• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر دانش وَروں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے بعد دنیا یک سر بدل جائے گی، جب کہ بعض کا خیال ہے انسانوں کو نابود کرنے کے لیے سامراج اور اس کے حواری بموں کے انبار اور اسلحہ ساز فیکٹریز سے انسانی اموات پر جو منافع کما رہے ہیں، وہ کیسے انسان پر انسان کی بالادستی ختم کرنے پر راضی ہوں گے۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں صحت، تعلیم اور فلاح پر بھرپور توجّہ کے ساتھ انسانی ترقی پر بھی زور دیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کورونا وائرس کے ڈرامے کو اس نہج پر لے جایا جائے کہ امریکا سمیت ہر سمت انارکی پھیل جائے، لوگ راشن کے لیے ایک دوسرے کو چبا جائیں۔ لوگوں کے دماغ اس حد تک مائوف ہوجائیں کہ وہ غلامی کی زندگی تک قبول کرلیں۔ گلوبلائزیشن یعنی عالم گیریت کا مقصد یہ تھا کہ قومی ریاست کو ختم کرکے دنیا کو عالمی گائوں بنادیا جائے۔ سرحدیں، کسٹم ختم کرکے ایسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے کہ نئی نسل ایک دوسرے سے دُور ہوجائے۔ 

اگرچہ تنہائی کا پہلو تو سامنے آگیا تھا، لیکن فٹ بال کے میدان، اولمپک میں اقوامِ عالم کا اجتماع، سنیما گھر اور مذہبی تہواروں میں لوگ اکٹھے ہورہے تھے، تو ایسے میں جو بے حیائی کی تمام حدیں عبور کرکے دنیا کو چلانے کی خواہش رکھتے تھے،انہوں نے جب دیکھا کہ کھیل، تفریحات اور مذہب آڑے آرہا ہے اور دوسری جانب چین بڑی تیزی سے دنیا بھر کو اپنا صارف بنا رہا ہے اور تیسری عالمی جنگ ممکن نہیں رہی، تو بائیولوجیکل (حیاتیاتی) جنگ چھیڑ دی گئی۔ لہٰذا تین بڑے سامراجی ممالک نے کورونا وائرس کے ذریعے دنیا کودینی احکامات سے دُور کرکے کھیلوں کے میدان ویران اور سیّاحت کو ختم کرکے ایک خواب بنادیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے اپنے پرائے مار دیئے جائیں اور لوگ خوف کے مارے جہالت کے آخری سرے پر پہنچ جائیں، پھر طاقت ور دنیا کوئی اور کھیل رچائے۔

فی الحال موجودہ صورتِ حال میں توورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن( WTO )بھی ناکام ہے، کیوں کہ امریکا نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ چین کے چَھا جانے کے خوف سے آج سامراج نے دنیا کو دانستہ تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس ڈرامے کا ڈراپ سین کون کرے گا؟ اور کیا دنیا بدلے گی یا پھر جن عالمی سرمایہ داروں نے سوچ رکھا ہے کہ سیٹلائٹ اور دوسرے ذرائع سے آسمانوں کی پنہائیوں میں جابسیں گے اور بعدازاں سیارئہ ارض پر ایک نئے انداز سے لوٹیں گے۔ 

حالاں کہ تاریک انرجی کے بارے میں سائنس دانوں کی آرا مختلف ہیں، کیوں کہ نیو ورلڈ آرڈر بھی ناکام ہوگیا ہے۔عالمی تجارتی تنظیم اور ملٹی نیشنلز کے لیور استعمال کرتے ہوئے منڈیوں کو آزاد کروانے کے لیے کسٹم اور دیگر محصولات سے آزادی، سرمائے کی آزاد ٹریفکنگ، آزاد مقابلے، نج کاری، ڈی ریگولیشن اور ڈی کنٹرول کی شرائط بھی ناکام ہوچکی ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ عالمی تجارتی کانفرنس میں سبسڈی( زرِتلافی( ختم کرنے کے لیے کئی بار کہا گیا، لیکن امریکا، یورپین یونین اور جاپان نے کسانوں کو دی جانے والی 370؍ارب ڈالر کی سبسڈی ختم کرنے سے انکار کردیا۔ 

جی سیون کا خیال تھا کہ سرمائے کی آزاد ٹریفک سے تجارت کے عالمی حجم میں اضافہ ہوگا، ٹیکنالوجی کی تحقیق کے لیے زیادہ سرمایہ دست یاب ہوگا اور اس سے کثیر سرمایہ پیدا ہوگا، لیکن چین کے دنیا میں چَھا جانے اور نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے بعد نتائج اس کے بالکل برعکس برآمد ہونا شروع ہوگئے۔ ظاہر ہے سرمائے کی تخلیق کا نظام برانصاف نہ ہو، تو جمہوریت، لبرل ازم، شہری آزادیاں اور انسانی حقوق کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس لیے چند بڑی طاقتوں نے اس خوف کو دُور کرنے کے لیے دنیا میں کورنا وائرس کا خوف پھیلا دیا، لیکن اب بڑی طاقتوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس کا ڈراپ سین کیسے کیا جائے؟ 

