• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ کورونا وائرس کے بعد دنیا بدل جائے گی‘‘ تقریباً تمام ماہرین اور تجزیہ کار اِس وائرس کے عروج کے دَور میں اِسی طرح کے تجزیے پیش کر رہے تھے۔ اِس ضمن میں شخصی آزادیاں محدود کرنے اور سفری پابندیوں کی خاص طور پر مثالیں دی جاتی رہیں۔ وہ بتاتے رہے کہ کیسے دنیا میں ہر چیز بدل چُکی ہے، سب کچھ پابندیوں کی زَد میں ہے اور اِس صُورتِ حال کے مستقبل میں کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ بیش تر ماہرین کا اصرار تھا کہ بڑی تبدیلی آنے کو ہے، جس کے مقامی کلچر کے ساتھ حکومتوں پر بھی دُور رَس اثرات مرتّب ہوں گے۔ بڑے بڑے سیاسی برجوں کے اُلٹنے کی پیش گوئیاں کی گئیں، لیکن آج جب ترقّی یافتہ اور سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے والے ممالک میں کووڈ 19 کا زور ٹوٹ رہا ہے، تو پیش گوئیوں کے برعکس ایک اور ہی منظر نامہ اُبھر کر سامنے آرہا ہے۔ 

اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا ہوگا، کس مُلک نے لاک ڈائون کو اپنے آئین کا حصّہ بنانے کی کوشش کی ہے؟ کیا ایک دوسرے سے تین یا چھے فِٹ فاصلہ اختیار کرنا کسی مُلک کے قانون کا حصّہ بنا؟ کیا بار بار ہاتھ نہ دھونا اور گلے ملنا کسی مُلک میں جرم قرار پائے ہیں؟ یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ لاک ڈائون اور سماجی دُوری اختیار کرنے پر مجبور دنیا نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ یہ پابندیاں عارضی ہیں اور اِنھیں محض جنگ کے دَوران اختیار کردہ اقدامات ہی کی طرح سمجھا جانا چاہیے۔ مشکل وقت گزرنے پر سب کچھ پہلے کی طرح معمول پر آجائے گا۔ شاید عوام نے بھی اِسی سوچ کے تحت سخت ترین پابندیوں کو کُھلے دِل کے ساتھ قبول کیا۔ 

اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ڈھائی لاکھ اموات کے باوجود کہیں سیاسی بھونچال نہیں آیا، یہ بات مغربی ممالک کے پس منظر میں بہت اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ وہاں عام دنوں میں کسی ایک انسان کی موت بھی حکومتوں کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے، عوام حکم رانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں، مگر کورونا کی تباہ کاریوں کے دَوران ایسا نہیں ہوا۔ عوام نے اِسے قدرتی آفت اور ایک مشکل وقت سمجھا۔ گو کہ اِس عوامی رویّے کو ایک بڑی تبدیلی کہا جاسکتا ہے، مگر یہ بھی صرف کورونا دَور تک ہے، عوام حالات بہتر ہوتے ہی عام انسانی جان کے معاملے میں پہلے کی طرح حسّاس ہوجائیں گے۔ کورونا سے متاثرہ ممالک سے لاک ڈائون میں نرمی کی خبریں آرہی ہیں اور کسی بھی مُلک کا سربراہ یہ نہیں کہہ رہا کہ باقی زندگی کورونا وائرس کے ساتھ گزارنی ہے۔ 

اُنہیں یقین ہے کہ اُن کے سائنس دان اور طبّی ماہرین کورونا کے سدّباب کے لیے دوا تیار کر چُکے ہیں، جس کے اب مارکیٹ میں آنے کی دیر ہے اور اُس کے بعد مرض پر قابو پالیا جائے گا۔ مگر اِن باتوں کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ اگرچہ عالمی سیاست میں تو شاید کوئی بڑی تبدیلی نہ آسکے، لیکن عالمی معیشت ضرور متاثر ہوگی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین سب سے زیادہ معاشی اثرات کی لپیٹ میں آئے گا، پھر یورپ اور اُس کے بعد امریکا۔ غریب ممالک پر شاید کوئی خاص اثر نہ پڑے کہ وہ پہلے بھی قرض اور امداد پر جیتے تھے، آیندہ بھی یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔ 

