• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناہید خان

جیسے ہی ڈور بیل بجی ،ہم سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے تکنے لگے کہ ایسے ماحول میں، جب گھر تک میں سب ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیں اور دُور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو بھلا کون آگیا۔میاں جی جیسے ہی دروازہ کھولنے کے لیے اُٹھنے لگے، مَیں نے اشارے سے منع کیا کہ مبادا کہیں دروازے پران کا کوئی جگری دوست ہو اور وہ جذبات سےمغلوب ہوکر ہاتھ ملالیں یا گلے لگ جائیں ، تو خدانخواستہ لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں۔ 

اس ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر مَیں ماسک اور دستانے پہن کر خود ہی دروازے پر جا پہنچی ۔انتہائی دھیمی آواز میں پوچھا’’ کون ہے…؟ ‘‘لہجہ ایسا تھا کہ کہیں کورونا دروازے کی جھریوں سے میری آواز کی لہروں کے ساتھ مجھے آکر نہ دبوچ لے۔’’ آنٹی! مَیں ہوں۔‘‘ ’’ انس …‘‘ مَیں منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ ’’کیا کام ہے بیٹا؟‘‘ کورونا کے خوف نے تاحال دروازہ کھولنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی تھی، حالاں کہ انس ہمارے پڑوس ہی میں رہتا تھا اور میرے بچّوں سے اس کی بہت اچھی دوستی تھی ۔’’آنٹی! وہ امّی نے بریانی بھیجی ہے ،یہ لے لیں۔‘‘کچھ اخلاق کے تقاضے اور کچھ بریانی کی خوش بُو نے دروازہ کھولنے پر مجبور کرہی دیا، تو سامنے معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ بچّہ پلیٹ لیے منتظر تھا ۔

مَیں نےاحتیاط سے پلیٹ لیتے ہوئے شفقت سے تنبیہ کی کہ’’ بیٹا گھر سے کیوں نکلے ؟‘‘ پھر ازراہِ مذاق کہا کہ ’’آپ کو نہیں پتا، گلی میں کورونا گھوم رہاہے۔‘‘ بچّہ ہنستے ہوئے بولا ’’وہ امّی نےبریانی پکائی تھی تو آپ کے لیے بھی بھیج دی۔‘‘’’اچھا ‘‘کہتے ہوئے میں کچن میں گئی پلیٹ خالی کی اور اچھی طرح دھوکرشکریے کے ساتھ واپس کردی۔ بریانی چوں کہ گرماگرم تھی اور میری معلومات کے مطابق حرارت کورونا کی موت ہے،تو یہ سوچ کر کہ اگر کم بخت ہوا بھی، تو بریانی ہی میں کہیں مر کھپ گیا ہوگا،میاں، بچّوں کے سامنے لاکر رکھ دی۔اُن لوگوں نے بھی خوب ہاتھ صاف کیا اور مجھے بس برتن ہی صاف کرنے کا موقع ملا۔یہ کورونا کے عفریت کے آغاز کے دنوں کی بات ہے۔

پھر جیسے جیسے دن گزرتے گئے، خوف اور دہشت میں بھی کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسےبرسوںپرانا زمانہ واپس آگیا ہو۔کب کب کے بُھولے رشتے داروں کے فون آنے لگے ۔حیرت تو مجھے تب ہوئی جب میری اُن خالا کا فون آیا، جن سے زمانوں سے بات نہیں ہوئی تھی۔ اب تو محلّے سے بھی آئے روز کسی نہ کسی گھر سے کوئی پکوان آجاتا ہے ۔ شام ڈھلتے ہی بچّے، مرد اپنی اپنی چھتوں پر چڑھ آتے۔لوگ مساجد نہیں جا رہے، مگر گھروں میں عبادت کا ماحول ہی الگ ہے۔کوئی روٹھے ربّ کو منانے کی کوششوں میں لگا ہے، تو کسی کو منہگائی میں پِسے غریبوں کی فکر ستارہی ہے۔ غریبوں کے گھروں میںراشن کے ڈھیر لگ گئےہیں۔

واہ کوروناتُو توبڑا ہی ’’میسنا‘‘اچانک ہی میںدلوں سے ساری کدورتیں ،نفرتیں مٹاکر محبتیں اور احساس بھر دیا۔ کل میاں نے چائے پی کر کپ خود ہی دھو کر رکھ دیا ۔ میری حیرانی پر کہنے لگے ’’ارے تو کیا ہوا، شہر بند ہے، میرا دفتر بند ہے، مگر تمہارا کام تو بڑھ گیا ہے ناں۔‘‘ مارے حیرت کے کچھ کہہ ہی نہ سکی کہ یہ تو میرا دل جانتا ہے کہ اُن کے الفاظ میرے لیے کتنے ان مول ہیں، سُن کر سیروں خون بڑھ گیا۔اورمَیں سوچ رہی ہوں کہ اس ساری صورتِ حال کے بھی دو پہلو ہیں۔ایک طرف میڈیا کی چیخ چنگھاڑ ،ناقص انتظامات کا واویلا،تو دوسری طرف حقیقی زندگی کی طرف قدم بڑھاتی انسانیت۔

یاد ہے،ہم دعاؤں میں کہتے تھے کہ ’’اے اللہ، مالکِ دو جہاں! ہم بے بس ہیں ، ہمیں ہاتھ پکڑ کر اپنے راستے پر چلا دے ‘‘ تو بس اُس نے ہاتھ پکڑ کر اپنے رستے پر لا کھڑا کیا ہے ۔یہی سوچتے ہوئے میرے دل میں بھی خوف کی جگہ اطمینان نے لے لی اور اب بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔ کورونا کسی کے لیے ایک آفت اور مصیبت سہی،مگر ہم جیسوں کو وہ سکھانے آیا ہے،جو ہم بھول گئے تھے ۔میرے ربّ کی مشیّت بھی نرالی ، سمجھانے کا انداز بھی نرالاہے ۔ایک حقیر سے،نظر نہ آنے والےوائرس کے ذریعے ہمارے معاشرے، بلکہ پوری دنیا میں دَم توڑتی انسانیت زندہ کر دی۔ دنیا متحد ہوگئی، لوگوں کو ایک دوسرے کے لیےوقت میسّر آگیا، بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست دکھائی سے دےگئی۔

ذہن میں انہی سب سوچوں کی یلغار جاری تھی کہ میاں کی ایک زوردار چھینک نے سارا تسلسل توڑ دیا۔گھور کے اُنہیں دیکھا تو ناک پونچھتے ہوئے، میری مشکوک نظریں سمجھ گئے، ڈپٹ کر بولے ’’ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ کچھ نہیں ہوا مجھے۔ موسم کا اثر ہے ،جاؤ ادرک کا قہوہ بنا کر لاؤ ‘‘اور مَیں جلدی سے شُکر مناتی وہاں سے کھِسک لی کہ کہیں ان کا ’’نزلہ‘‘ مجھ ہی پر نہ گر جائے۔

تازہ ترین