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ 

حامد میر اور شیریں مزاری دونوں کو کشمیر پر بھارتی جارحیت کیخلاف سخت موقف اختیار کرنے والی شخصیت سمجھا جاتا ہے لیکن جب یہ لوگ مقدس گائے کے کردار پر سوال اٹھاتے ہیں تو ان کیخلاف مہم شروع کرکے انہیں غدار کہا جاتا ہے۔ 

پی ٹی آئی کے ایک اور وزیر فواد چوہدری نے بھی سوشل میڈیا پر موجود ایسے لوگوں کی نشاندہی کی ہے جو پارٹی کا نام استعمال کرتے ہیں لیکن پارٹی کی پالیسی پر عمل نہیں کرتے۔ 

فواد چوہدری سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی خدمات چند ہزار روپے کے عوض حاصل کی اج سکتی ہیں لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ اس وقت معاشرے کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان کے نئے میڈیا مینیجرز کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو میڈیا اور حکومت میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تازہ ترین