البتہ اگر وہ اب بھی خوابِ غفلت سے نہ جاگے، تو ممکن ہے کہ اُن کا دیگر ممالک اور عالمی اداروں پر انحصار مزید بڑھ جائے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی قیمتوں میں کمی سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور اِس صُورتِ حال کی زَد میں وہ ممالک بھی آئیں گے، جن کے باشندے ان ممالک میں روزی روٹی کماتے ہیں اور قیمتی زرِمبادلہ اپنے ممالک بھجواتے ہیں۔ ان لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے سے ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔

کورونا وائرس کا زور ٹوٹنے سے دنیا کی سانسیں بحال ہونا شروع ہوئیں، تو نت نئے بحث مباحثے چِھڑ گئے۔ یہ سوال ہیڈ لائنز اور تجزیہ کاروں کی خاص توجّہ کا مرکز بن گیا ہے کہ’’کورونا وائرس آخر پھیلا کیسے؟‘‘ دراصل اِس بحث کا آغاز امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ہوا۔ اُنہوں نے چین پر الزام لگایا کہ’’کورونا وائرس ووہان کی کسی تجربہ گاہ میں تیار ہوا اور وہیں سے لیک ہو کر پوری دنیا میں پھیلا۔‘‘ وہ یہ نہیں کہتے کہ چین نے ایسا جان بوجھ کر کیا، بلکہ صدر ٹرمپ اِسے چین کی غلطی یا غیر ذمّے داری قرار دیتے ہیں۔ امریکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین نے دنیا کو کورونا وائرس کی بروقت اطلاع نہیں دی، جس سے یہ عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا۔ 

برطانیہ، نیوزی لینڈ، جرمنی، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کا بھی یہی کہنا ہے کہ چین کو اِس سلسلے میں بہت سے سخت سوالات کے واضح جواب دینے ہوں گے۔ تاہم، چین ہر طرح کے الزامات مسترد کرتا آرہا ہے اور اُس کا اصرار ہے کہ یہ وائرس جانور سے انسان میں منتقل ہوا اور پھر دنیا میں پھیلا۔ اُس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووڈ 19 کا پہلا کیس 31 دسمبر کو ووہان میں رپورٹ ہوا، جس کی تفصیلات فوری طور پر عالمی ادارۂ صحت کو فراہم کر دی گئی تھیں۔ نیز، دنیا کو بھی بتا دیا تھا کہ یہ وائرس ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، دنیا کو وائرس کی قسم اور شناخت بھی بتا دی گئی تھی، جس کے سبب اس کے فوری ٹیسٹس ممکن ہو سکے۔ عالمی ادارۂ صحت نے چین کی ان تمام باتوں کی تصدیق کی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین نے مرض کی شناخت اور روک تھام کے لیے بھرپور تعاون کیا۔ 

تاہم، اس کے باوجود امریکا اور مغربی ممالک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بحث زور پکڑتی جارہی ہے۔ البتہ بیش تر ماہرین اس بات پر متفّق ہیں کہ کورونا وائرس ایک قدرتی آفت ہے اور اسے چین نے نہیں پھیلایا۔ خود امریکی انٹیلی جینس ایجینسی نے 27 مارچ کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں، جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ اس وائرس کو پھیلایا گیا ہے یا اسے ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا۔‘‘ ہر اُس سائنس دان نے، جس کا نیوز ویک نے انٹرویو کیا، واضح طور پر اس نظریے کو مسترد کردیا کہ کووڈ 19 کسی تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا اور وہاں سے لیک ہوا۔ اسی طرح عالمی ادارۂ صحت نے بھی جریدے کو بتایا کہ’’ تمام ثبوت گواہی دیتے ہیں کہ کورونا وائرس جانور ہی سے شروع ہوا اور اس کا کسی تجربہ گاہ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

اِس موقعے پر یہ سوال بھی اہم ہے کہ’’ کیا وائرس واقعی تجربہ گاہوں میں تیار کیے جاتے ہیں؟‘‘ سائنس دان اِس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں۔ تو کیا یہ دوسرے ممالک کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال کیے جاتے ہیں؟ نہیں، عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ یہ صرف سائنسی تجربات کے لیے ہوتے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی نقصان سے بچا جا سکے۔ اِس طرح کے تجربات کئی کئی ممالک مِل کر کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کے سائنس دان ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور سائنس کی دنیا میں اِس طرح کے تجربات عام بات ہے۔ امریکا اور روس زمین پر تو ایک دوسرے کے دشمن ہیں، لیکن ان کے سائنس دان خلائی اسٹیشن میں مِل کر کام کر رہے ہیں۔