ان دو نقطہ ہائے نظر پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، خالقِ کائنات نے فطرت کے ذریعے بنی نوع انسان کو کرئہ ارض کے غلط استعمال پر متنبہ کردیا ہے۔ دوسری جانب ’’آکسفام‘‘ نے کرئہ ارض پر رہنے والوں کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے ایک سروے میں بتایا کہ دنیا کے دو ہزار سپر سرمایہ داروں کے پاس پانچ ارب آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ معیشت دان، امرتا سین کے مطابق ’’بھارت کے چار بڑے سرمایہ داروں کے پاس 80؍کروڑ آبادی سے زیادہ دولت ہے۔‘‘ بھارت ہی کی معروف سماجی لیڈر اور ناول نگار، ارون دھتی رائے لکھتی ہیں کہ ’’گزشتہ ایک عشرے میں بھارت کے کسانوں نے مصنوعی بیج حکومتی زیرگردشی قرضوں پر خریدا اور کاشت کیا، لیکن زمین نے مصنوعی بیج قبول نہیں کیا، جس کے نتیجے میں بھوک ننگ سے تنگ آکربہت سے کسانوں نے خودکشی کرلی۔

پاکستان کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہر سال ڈھائی لاکھ بوڑھے، بچّے اور نوجوان جوہڑوں سے آلودہ پانی پی کر موت کی نیند سوجاتے ہیں۔1998ء میں شایع ہونے والی کتاب ’’پاکستان کے مالک کون؟‘‘ کے مصنّف شاہد الرحمان ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’نواز شریف نے ایم سی بی بینک، ایک روپے ٹوکن کے عوض میاں منشا کو فروخت کردیا۔‘‘ پاکستان کے سب اہلِ بست و کشاد اس بات سے واقف ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ یقیناً، دنیا بھر میں اس طرح کی ناجائز منافع خوری کے ذریعے موت اور غربت میں اضافے کا کھیل کھیلے جانے پر قدرت نے کورونا وائرس کی شکل میں اسے بے نقاب کرکے دنیا کو شاید ایک موقع دیا ہے کہ وہ استحصالی سرمایہ دارانہ ہوسِ سود، نفعے اور سٹّے بازی کے نظام کو بدل کر انسانی فلاح، صحت اور تعلیم کے فروغ کا نظام متعارف کروائے اور انصاف کے ذریعے غربت، امارت کے فرق کو مٹائے۔ بصورتِ دیگر یہ صدی دنیا کے لیے آخری صدی بھی ہوسکتی ہے۔ 

دیکھنا یہ ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی، اس کا تعیّن کون کرے گا؟ خیال یہ ہے کہ اس میں چین اور روس کا کردار اہم ہوگا۔ اگرچہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں موت نے اپنے پنجے گاڑے، لیکن غریب ممالک بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ بنی نوع انسان کو اللہ رب العزت کے رحم کا انتظار ہے۔ جس سامراج نے مسلمانوں کو اپنے بارود کا نشانہ بنایا ہوا تھا اور کھربوں ڈالر کے اخراجات سے جابجا بحری اڈّے کھڑے کرکے مسلم دنیا کو تباہ و برباد کررکھا تھا۔ 

قدرت کی طرف سے آج ان کی تباہی و بربادی کا عالم یہ ہے کہ امریکا میں ایک کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ کاروبارِ زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہرطرف سے یہی سوال اٹھ رہا ہے کہ اب دنیا میں پھیلے سامراج کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی جی ڈی پی 90؍ٹریلین ڈالر ہے،جس میں کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ماہ 3.5؍ٹریلین ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی، ایسے میں آئی ایم ایف نے بھی شدید کساد بازاری کا عندیہ دے دیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹس اور انڈسٹریز ٹھپ ہوگئی ہیں۔ تھیچر، ریگن کے آزاد تجارت فارمولا کے نتیجے میں دنیا کے تمام ممالک قرض دار ہوگئے ہیں اور ارتکازِ دولت کی وجہ سے چند ہزار سُپرسرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیز اور بینکوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ 

