مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نہ میں ڈیل کےتحت گیا تھا نہ ڈیل کے تحت واپس آیا، بیماری کے سبب لندن گیا تھا، کورونا کے سبب پروازیں بند ہوئیں تو واپس آنا پڑا۔
جیو کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ میں نے بھائی کو نہیں بھائی کے علاج کو چھوڑ کر واپس آیا، نواز شریف کے پلیٹ لٹس کے معاملے کی سنگین صورتحال تھی، ہمیں بیماری پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ میں نواز شریف کا نامزد کردہ اور پارٹی کا منتخب صدر ہوں، میں ایک جمہوری سوچ کا آدمی ہوں، جمہوریت کے لیے نوازشریف نے بےپناہ قربانیاں دیں، ہم نےصعوبتیں، قیدوبند اور جلاوطنی برداشت کی۔
انہوں نےکہا کہ 1993 ءمیں غلام اسحاق نے مجھے بلایا اور کہا تم وزیراعظم بن جاؤ مگر میں نےکہا یہ ممکن نہیں ہے اور میں نے یہ پیشکش رد کردی جبکہ 1999ء میں جنرل مشرف نے پیش کش کی جسے میں نے مسترد کردیا، یہ راز پرویز مشرف نے خود افشا کیا۔
مسلم لیگ ن کے صدر کا کہنا تھا کہ2017 میں نواز شریف کو پاناما کے بجائے اقامہ پر نااہل کیا، اس وقت نواز شریف نے مجھے پارٹی صدر نامزد کیا، چور دروازے سے آنا چاہتا تو میرے پاس بہت مواقع تھے، میں نے پنجاب میں اپنے دور میں تمام پروجیکٹ مکمل کیے، مجھ پر اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے اچھے اور احترام کی بنیادی پر تعلقات کا حامی ہوں۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ یہ قائد کا وہ پاکستان نہیں جس کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں، میری خواہش ہے کہ ہم مل کر پاکستان کوآگے لے جائیں، نواز شریف پر ڈیل کرکے باہر جانے کا الزام بےبنیاد ہے، کوئی ثابت کرے کہ نواز شریف ایک دھیلا بھی دے کر باہر گئے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ ثابت کردیں، منی لانڈرنگ تب ہوتی ہے جب کوئی کرپشن کرے، یہ کرپشن تو ثابت نہ کرسکے، منی لانڈرنگ کے الزامات کو عدالت میں لے گیا ہوں، لندن کے ہائی کورٹ میں کیس دائر کردیا ہے۔ شوگر اسکینڈل میں شریف خاندان کا نام ضرور ہے، اس عرصے میں جو چینی اسکینڈل آیا ہے اس میں میرے خاندان کا نام نہیں، ماضی میں جب بھی چینی کی وافر مقدار ہوتی تھی تو برآمد کرتے تھے، چینی اور گندم وافر مقدار میں ہو تو برآمد کرنا بری بات تو نہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب یہ بھی کہا کہ چینی اسکینڈل موجودہ حکومت کے چہرے پر بدنما دھبہ ہے، 2018ء اور 2019ء میں اتنی چینی نہیں تھی کہ برآمد کریں، چینی کا سرپلس تھا ہی نہیں تو ایکسپورٹ کہاں سے کیا، یہ ہے ان کی ڈکیتی پاکستان کے خزانے پر، بات بزدار صاحب کی 3 ارب روپے کی سبسڈی کی نہیں ہے۔
میاں محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ نے کوئی سبسڈی نہیں دی، 2019ء میں چینی کی برآمد شروع ہوئی تو ڈالر تیزی سے مہنگا ہوا، 2018ء میں ڈالر 135 روپے کا تھا، 2019ء میں 155 روپے کا ہوگیا، اس آڑ میں انہوں نے اربوں روپے کمائے۔ 2018ء میں ہم نے حکومت چھوڑی تو چینی 52 روپے کی تھی مگر 2019ء میں چینی کی قیمت 80 روپے کلو تک پہنچ گئی، یہ فیصلہ تو وزیراعظم کا ہے، ای سی سی کا فیصلہ کابینہ میں جاتا ہے، عمران خان کی زیرصدارت کابینہ نے چینی برآمد کی منظوری دی، چینی اسکینڈل کی ذمے داری براہ راست وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ کے رہنماؤں کی ضمانتیں منسوخ کرانے کے لیے نیب عدالتوں میں جاتا ہے، کبھی نیب پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانتوں کی منسوخی کے لیے عدالت گیا؟ اپنے بچوں کا دفاع نہیں کررہا، مگر انصاف ہے کہاں؟ موجود چیئرمین نیب کا فیصلہ ہماری پارٹی نے کیا، جس کی تعیناتی پر مجھ سے رائے لی گئی تھی، یہ بات طے ہے نیب نیازی گٹ جوڑہے، نیازی نیب تمام تیر مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے خلاف ہیں اور یہ نیب نیازی کی بدترین انتقامی کارروائی ہے۔
شہباز شریف یہ بھی کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے کلاس میں کوئی ابہام ہے تو تمام پارٹیوں کو مل کر دیکھنا ہوگا، پنجاب بڑا بھائی ہے، چھوٹے بھائیوں کا خیال رکھنا اس کا فرض ہے، پچھلے این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب نے 15 ارب روپے دوسرے صوبوں کو دیے، پنجاب نے چھوٹے بھائیوں کو این ایف سی ایوارڈ میں اپنےحصے کا دیا، ہم نے یہ ملکی یکجہتی کے لیے کیا۔
قائد حزب اختلاف مزید کہا کہ ہمیں اٹھارہوں ترمیم میں حمایت پر نیب کیسز ختم کرنے کی پیشکش نہیں ہوئی، اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ اٹھارہویں ترمیم میں حمایت پر نیب کیس ختم کرنے کی پیش ہوئی، عمران خان نے اپنے وعدے پر یوٹرن لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کی جدوجہد کی تائید کرتا ہوں، صحافیوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اس کی مذمت کرتا ہوں، عمران خان کو میڈیا نے اس مقام پر پہنچایا، خدارا ہوش کے ناخن لیں اور میڈیا پر پابندیوں نہ لگائیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ چند دن پہلے خبر آئی کہ صدرمملکت عارف علوی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات کریں گے، اگلے دن صدر اور وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات منسوخ ہوگئی، وزیراعظم وزیراعلیٰ سے ملنے سے انکار کرتے ہیں، اس صورتحال میں قومی ہم آہنگی کیسے ہوگی۔
کورونا وبا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے جس ملک نے کورونا کو غیرسنجیدگی سے لیا وہاں تباہی مچ گئی، ہم نےکورونا کو سنجیدہ نہیں لیا، لاک ڈاون پر غیرضرورت بحث چھیڑی گئی۔