ان کے خلانورد ایک ساتھ آتے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ سائنسی تجربات کوئی کلاسیفائیڈ یا خفیہ منصوبے نہیں ہوتے، بلکہ مختلف ممالک ان میں اعلانیہ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ وائرسز پر تجربات کے لیے امریکا، چین، برطانیہ، فرانس، روس، جرمنی، ہالینڈ، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں لیبارٹریز بنائی گئی ہیں۔ ان کا بنیادی کام وائرس کے ممکنہ نقصانات اور ان کا توڑ دریافت کرنا ہے۔ نیوز ویک کے مطابق ووہان کا انسٹی ٹیوٹ سائنسی تحقیق کا معتبر ادارہ ہے۔ وہاں فوجی نوعیت کے کام نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ زیرِ زمین کسی بنکر میں قائم ہے۔ اسے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی پروگرام کے تحت فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں۔ اسے وائرس پر تحقیق کے لیے دس سالہ پروگرام کے تحت 200 ملین ڈالرز دیے گئے ہیں۔ یہ فنڈ دینے والوں میں امریکا کی ’’ایجینسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ‘‘ اور کئی ممالک شامل ہیں۔ البتہ اِس معاملے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ نام وَر سائنس دانوں نے بارہا اِس طرح کے تجربات پر اعتراضات بھی کیے ہیں۔ اُن کا کہنا یہی ہے کہ ذرا سا بھی غلطی پوری دنیا کو کسی آفت میں مبتلا کر سکتی ہے۔ یاد رہے، 2002ء میں چین میں سارس وائرس سامنے آیا، تو اس قسم کے تجربات کے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’’ PREDICT‘‘ جیسے ریسرچ پروگرامز کا کوئی بڑا فائدہ سامنے نہیں آیا۔ اِس سے صرف کورونا وائرس کی قسم اور دیگر شناخت جاننے ہی میں مدد مل سکی۔ علاج یا ویکیسن کی تیاری میں ایسی تجربہ گاہیں کام نہ آسکیں۔

اب اگر اِس نوعیت کی اطلاعات کسی سائنسی تحقیق اور خاص طور پر وائرس اور خطرناک بیماریوں پر ریسرچ کرنے والے طریقوں سے لاعلم افراد کے سامنے آئیں گی، جو ان سے اپنے منفی مقاصد پورے کرنا چاہتے ہوں یا انھیں کوئی خاص رنگ دینا چاہتے ہوں، تو وہ انھیں بڑی آسانی سے کسی سازشی تھیوری میں ڈھال سکتے ہیں۔وہ عام لوگوں کو اپنے’’ انکشافات‘‘ سے سحر زدہ کرتے ہوئے بتائیں گے کہ کیسے بڑے ممالک اور سائنس دان دنیا اور انسانیت کو تباہ کرنے کے خفیہ منصوبے بنا رہے ہیں۔ وہ اسے غریب ممالک اور کسی خاص مذہب یا نظریے سے تعلق رکھنے والوں کو تباہ کرنے کے عالمی منصوبے کا حصّہ قرار دیتے پھریں گے، لیکن جنہیں حقیقت جاننے کا شوق ہو، وہ نیوز ویک کے ورلڈ کے حصّے میں 27/4/20 ریسرچ رپورٹ پڑھ لیں یا پھر وائرس پر وہ اعلی پائے کے مقالے دیکھ لیں، جو اس سلسلے میں ممتاز تحقیقی جرائد میں سائنس دان لکھتے رہے۔ آپ کو ان وائرسز سے متعلق منفی اور مثبت بحث ملے گی، جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ آج کے زمانے میں کسی تحقیق کو منوانا، وہ بھی سائنس کے میدان میں، جان جوکھوں کا کام ہے۔ سائنسی تحقیق کی دنیا ہی الگ ہے، اس میں تو رات دن لیبارٹریز میں گزارنا پڑتے ہیں۔یہ بیانات اور تقاریر کی دنیا ہے اور نہ ہی اس کا کسی نظریاتی، مذہبی،معاشرتی، سیاسی یا قومی معاملات سے کچھ لینا دینا ہے۔ 

