• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ریاض علیمی

قرآنِ مجید میں متعدّد مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم وارد ہوا ہے۔زکوٰۃ کی فرضیت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو اور جو تم اپنے واسطے آخرت میں بھیجو گے، اُسے اللہ تعالیٰ کے پاس بہتر اور زیادہ ثواب کی شکل میں پاؤ گے‘‘ (سورۃ المزمل، 20) اللہ ربّ العزّت نے اپنے بندوں کو جو مال عطا کیا ہے، اُس میں سے سالانہ محض ڈھائی فی صد غریبوں اور فقراء میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ نظامِ زکوٰۃ کی وجہ سے سرمایہ داروں اور غریبوں کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔ دولت گردش میں رہتی ہے، جو معاشی نظام کی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ مضبوط نظامِ معیشت کی بنیاد یہی ہے کہ دولت کسی ایک کے پاس یا چند لوگوں کے پاس محدود نہ رہے، بلکہ گردش کرتی رہے ۔

اِسی بات کو قرآنِ پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے’’ تاکہ وہ(اموال )تم میں سے (صرف ) مال داروں کے درمیان گردش نہ کرتے رہیں‘‘(سورۃ الحشر، 7)بظاہر اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرنا مال میں کمی کا باعث ہے، لیکن حقیقتاً یہ مال کی حفاظت اور آخرت میں اجرِ عظیم کی نوید ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال بڑھتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور تم اللہ کی خوش نودی اور اُس کی رضا کے لیے جو زکوٰۃ دیتے ہو ، پس یہی لوگ ہیں، جو (اپنے مالوں کو) کئی گُنا کر لیتے ہیں‘‘(سورۃ الروم، 39) احادیثِ مبارکہ ؐ میں زکوٰۃ کی ادائی کو اسلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ مصطفیﷺ ہے’’ بے شک تمہارا اپنے اموال میں سے زکوٰۃ نکالنا، تمہارے اسلام کی تکمیل ہے‘‘(الترغیب والترہیب، 12)رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ اپنے اموال کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ کرلو‘‘(الترغیب والترہیب، 11) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا’’ جس نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کی، تو اُس مال کا شر اُس سے دُور ہوجائے گا‘‘ (المعجم الاوسط 1579)زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حدیثِ مبارکہؐ کے مطابق، اگر کوئی زکوٰۃ ادا نہ کرے، تو اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا’’ جس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی، اُس کی نماز( قبول) نہیں ہے‘‘(المعجم الکبیر)۔ نیز، اِس کی اہمیت حضرت ابو بکر صدیقؓ کی اپنے دورِ خلافت میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف پیش قدمی سے بھی واضح ہوتی ہے۔ 

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے زکوٰۃ کی ادائی سے انکار کرنے والوں کو للکارا’’ اللہ کی قسم! مَیں اُس شخص سے ضرور قتال کروں گا، جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا، کیوں کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے‘‘( صحیح بخاری،1400)۔ زکوٰۃ ایسی مالی عبادت ہے جس کی ادائی میں پس و پیش کرنا اور اسے جرمانہ سمجھنا دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ جب زکوٰۃ کو جرمانہ قرار دیا جائے (یعنی جرمانہ سمجھا جائے)،تو اُس وقت تم سُرخ آندھی، زلزلے، زمین میں دھنسنے اور مسخ ہونے اور آسمان سے پتھر برسنے کا انتظار کرو اور اُن نشانیوں کا انتظار کرو، جو پے درپے آئیں گی‘‘(سنن ترمذی،2211)۔

اگر مال دار، ضرورت مندوں اور فقیروں کی مالی مدد نہ کریں، تو اِس رویّے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔غرباء اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اور اپنے فقر سے تنگ آکر بغاوت پر اُتر آئیں گے۔ چوری، ڈکیتی، لُوٹ مار اور بھتّا خوری جیسے جرائم شروع کردیں گے۔ لیکن اگر اُن کی ضروریات پوری کردی جائیں، تو معاشرے میں اِس قسم کا بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، بلکہ نظامِ حیات امن وسکون کے ساتھ جاری رہے گا۔ علّامہ غلام رسول سعیدیؒ لکھتے ہیں ’’پاکستان میں جتنے بھی کاروباری اور تجارتی ادارے ، دُکانیں، کارخانے، فیکٹریاں وغیرہ ہیں ، اگر یہ سب ہر سال اپنی آمدنی کا چالیسواں حصّہ نکالیں اور اس رقم کو غرباء میں تقسیم کردیں، تو اسلامی اصولوں پر مبنی ایک ایسا نظام قائم ہوجائے گا، جس میں کسی طبقے کو دوسرے طبقے سے شکایت نہیں ہوگی۔‘‘ جب خلفائے راشدینؓ کی جانب سے امیروں سے زکوٰۃ لے کرضرورت مندوں کی مدد کی گئی، تو تاریخ نے وہ ایّام بھی دیکھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے نکلتے، تو کوئی لینے والا نہ ملتا۔ 

حضرت عُمر بن عبد العزیزؒ کے دَور میں بھی مال کی دیانت دارانہ تقسیم کے نتیجے میں ایک ہی سال میں لوگوں کے مالی حالات اتنے بہتر ہوگئے کہ کوئی شخص بھاری رقم لاتا اور کسی اہم شخصیت سے کہتا’’ آپ کی نظر میں جو ضرورت مند ہو، اُسے دے دو، تو بڑی دوڑ دھوپ اور پوچھ گچھ کے بعد بھی کوئی ایسا آدمی نہ ملتا، جسے مال دیا جاتا، بالآخر اُسے وہ مال واپس لے جانا پڑتا۔ (سیرت ابنِ جوزی) محمّد بن قیسؒ سے روایت ہے کہ حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ نے حکم دیا کہ مستحقین میں صدقہ تقسیم کیا جائے، لیکن مَیں نے دوسرے ہی سال دیکھا کہ جو لوگ صدقہ لیا کرتے تھے، وہ خود صدقہ دینے والے ہوگئے‘‘(طبقات ابنِ سعد)۔یحییٰ بن سعید کا بیان ہے کہ حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ نے مجھے افریقا میں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، مَیں نے صدقہ وصول کرکے فقراء کو تلاش کیا کہ اُن میں تقسیم کردوں، لیکن مجھے کوئی فقیر نہیں ملا‘‘(سیرت ابنِ عبد الحکم)۔الغرض نظامِ زکوٰۃ طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا ایک بہترین ذریعہ اور اللہ ربّ العزّت کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے ذریعے امیروں اور غریبوں میں الفت قائم رہتی ہے، باہمی منافرت ختم ہوجاتی ہے اور معاشرے میں توازن قائم رہتا ہے۔

تازہ ترین