• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی۔۔بریڈ فورڈ
2014 میں سعودی سپریم کورٹ کی جانب سے سعودیہ وزارت عدل و انصاف سے متعارف کرانے کی غرض سے اسلامک شریعہ کونسل لندن کے دس ممبران کودعوت دی گئی ۔ ہمارا یہ وفد معروف اسکالرز ڈاکٹر صہیب حسن دام ظلہ کی قیادت میں ریاض پہنچا ۔ حسب معمول زیارت حرمین شریفین اور دیگر مقامات مقدسہ کا دورہ بھی کرایاُگیا ۔روضہ اقدس کی زیارت سے پہلے مسجد نبویﷺ کے تہہ خانے میں حرمین شریفین کی انتظامیہ کی جانب سےایک تقریب منعقد کی گئی جس میں ڈاکٹر عائض نے روضہ اقدس اور مسجد نبوی کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے بارے میں مکمل وضاحت کی گئی۔ پروٹوکول کے طور پر روضہ اقدس اور ریاض الجنۃ کو ہمارے لیے خالی کرلیا گیا اور حجرہ اقدس میں جس جگہ ہمیں صلوۃ سلام پڑھنے کے لیے کھڑا کیا گیا جب یہ احساس ہوا کہ ہم کائنات کی ان عظیم ہستیوں سے چند فٹ فاصلے پر ہیں تو دل پر جو کیفیت طاری ہوئی اس کے احساس سے ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کہاں میں اور کہاں نکہت گل۔نسیم صبح تیری مہربانی۔ اس سے پہلے مدینہ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہم مغرب سے عشاء تک روضہ اقدس کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر’’ سبعہ عشرہ قرأت کے قواعد پر مشتمل ’’ شا طبی ‘‘ یاد کیا کرتے تھے ۔ روضہ اقدس پر کھڑے ایک دو محا فظین ہمارے محلے ’’حی الشہداء ‘‘ سے تعلق رکھتے تھے ۔ انہیں تجدید وضو کے لیے جانا ہوتا تو وہ مجھے سوٹی پکڑا کر چلے جایا کرتے تھے اور یوں مجھے روضہ اقدس پر کھڑا ہوکر زائرین کو صلوۃ و سلام پڑھانے کا موقع مل جاتا تھا ۔ لیکن اب تو کمال ہوگیا ۔ بہرحال ہمیں لیکچر کے ذریعے جو بتایا گیا ان میں سے کئی معلومات ہمارے لیے بھی بالکل نئی تھیں،ان کا خلاصہ ذکر کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر عائض نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر کئی باقاعدہ قبریں رسول اقدسﷺکی قبر شریف کے طور پر بتائی جاتی ہیں جو بالکل جھوٹ ہے ۔ بعض دفعہ مولانا جلال الدین رومی کی قبر کی تصویر روضہ رسولﷺ کے طور پر پپیش کی جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی اور کی فرضی قبر بنا کر باور کرایاجاتاہے کہ یہ قبر نبوی الشریف ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے ۔ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف جو کائنات میں خانہ کعبہ المشرفہ کے بعد روئے زمین کا سب سے مقدس مقام ہے ۔ وفات نبوی حضرت ام المومنین سیدہ صدیقہ کائناتؓ کے حجرہ مبارکہ میں ہوئی ۔ اندازہ لگائیے کہ ام المومنینؓ کے حجرہ مبارکہ کی شان کا کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حبیب کائناتﷺ کے جسد اطہرکیلئے قیامت تک کیلئے جو جگہ منتخب کی گئی اس سے بڑھ کر کونسی جگہ مبارک ہوسکتی ہے ؟ ۔ سیدہ عائشہ ام المومنینؓ کے اس اعزاز کے سامنے کائنات کی ہر نعمت ہیچ ہے ۔ اللہ کریم ہمارا حشر سیدہ کائناتؓ کے قدموں میں مقدر فرمائے ۔ وفات نبوی کے دو سال بعد اسی حجرہ مبارکہ میں دوسری قبر افضل البشر بعد الانبیاّ سیدنا وامامنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ بنی ،پھر دس سال بعد تیسری قبر الشریف محدث وملہم امت دنیاکے سب سے بڑے فاتح اور عادل حکمران جس کے سامنے کوئی سکندر اعظم نہیں کہلا سکتا فاروق اعظمؓ کی بن پائی ۔ ام المومنینؓ نے اب حجرہ مبارکہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک حصہ ام المومنینؓ کی رہائش گاہ بنا اور دوسرے حصے میں آسمان کے نیچے سب سے معززمدفون شخصیتوں کی قبر شریفہ کے لیے مخصوص ہوگیا۔ یہ حجرہ مبارکہ اس کے تقریبا پچاس سال تک ام المومنینؓ ہی کے زیر تصرف رہا ۔ اس دوران میں دیواریں بوسیدہ ہوگئیں لیکن آپ چونکہ وہاں قیام پذیر تھیں اس لیے حجرہ مبارکہ کی حفاظت ہوتی رہی ۔ ام المومنینؓ کی وفات57 ہجری میں66 سال کی عمر میں ہوئی اس کے بعد قبر شریف میں کسی قسم کی تبدیلی کی کسی کو جرأت نہ ہوئی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں خوب دیکھ بھال کی حتیٰ کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور ہمایوں99 ہجری میں روضہ الشریفہ کی تعمیر نو کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ روضہ الشریفہ کی دیواریں اور سقف رحمت بوسیدہ ہونے کی وجہ سے بیٹھ گئیں اور سقف مبارک کا ملبہ قبور شریفہ پر گرگیا ۔ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور تھا انہوں نے حجرہ مبارکہ کا ملبہ اسی طرح محفوظ کردیا اور اس کے اردگرد دیواربنا دی ۔ وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ کونوں پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں، لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔ گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔ روضہ رسولﷺ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج کونوں والی دیوار پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج کونوں والی دیوار، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔ گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود، مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔ یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔ العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں مرحوم شاہ فہد رحمہ اللہ کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا تھا ۔ اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت کے نامور نامور مورخ ، فقیہ اور ماہر تعمیرات علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہﷺ اور آپ کے دونوں خلفاءؓ کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبرمبارک تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔ اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔ یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں اللہ کریم میرے نبی اقدس و اطہر کی قبر مبارک اورمثیل جنت کی حفاظت فرمائے ۔
تازہ ترین