اس میں ٹھوس ثبوت اور شواہد ہی سامنے لانے پڑتے ہیں۔ اعلی معیار کے سائنسی ادارے موجود ہیں، جن سے نظر بچا کر نکلنا ناممکن ہے۔اِسی لیے امریکی صدر اور سیکریٹری آف اسٹیٹ کی جانب سے بار بار چین پر انگلیاں اُٹھانے کے باوجود سائنس دان اُن کی بات مسترد کر رہے ہیں کہ اُن کے پاس ٹھوس شواہد نہیں۔ جب سے پاکستان میں کورونا وائرس ظاہر ہوا ہے، اس کی دوا اور ویکسین بنانے کے دعوے داروں کی ایک لمبی قطار بھی سامنے آتی جارہی ہے۔اُن میں سے اکثر کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تیار کردہ دوا مریض کو 48 یا 72 گھنٹے میں ٹھیک کردیتی ہے۔وہ چلنے تو کیا، بھاگنے کے بھی قابل ہو جاتا ہے۔یہ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ وہ دوا یا ویکسین اپنے ہم وطن بھائیوں کی فی سبیل اللہ خدمت کے لیے پیش کر رہے ہیں، وگرنہ امریکا، جاپان یا جرمنی کی جانب سے تو اُنہیں کروڑوں ڈالرز کی آفر ہوچُکی ہے۔ لیکن جب ان لوگوں کی بات ریگولیٹری اتھارٹی سُننے کو بھی تیار نہیں ہوتی، تو پھر وہ عوام میں کہتے پِھرتے ہیں کہ اِس مُلک میں تو ٹیلنٹ کی کوئی قدر ہی نہیں۔ سفارش اور رشوت کا بول بالا ہے۔پھر ظلم تو یہ ہے کہ بہت سے بھولے بھالے اور سیدھے سادے لوگ ان کی باتوں میں بھی آجاتے ہیں۔ یہاں ایسے نام نہاد ماہرین بھی موجود رہے ہیں، جو شَکر سے شوگر کا علاج کرتے رہے۔ 

کینسر کو آٹے کی پڑیوں سے اُس اسٹیج پر پہنچا دیتے کہ جہاں وہ لاعلاج ہوجاتا۔آپ نے کچھ عرصہ پہلے پانی سے موٹر کار چلنے کی بحث تو ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھی ہوگی، جس کی کچھ وزراء بھی پُرزور حمایت کر رہے تھے۔ ویکسین اور دوا کی ایجاد تو دُور کی چیز ہے، ہمارے پاس فنڈز ہیں اور نہ ہی مطلوبہ صلاحیت۔ابھی تو ہم اپنے ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملے کو بنیادی حفاظتی کِٹس بھی پوری طرح فراہم نہیں کرسکے۔ہم اس بحث میں کبھی نہیں پڑے کہ لاک ڈائون مکمل ہو یا اسمارٹ، لیکن یہ ضرور عرض کرتے رہے ہیں کہ یہ کوئی دس بیس یا پچاس لاکھ افراد کا مُلک نہیں، بلکہ یہاں بائیس کروڑ لوگ بستے ہیں۔ان کی قوّتِ برداشت،چاہے وہ ذہنی ہو، معاشی ہو یا جسمانی اور نظریاتی، سب کے سامنے آچُکی ہے۔

بہت سی خوش فہمیاں دُور ہوچُکی ہیں، لیکن ایک بات جو دنیا کے تجربات کی روشنی میں اٹل ہے، وہ یہ کہ کورونا وائرس سے متعلق کسی بھی فیصلے کے لیے ماہرین، خاص طور پر ڈاکٹرز کی رائے کو مقدّم رکھنا ضروری ہے۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا مُلک ہے، جس نے کورونا وائرس سے آزاد ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہاں انسان سے انسان کو لگنے والے کیسز صفر ہوگئے ہیں۔وہاں کی خاتون وزیرِ اعظم نے دو ماہ تک ایسا سخت لاک ڈائون کیا،جس کی مثال نہیں ملتی۔کوئی باہر سے آنے والا شخص پندرہ روز قرنطینہ میں رہے بغیر مُلک میں داخل نہ ہوسکا۔ اب بھی وہ مرحلہ وار شہر کھول رہی ہیں۔وہ اپنی کام یابی کا راز سائنس اور گڈ گورنینس کے امتزاج کو بتاتی ہیں۔ کیا ہم اُن کی عملی تقلید پسند کریں گے کہ وہ کچھ عرصہ قبل تک پاکستانی عوام کی ہر دِل عزیز رہنما بھی تھیں۔

تازہ ترین