• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوائل جنوری سے جب چین میںکووڈ19 نامی وبا کے تیزی سے پھیلنے کی خبریں عام ہونے لگیں ،تودُنیا بَھر میں گویا خطرے کی گھنٹی بج گئی ۔ہر مُلک خوف زدہ تھا کہ کہیں وہ اس کی لپیٹ میں نہ آجائے۔اور پھرکچھ ہی عرصے میںیکے بعد دیگرے کئی مُمالک اس عالمی وبا کی زد میں آتے چلےگئے اور اب پاکستان میں بھی کورونا وائرس اپنے پنجے گاڑ چکا ہے ۔ ہر دوسراشخص اعصابی کشیدگی کا شکار ہے۔ ایسے میں دو رویّوں کے حامل افراد زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ایک وہ، جو واضح طور پر گھبراہٹ کا شکار ہیں اور دوسرے وہ، جو اس سنگین صورتِ حال کے باوجود اسے تسلیم نہیں کررہے، لیکن ان کا رویّہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بھی شدید خوف کا شکار ہیں۔

لوگ حفاظتی تدابیر اختیار کیے ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود مطمئن نہیں، کیوں کہ ان کا زیادہ تر وقت ٹی وی یا انٹرنیٹ کے ذریعےکورونا وائرس سے متعلق تازہ ترین معلومات حاصل کرنے میں صرف ہورہا ہے۔ اصل میں وہ ہرطرح کی احتیاطی تدابیر کو درست سمجھ کر اُن پر مِن و عن عمل کررہے ہیں، لیکن اُنہیں اندازہ نہیں کہ یہی رویّہ انہیں مزید مسائل سے بھی دوچار کرسکتا ہے۔ کیوں کہ ایک تو ان کے اعصاب مسلسل کشیدگی کا شکار ہیں، دوم، مختلف ٹونوں ٹوٹکوں پر عمل کے نتیجے میں مدافعتی نظام بھی غیر ضروری حد تک فعال ہے، مگر وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ مدافعتی نظام کا غیر ضروری طور پر فعال ہونا اُسےکم زور کردیتا ہے اور پھر اس میں اتنی قوّت نہیں رہتی کہ وہ جسم میں داخل ہونے والے کسی نقصان دہ حملہ آور کا مقابلہ کرسکے۔علاوہ ازیں،سُنے سُنائے ٹوٹکوں پرعمل کے نتیجے میں عمومی طور پرصحت یابی کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ 

ساتھ ہی ایسے افراداپنے ساتھ، اپنےاہلِ خانہ کے لیے بھی سخت پریشان ہیں، لہٰذا مکمل اور پُرسکون نیند لینے سے قاصر ہیں۔بھوک کم ہوگئی ہے اور غیر ضروری سوچوں کی یلغار بڑھ گئی ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو افرادپہلے بھی ہلّے گلّے کے کچھ زیادہ شوقین نہیں تھے، اب دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔مصافحہ کرنے یا نہ کرنے پر بہت شدید ناگواریت کا بھی اظہار کیا جارہا ہے اور منع کرنے والے کو کئی مذہبی و جذباتی دلائل دیئے جا رہے ہیں۔درحقیقت ،یہ دونوں ہی عمل شدید ذہنی دباؤ کی علامات ہیں۔

یہاں کئی ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لے سکتا ہے کہ پہلے والا ردِّعمل تو ذہنی دباؤ کا اظہار ہے، لیکن دوسرا ردِّعمل کیسےذہنی دباؤ کا نتیجہ ہوسکتا ہے ؟ تو دیکھیے، انسانی دماغ جہاں ایک طرف بہت ذہین، تیز رفتار اور اسمارٹ قدرتی ڈیوائس یا مشین ہے، وہیں اس کے کام کا طریقہ کبھی کبھی عجیب نتائج دکھاتا ہے۔ جب تک ذہنی دباؤ اور اعصاب کی ہمّت یا برداشت کا لیول متوازن رہتاہے، ہم گھبراہٹ کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اس سے نمٹنے کا کوئی نہ کوئی حل سوچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کررونے لگتے ہیں۔اس طرح رونے کی صُورت میں اسٹریس ہارمونز آنسوؤں کے ذریعے خارج ہوجاتے ہیں اور ہم نسبتاً پُرسکون ہوجاتے ہیں۔اورجب دماغ پُرسکون ہوجائے تو وہ مختلف حل بہتر طور پرسوچ سکتا ہے، لیکن جب کسی کا دماغ یا لاشعور یہ تصوّر کرلےکہ درپیش صورتِ حال اس کے اعصاب کی ہمّت سے زیادہ ہے، تو وہ شعوری طور پر مسئلے کے سنگینی قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ 