تاہم، انسانی سرگرمیوں اور کاروبار تباہ ہونے کی وجہ سے نوٹ تقسیم کرنے سے ایسا افراط زر ہوگا، جسے سنبھالنا دنیا کے بس میں نہیں رہے گا۔ یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ امریکا کا ہر شہری قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ گھر کے تمام اسباب قسطوں پر، گھر کرائے پر، زندگی بھر بچت کوئی نہیں کرتا، کنزیومر ازم بہت زیادہ ہے۔ جو ملتا ہے، عیّاشی پر خرچ ہوجاتا ہے۔ وال اسٹریٹ پر جتنے بھی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں، ان میں یہ نعرہ مقبولِ عام تھا کہ ’’امریکا کی ایک فی صد آبادی کے پاس 60؍فی صد دولت ہے۔‘‘ امریکا کی جو مصنوعی دنیا، سود، سٹّے بازی اور کیسینوز پر مبنی تھی، اس کا حشر کیا ہوگا؟ ’’ایپل‘‘ جیسی بڑی کمپنی کو ایک ارب ڈالر روزانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ ائرلائنز 129؍ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکی ہیں۔ اگر کورونا وائرس اس سال آخر تک رہا، تو سرمایہ دار دنیا تباہ ہوجائے گی۔ پاکستان تو ویسے ہی گداگر ہے۔ 

ہم چٹنی سے روٹی کھا کر بھی گزارا کرلیں گے، لیکن اس وائرس کے بعد انسان کی جسمانی مزاحمت کم ہونے کے باعث کئی بیماریاں سر اٹھا سکتی ہیں۔ اس بارے میں بل گیٹس نے بھی اشارہ دیا ہے۔ تاہم، عصرِحاضر کے ان سنگین حالات میں 7؍کروڑ افراد گھر بیٹھے آن لائن کام کررہے ہیں، جو عالمی آبادی کا ایک قلیل حصّہ ہے۔ زراعت میں بھی 254.1؍ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ ہے۔ سرد جنگ کے بعد پراکسی جنگوں میں امریکا 14.8؍ٹریلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ جب سرمایہ داروں کے اچھے دن تھے، تو ایک سرمایہ دار، رگ موس نے کہا تھا کہ ’’ہم خوش نصیب ہیں کہ دنیا کا غریب، جاہل ہے۔‘‘ واقعی، اگر دنیا کی اکثریتی آبادی باشعور ہوتی، تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

بشریات کے مطالعے نے ہمیں بہت سی ایسی رسومات اور روایات سے آگاہ کیا ہے، جو جہالت میں ڈوبے عوام کی زندگی پر اثرانداز ہوتی رہی ہیں۔ مغرب میں بھی ایک دَورایسا گزرا، جب بیماری اور فصلوں کی خرابی کو دیوتائوں کی خفگی یا شیطان کی کینہ پروری پر محمول کیا جاتا تھا۔ زمین کی زرخیزی کے لیے عورتوں کو قربان کردیا جاتا۔ سورج گرہن، چاند گرہن یا دُم دار ستارے کا دکھائی دینا، بادشاہوں یا لوگوں کے لیے منحوس قرار دے دیا جاتا اور قدیم زمانے میں ان تمام رسوم کی خلاف ورزی کو خوف ناک تصوّر کیا جاتا تھا۔ تاہم ،یہ بات دل کو حوصلہ دیتی ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے طبّی ماہرین اور اسکالرز نے مختلف قسم کی احتیاطی تدابیر کی ہدایت کی ہے۔ 

نیز، ایسے حالات میں اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے، تو بھی اموات کی شرح میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔ دعا یہی ہے کہ حالات جلد درست ہوجائیں، تو انسانوں کے لیے بہتر ہوگا۔ اقتصادی صورتِ حال عالمی سطح پر بھی درست نہیں، تیل پہلے 100؍ملین بیرل استعمال ہوتا تھا، اب 60؍فی صد سے بھی کم ہوگیا ہے۔ امریکا نے جو عربوں کے پیٹرو ڈالر اپنی اسکیمز میں لگائے تھے، وہ بھی ہوا ہوگئے۔ یورپ میں سونا، چاندی سمیت دیگر دھاتوں کی کانیں بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں محنت کش بے روزگار ہوچکے ہیں۔ 

برطانیہ، اٹلی، اسپین میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ برطانیہ میں ایک درجن اور اٹلی میں 80؍سے زیادہ ڈاکٹرز کورونا کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ دنیا بھر کی صنعتیں کرنٹ اکائونٹ خسارے اور کساد بازاری کا شکار ہیں۔ یورپ کا عالمی معیشت کے جی ڈی پی میں 23؍فی صد حصّہ ہے۔ اگر یورپ جلد بحالی کے تناسب کی طرف نہ گیا، تولاینحل بحران اقوامِ عالم کے لیے عذاب بن جائے گا، لہٰذا حکمرانوں کو صحت کی سہولتوں، غیر طبقاتی تعلیم، زراعت اور ایگرویل انڈسٹری پرتوجّہ مبذول کرکے خشک سالی اور پانی پر زیادہ دھیان دینا ہوگا۔ کیوں کہ فطرت نے اشارہ دے دیا ہے کہ سبق سیکھ لو اور انصاف و عدل کا راستہ اپنا لو، ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہ صدی انسان کے لیے آخری صدی ثابت ہو۔

تازہ ترین