راحیل احسان
نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔یہ اگر کچھ مثبت کرنے کی ٹھان لیں تو قوم کی تقدیرکو سنورنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔موسمی تغیر کو دیکھتے ہوئے گزشہ کئی برسوں سے ’شجرکاری‘ کی اہمیت سے معاشرے کے ہر طبقے کوروشناس کیا جارہا ہے، خصوصاً نوجوانوں کو اس حوالے سے اہم کرادار ادا کرنے کے لیے بھی آمادہ کیا جارہا ہے،لیکن نوجوا ن اس حوالے سے بہت زیادہ تحریک دکھائی نہیں دیتے۔
موبائل اور انٹرنیٹ نے ان کی روزمرہ کی زندگی کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ اب کسی اور مشغلے کے لیے سوچنے کے لیے بھی انہیں ٹائم نکالنا پڑتا ہے۔ کئی تعلیمی اداروں نے معاشرتی ذمے داری نبھاتے ہوئے طلبہ میں شعور بیدار کرنے کی کوشش تو کی ہے،لیکن ایک طالب علم،ایک پودا لگا کراُسے بھول جائے،یہ کون سی ایمان داری ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں سے لگائے جانے والی ننھی کونپلوں اور پودوں کونہ صرف مناسب مقدار میں پانی دیا جائے بلکہ ان کاہر طرح سے خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں،کئی دہائیوں سے پاکستان میں درختوں کی کٹائی اور قدرتی آفات کے باعث جنگلات کے رقبے میں کمی واقع ہوئی ہے،پہلے ہی پاکستان میں جنگلات صرف دو سے پانچ فی صد حصے پر مشتمل ہیں ،جو کہ اقوام متحدہ کے تجویز کردہ 12 فی صد کی شرح سے کم ہے،پاکستان کا شمار ایسے پہلے چھ ممالک میں بھی ہوتا ہے جو گلوبل وارمنگ سے متاثر ہو رہے ہیں،شہروں کی آبادی میں اضافے سے ماحول خطرے میں ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات کل اراضی کے محض پانچ فی صدرقبے پر ہی موجود ہیں، اس میں نہ صرف قدرتی بلکہ زرعی اراضی پر موجود جنگلات کی مجموعی تعداد بھی شامل ہے۔
عالمی ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے حقائق اور حکومتی اعدادوشمار متضاد ہیں،بین الاقوامی اداروں کے بقول پاکستان میں صرف دواعشاریہ ایک فی صد اراضی پر جنگلات موجود ہیں اور پاکستان میں ہر سال جنگلات کی شرح پیداوار منفی دو فی صد ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ درختوں کی بے دریغ کٹائی سے سالانہ 27ہزار ہیکٹر سے زائد اراضی بنجر ہو رہی ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ 40سال تک پاکستان مکمل طور پر بنجر ہوجائےگا۔ شہری و دیہی علاقوں میں گرمی کا زور کم کرنے اور ماحول کو صاف ستھرا کرنےکےلئے سادہ طریقہ’ شجر کاری‘کا ہے۔ یہ درخت ہی ہیں جو سایہ دیتےاور اپنے پتوں سے آبی بخارات خارج کرتے ہیں۔
جس سے درجہ حرارت کم کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔اگر مجموعی طور پر دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں مختلف بیماریوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ماہرین صحت کہتے ہیں اسپتالوں کو آباد کرنے سے بہتر ہے پارکس اور میدانوں کو آباد کریں۔لیکن دنیا کے جھمیلوں میں پھنسےشہریوں کوتو چھوڑیں ہمارے نوجوان اپنے وقت کا بڑا حصہ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر صرف کر رہے ہیں اور پھول، پودوں، درختوں کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔اس میں قصور ان نوجونوں کا نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں کا بھی ہے کہ انہوں نے اس ہم مسئلے پر توجہ نہ دی۔اگر نوجوانوں کو ماحولیاتی آلودگی کا شعور دیا جاتا اور درختوں کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا تو شایدوہ دیگر مشاغل کے ساتھ باغبانی کا مشغلہ ضرور اپناتے۔اپنے فارغ وقت میں ایک نوجوان صرف ایک پودا لگائے اور اس کی دن رات حفاظت کرے تو ہمارا ملک سرسبزو شاداب ہوجائے۔
درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں گرمی کا عرصہ اور شدت دونوں بڑھ رہے ہیں۔جس کی وجہ سے روئے زمین پر موجود ہر جاندار ہی متاثر ہورہا ہے۔ہمیں اپنے ماحول کو بچانا ہے۔ اکثرہمارے شہر اورتعلیمی اداروں میں ’’شجرکاری‘‘مہم کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے،جہاں طلبہ ذوق و شوق اوربڑھ چڑھ کرحصہ بھی لیتے ہیں،لیکن ہم کیاریوں میں بوائی اور پودوں کی حفاظت کو اپنی معمول کی زندگی میں شامل نہیں کرتے۔
شہر میں گاہے بگاہے ’شجرکاری‘مہم کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔نوجوانوں میں یہ جوش خروش دیدنی ہوتا ہے ،لیکن اگر ہم اسے اپنی عادت بنالیں تو تقیناًنہ صرف موسم پرخوش گواراثرپڑے گابلکہ،چہار سو سبزہ آنکھوں کو بھی بھلا محسوس ہوگا۔اگرآپ درخت نہیں لگا سکتے یا مناسب جگہ یا انتظام نہیں تو گھر میں کسی گملے میں ایک پودا ہی لگا لیں اور اس کا اسی طرح خیال رکھیں جیسے کہ گھر کے کسی فرد کا، مطلب اس کو وقت پر پانی دینا، سورج کی مناسب روشنی فراہم کرنا اور اس کی کٹائی چھٹائی کا خیال رکھنا ۔پودے جاندار ہوتے ہیں اور یقیناً جب آپ اپنے گھر میں ایک پودے کو اپنی روز مرہ کی مصروفیت میں سے ٹائم دیں گے تو یقین کریں آپ ایک اچھی تبدیلی محسوس کریں گے۔آپ کے لگائے ہوئے ایک پیڑ کا پھل آنے والی سات نسلیں کھائیں گی۔شدید گرمی میں کسی بوڑھے درخت کی چھاؤں تلے آتے ہی گرمی کے ستائے شخص کی ساری تھکن دور ہو جاتی ہے اور اس کا ثواب بھی براہِ راست اس شخص کو ملتا ہے جس نے یہ درخت لگایا ہوتا ہے۔
اس حوالے سے نوجوانوں کو سنجیدگی سے آگے آنا ہوگا۔ طلبہ و طالبات تہیہ کرلیں تو صحت مند معاشرے کا قیام کچھ مشکل نہیں۔’’ایک درخت،ایک طالب علم کے ذمے ‘‘کی بنیاد پراگرہر محلے میں اس طرح کی سرگرمیوں کا آغاز ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ محض چند سالوں کے اندر ملک میں لاکھوں درخت فطری ماحول کو جنم دیں گے اورشہر کے گلی کوچوں میں قدرتی حسن بکھیر دیں گے۔ یہ ذمے داری ایسی ہے جو زیادہ وقت مانگتی ہے اورنہ ہی بڑے وسائل ۔ ہمیں انسانی خدمت کے جذبے کے تحت اس سلسلے میں آج سے ہی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوششوں کا آغاز کردینا چاہیے۔ماہرین ہریالی اور پانی کا آپس میں گہرا تعلق بیان کرتے ہیں۔درخت اور ہریالی بارش کا سبب بنتے ہیں اور بارش سے جہاں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوتی ہے وہیں زمین پر موجود پانی کے ذخائربھی بڑھتے ہیں۔
پانی تو زندگی ہے، یہ سب کو معلوم ہے لیکن اس کا شعور بہت کم لوگ رکھتے ہیںاور یہ شعورہی توبرق رفتاری سے بڑھانا ہے کہ جتنی تیزی سے شجر بڑھیں گے اتنی جلدی ہم اپنےسروں پرلٹکتی ہیٹ اسٹروک اور قحط سالی کی تلوار سے چھٹکاراپاسکیں گے۔ اسی طرح شہروں کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ کھلے مقامات پر پھینکنے کی بجائے اس مقصد کے لیے بنائے گئے ڈمپنگ پوائنٹس اور کوڑا دانوں میں رکھا جائے، شہری شاپنگ کے لیے شاپر بیگ کی جگہ کپڑے کا تھیلہ استعمال کریں۔ دودھ ، دہی اور دیگر اشیاء شاپر بیگ میں گھر لینےکی بجائے برتن میں لینا اپنا معمول بنائیں،یہ سب ہم نوجوان ہی ممکن بنا سکتے ہیں۔