ضروری نہیں کہ ایسا ہر فرد کے ساتھ ہو، بعض اوقات معلومات کم یا سِرے سے نہ ہونے کی وجہ سے بھی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ لیکن مکمل معلومات ہونے کے باوجود اس کی سنگینی سے انکار کرنے میں زیادہ امکان اسی بات کا ہوتاہے کہ فرد کے اعصاب اس کی شِدّت برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ مثال کے طور پربعض افراد اپنے کسی عزیز کی اچانک موت کا سُن کر یقین نہیں کرتے،کیوں کہ ان کا دماغ اس شدید صدمے کو سہہ نہیں پاتا اور شدّت سے انکار کردیتا ہے۔ بہرکیف،اس وقت کئی افراد شدید اعصابی کشیدگی کا شکار ہیں اور وہ چاہ رہے ہیں کہ ان کے اردگرد سب کچھ پہلے کی طرح معمول کے مطابق نظر آئے اور جب کوئی ان کے سامنے کورونا وائرس کا تذکرہ بھی کرتاہے ،تو وہ بہت شدّت سے اس کی سنگینی کا انکار کرتے ہیں۔

یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کہ تعلیم کی کمی کے باعث اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ وائرس کس طرح ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے اور کیسے بغیر کسی تفریق، تعصب کے ہرایک کو اپنا شکار بنالیتا ہے۔ یعنی معلومات کی کمی اور ذہنی دباؤ دونوں مل کر صورتِ حال مزید سنگین کررہے ہیں۔ ایسے میں ذہنی دباؤ کنٹرول کرنا نہایت ضروری ہے،جس کے لیے سب سے پہلے غیر ضروری اور غیر مصدّقہ معلومات سے کنارہ کریں۔ اخبار ضرور پڑھیں، خبریں ضرور دیکھیں،لیکن یہ خیال رکھیں کہ آپ جس ذریعے سے معلومات حاصل کر رہے ہیں ،وہ قابلِ اعتبار ہے یا نہیں۔ 

ویسے بھی دِن بَھر میں ایک بار تازہ ترین صورت ِحال اور اعداد و شمار جاننا کافی ہے۔اس وقت طبّی ماہرین گھروں میں رہنے اور عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کردہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں،لہٰذاجو اتائی اپنی دکان چمکانے کی کوشش میں لہسن،پیاز کا استعمال یا کچھ اور ٹوٹکےبتا رہے ہیں، ان پر ہرگز عمل نہ کیاجائے۔یاد رکھیں، موقعےسے فائدہ اُٹھانے والے افراد 10فی صد درست معلومات میں، 90فی صدغلط معلومات شامل کرکے اسے مستند بنا کے پیش کرتے ہیں، اس لیے جہاں بھی آپ کو کوئی اپنی تشہیر کرتا نظر آئے،اُس سے تو حتی الامکان گریز کریں۔ 

مانا کہ کئی قدرتی اشیا میں علاج اور بچاؤ پوشیدہ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ انہیں کسی ماہر کے مشورے کے بغیر استعمال کرلیا جائے۔ یاد رکھیں، فی الحال کورونا وائرس کا علاج دریافت نہیں ہوا ہے، جب ماہرین کوئی ویکسین تیار کرلیں گے، تو اس کی خبر مستند ذرائع سے عوام تک ضرور پہنچائی جائے گی۔مشاہدے میں ہے کہ ایک سے دوسرے فردتک جن عوارض کےعلاج ٹوٹکوں کے ذریعے عام ہوتے ہیں،وہ زیادہ ترسوڈو سائنٹفک(Pseudo scientific) جعلی سائنسی ہوتے ہیں ،جن کا آغاز ایسے فیس بُک گروپس اور پیجز سے ہوتا ہے ،جو پیج کی لائکس یااپنی ویب سائٹ پہ وزٹ بڑھانے کے لیے عجیب و غریب، چونکا دینے والی معلومات شئیرکرتے ہیں۔بعد ازاں ،لوگ ان کی وال سے تصدیق کیے بغیر کاپی کر کے شئیر کرلیتے ہیں، لہٰذا ایسے افراد، فیس بُک اور واٹس ایپ گروپس اورعزیز واقارب سے ممکن حد تک روابط محدود کرلیں، جو منفی معلومات پھیلانےکی شہرت رکھتے ہوں یا جو توجہ حاصل کرنےکے لیے کسی بھی قسم کا جھوٹ بولنے سے نہ چُوکتے ہوں۔ 

