• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس سے جہاں ایک طرف دنیا کی معیشت کو بدترین نقصانات کا سامنا ہے تو دوسری طرف لاک ڈائون، ٹرانسپورٹ اور ایئرلائنز کی بندش کی وجہ سے دنیا میں تیل کی طلب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

تیل ذخیرہ کرنیوالی دنیا کی سب سے بڑی کمپنیRoyal Vopak NV نے کہا کہ اس کی دنیا میں تیل ذخیرہ کرنے کی تمام اسٹوریج سہولتیں بھر چکی ہیں جبکہ Clarksons Platouکے مطابق تیل ذخیرہ کرنے کے تمام فلوٹنگ ذخائر بھی مکمل طور پر بھر چکے ہیں جسکے باعث جہاز سمندر میں تیل ڈسچارج کرنے کے انتظار میں مارے مارے پھررہے ہیں۔

امریکہ میں تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہونے کی خبروں کے بعد گزشتہ دنوں امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار ایک دن میں 107فیصد یعنی 37.63ڈالر فی بیرل کمی سے منفی 0.05ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگئی جس نے خام تیل کی مارکیٹ کو کریش کردیا۔

حالانکہ اس موقع پر اوپیک ممالک اور اُنکے اتحادیوں نے ایمرجنسی وڈیو کانفرنس کے ذریعے تیل کی طلب میں شدید کمی کے پیش نظر تیل کی پیداوار میں 10فیصد کمی کرنے کا اعلان کیا جسکے تحت اوپیک اور اتحادی ممالک یومیہ 9.10ملین بیرل تیل کی پیداوار کم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں زوال کی ایک وجہ سعودی عرب اور روس کے درمیان معاشی جنگ بھی ہے۔

اس موقع پر روس کے وزیر توانائی نے کہا کہ روس فوری طور پر 2سے 3لاکھ اور طویل المدت 5لاکھ بیرل یومیہ اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب کسی بھی ملک کے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی، اسلئے تیل کی طلب ختم ہو گئی ہے جسکا سب سے زیادہ نقصان امریکی آئل کمپنیوں کو ہوگا۔

تیل کی قیمتوں کا ایک جائزہ لیا جائے تو عالمی منڈی میں 1970تک تیل کی قیمتیں 2.5سے 3ڈالر فی بیرل رہیں جو 50برسوں کے افراط زر کے تناسب سے 17سے 20ڈالر فی بیرل بنتی ہیں جبکہ اس دوران امریکہ دنیا میں تیل پیدا کرنیوالا سب سے بڑا ملک رہا۔

1960میں تیل پیدا کرنیوالے دوسرے بڑے ملک سعودی عرب اور دیگر تیل پیدا کرنیوالے ممالک نے اوپیک کی بنیاد ڈالی۔ 1971ءمیں امریکی کمپنیوں کو اجازت دی گئی کہ وہ جتنا چاہیں تیل پمپ اور اضافی تیل کو ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح امریکہ تیل ذخیرہ کرنیوالا دنیا کا اہم ملک بنادیا گیا۔

2015ءمیں امریکہ کے شیل آئل کی پیداوار اور سپلائی میں اضافہ ہوا جسسے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرکر 13سالہ کم ترین سطح 26.64ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئیں جس کے باعث اوپیک ممالک کو اپنی پیداوار میں کمی کرنا پڑی۔

جنوری 2019ءمیں تیل کی قیمتیں دوبارہ بڑھ کر 69ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں جو جنوری 2020ءمیں کورونا وائرس کی وجہ سے ایئر لائنز کی بندش اور عالمی منڈی میں تیل کی طلب میں 5.6ملین بیرل یومیہ کمی کے باعث 23ڈالر فی بیرل تک گرگئیں اور بالاخر پیر 20اپریل 2020کو تاریخ میں پہلی بار امریکی تیل ایک دن میں 50ڈالر فی بیرل کمی سے صفر سے 37.63ڈالر فی بیرل سےنیچے بند ہوا اور بعد میں امریکی تیل 10ڈالرز فی بیرل کی نچلی سطح پر بند ہوا۔

تیل کی منفی قیمت کے معنی تیل فروخت کرنے والا، خریدار کو ڈلیوری لینے کے بدلے تیل کی قیمت لینے کے بجائے خود پیسے دینے کو تیار تھا تاکہ وہ تیل کے بھرے جہاز سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔

دنیا کی اکانومی 1929ءکے عالمی معاشی بحران کی طرف جارہی ہے جو امریکہ کے تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے بعد روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار تنازع کا سبب بنی۔ اس سال نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری کوشش ہے کہ امریکی معیشت جلد از جلد بحال ہوجائے لیکن دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک امریکہ میں تیل کے موجودہ کنوئیں بند اور نئے کنوئوں کیلئے ڈرلنگ روک دی گئی ہے کیونکہ تیل نکالنے کی لاگت تیل کی قیمت سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس قیمت پر تیل پیدا کرنا نقصان دہ ہے۔

ان حالات میں امریکہ میں تیل کی پیداوار میں تقریباً 20فیصد یعنی 1.75ملین بیرل یومیہ فوری کمی اور اس شعبے سے وابستہ ہزاروں ورکرز کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے جسکے منفی اثرات ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم پر پڑیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں دنیا کے دوسرے بڑے تیل پیدا کرنیوالے ملک سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں 20فیصد اضافہ ہوا تھا لہٰذا مشرق وسطیٰ میں کسی طرح کی جنگ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے لہٰذا اس امید پر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں محاذ کھولنے کو تیار ہیں جس میں بحیرہ عرب میں ایران کیساتھ محاذ آرائی بھی شامل ہے۔

آئی ایم ایف نے تیل پیدا کرنیوالے خلیجی ممالک کو متنبہ کیا ہے کہ مستقبل میں تیل کی طلب اور قیمتوں میں کمی کے باعث تیل پر زیادہ انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت دبائو کا شکار رہے گی لہٰذا خلیجی ممالک کو اپنی تیل پر منحصر معیشت کو دیگر شعبوں میں تنوع دینا ہوگا ورنہ اُن کی معیشتیں کریش ہو سکتی ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ آج یہ ’’ہتھیار‘‘ بوجھ بن گیا ہے اور اِس ’’کالے سونے‘‘ کا کوئی مفت خریدار نہیں۔

تازہ ترین