یہ بھی ذہن میں رکھیےکہ اگر آپ کسی قسم کی مستقل بیماری کا شکار ہیں مثلاً ذیابطیس، بلند فشارِ خون، دَمہ، سرطان، ڈیپریشن وغیرہ تو عمومی حفاظتی اقدامات آپ کے لیے نسبتاً مختلف ہوں گے،لہٰذااپنے معالج ہی کی ہدایات پر عمل کریں۔علاوہ ازیں، خود کو مختلف کا موں میں مصروف رکھیں،اس کے لیے کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، کسی آن لائن کورس میں ایڈمیشن لے لیں یا پھرکوئی پُرانی ادھوری خواہش اور شوق پورا کرلیں۔ ایسے فلاحی کاموں میں ہرممکن طریقے سےحصّہ لیں، جو گھر میں رہ کر کیے جاسکیں۔ 

اس سے ذہنی و قلبی سکون ملے گا، مایوسی اور نااُمیدی کم ہوگی۔ گھر کے بزرگوں اور بچّوں کو کورونا وائرس سے متعلق درست صُورت حال بتائیں اورانہیں پُر سُکون رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔یاد رہے،بہت چھوٹے بچّےبیمار ہونے یا مرنے سے نہیں ڈرتے، کیوں کہ اُن پر موت کا مفہوم واضح ہی نہیں ہوتا ہے۔ وہ بس گھر والوں کا خوف دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ بچّےشدید خوف کی کیفیت میں مبتلاہیں ،تو پہلےاپنے رویّوں کا جائزہ لیں۔ ساتھ ہی بچّوں کو یہ احساس بھی دلائیں کہ آپ اُن کے ساتھ ہیں۔ ان کی بات تسلّی سے سُن کر اُنہیں مناسب الفاظ میں مطمئن کریں۔ بچّوں کے ساتھ مل کر روزانہ ایک وقت مقررکرکے گہری سانس کی مشق اور مراقبہ کریں۔ اس سے اعصاب پُرسکون رہیں گے۔ 

اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ پانچ سے دس منٹ گہری سانسیں لیں اور اس دوران اپنی توجّہ مثبت باتوں پرمرکوز رکھی جائے۔بچّوں کے ساتھ مختلف تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول رہیں۔ انہیں کہانیاں سُنائیں یا ان سے کہانی سُنیں۔روزانہ پندرہ منٹ سے آدھا گھنٹہ ورزش بھی کریں۔آپس میں بحث سے اجتناب بھی لازم ہے۔ ویسے تو عام طور پربھی گھر کا ماحول خوش گواررکھنا ضروری ہے، لیکن ایسے وقت میں، جب کہ سب افراد گھر میں موجود ہوں اور اکثریت کے اعصاب کشیدہ ہوں ،اپنی ترجیحات پہ نظرِ ثانی بہت ضروری ہے۔ 

کھانے کا ذائقہ، نمک کا کم یازیادہ ہونا ، کون کیا کام کرے گا، جیسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں۔ یقین جانیے، فی الحال ہم سب جس بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ،اس کے مقابلے میں یہ جھگڑے بہت ہی غیر اہم ہیں۔ بلکہ اسے ایک اچھا موقع جانیے ،اپنے گھر والوں اور قریبی افراد سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کا۔ ویسے تو نظریاتی مباحثہ صحت مند مصروفیت ہے، جو دماغ کو چست اور فعال رکھتا ہے، لیکن صرف تب، جب یہ سیکھنے کی غرض سےہو،نہ کہ ایک دوسرے سے نفرت کے اظہار کے لیے ۔ شریکِ حیات کے ساتھ محبّت آمیز رویّہ رکھیں۔ بچّوں کو کم سے کم ڈانٹیں۔یہ ایک عمومی غلط فہمی ہے کہ چیخنے چلّانے سے غصّہ کم ہوجاتا ہے،جب کہ یہ وقتی احساس ہے اور جب غصّے کا زور کم ہوتا ہے ،تو اپنے پیاروں سے غلط رویّہ اختیار کرنے کے سبب ہونے والے احساسِ شرمندگی سے اعصابی کشیدگی خاصی بڑھ جاتی ہے۔ یا پھر دوسرے کا ردِّعمل مزید ذہنی تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

عام حالات میں گھریلو خواتین عموماً اس بات کی عادی ہوتی ہیں کہ بچّے اور گھر کے مرد جب دفتراور اسکول چلے جائیں تو وہ گھر کے کام کاج نمٹا نے کے ساتھ کچھ دیر اپنی تفریح یا آرام کے لیے بھی وقت نکال لیں۔ان دِنوں سب کا مستقل طور پرگھروں میں رہنا ان کی مصروفیات بڑھا رہا ہے۔ انہیں ذہنی تھکن ختم کرنے کاموقع نہیں مل رہا۔ ایسے میں بہتر ہے کہ گھر کے افراد بشمول بچّے چھوٹے موٹے کام اپنے ذمّے لے لیں ،تاکہ گھر سنبھالنے والی خواتین تھکن سے مزید ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔

یہ تو وہ تمام اقدامات ہیں، جو گھروں میں رہنے والے افراد خود کو پُرسکون رکھنے کے لیے کر سکتے ہیں، لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ اس وقت عام افراد کی نسبت کورونا وائرس کے مریض اور جوقرنطینہ میں ہیں، زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔مریضوں میں یہ خوف بھی پایا جارہا ہے کہ وہ صحت یاب ہو بھی سکیں گے یا نہیں،بلکہ ان کے پاس جذباتی سپورٹ کے لیے ان کے گھر والے بھی موجود نہیں۔ اور یہ سب سے زیادہ مشکل صورت حال ہے۔ایسے میں سب سے پہلے تو ان مریضوں کو پُر سکون رکھنے پرخاص توجّہ دی جائے۔ کیوں کہ وہ جتنا زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے، ان کامدافعتی نظام اتنی جلدی مزاحمت کرنا چھوڑ دے گا۔ 

اگر وہ اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے ،توظاہر سی بات ہے، احتیاطی تدابیر پر بھی عمل نہیں کریں گے۔یوں اُن کے صحت یاب ہونے کے امکانات مزید کم ہوجائیں گے۔ اس بات کا بھی امکان بہت زیادہ ہے کہ قرنطینہ میں وقت گزارنے والے افراد اپنی باقی ماندہ زندگی میںپوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس کا شکار رہیں،جس کی ایک وجہ انہیں پُرسکون رکھنے کے اقدامات نہ کرنا بھی ہوسکتی ہے۔قرنطینہ میں رہنا ایک مشکل کام ہے،اس کا احساس اور ستایش بعد میں کرنے کی بجائے ابھی کریں،کیوں کہ اس وقت ضروری ہے کہ وہ جو کریں، ذہنی طور پرآمادہ ہوکر کریں۔ انہیں اسپیشل ہونے کا احساس ہو، نہ کہ قیدی ہونے کا ۔ اس صُورتِ حال میں معالجین اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ خود پُرسکون رہیں اور مریضوں کو نہ صرف ان کی صحت کے حوالے سے مناسب انداز میں آگاہ رکھیں ،بلکہ انہیں جذباتی سپورٹ بھی فراہم کریں، جو گھر والوں کے نہ ہونے کی وجہ سےانہیں میسّر نہیں۔ 

علاوہ ازیں، طبّی عملے پر مشتمل ایک ایسی ٹیم بھی تشکیل دی جائے، جسے ایک یا دو روزہ تربیتی نشست میں خود پُرسکون رہنے، مریضوں کی کاؤنسلنگ کرنے اور ان سے اپنانے والے رویّے کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔ وہ افراد جو پہلے سے شدید ذہنی و اعصابی کشیدگی کا شکار ہوں، اُنہیں ٹیم میں شامل کرنے سے اجتناب برتا جائے کہ وہ اپنے اعصاب پر قابو نہ پانے کی وجہ سے مریض اور دیگر افراد سے درشت رویّہ اختیارکرنے کی غلطی کر سکتے ہیں۔ نیز، اس تربیت کے ساتھ ساتھ پوری قوم کا متاثرین اور کورونا وائرس سے لڑنے والی فرنٹ لائن ٹیم ان کے لیے مثبت سوچ رکھنا بے حد ضروری ہے۔

اس وقت مختلف اسپتالوں اور قرنطینہ سینٹرز میں تعینات طبّی و غیر طبّی عملہ اپنی زندگیاں داؤ پہ لگاکر ڈیوٹیاں انجام دے رہا ہے،لہٰذا ہم ان کی اس قربانی کی اہمیت کو سمجھیں اور رنگ، نسل، عقیدے، یا سیاسی چپقلش کو قطعاً زیرِ بحث نہ لائیں۔ یاد رکھیے، یہ وقت سیاسی منافرت پھیلانے کا ہے، نہ مذہبی تعصّب بڑھانے کا۔ نہ ہی کسی کو جھوٹا اور خود کو سچّا ثابت کرنے کا۔ ہر مثبت قدم کو سپورٹ کریںکہ اسی میں ہم سب کی فلاح ہے۔ (مضمون نگار،معروف سائیکولوجسٹ ہیں)

تازہ ترین