محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
حکومت پاکستان بھی ایکسپورٹرز کو فوری ریلیف فراہم کرے اورجلد ازجلدایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کلیمزکی فوری ادا کرے،کسٹمر ریبٹ، ڈی ڈی ٹی اور ڈی ایل ٹی ایل کی ادائیگیاں کرے،ایکسپورٹ انڈسٹریز کو دی گئی ریفنانسنگ اسکیمز پر مارک اپ کی چھوٹ دے اور ادائیگیوں میں آسانی کرے،کم از کم آئندہ تین ماہ کے لیے یوٹیلیٹیز کے بلوں کو موخر کیا جائے، سابقہ بقایاجات نہ لگائے جائیں اورسرچارج کو معاف کیا جائے، ای او بی آئی اورسوشل سیکیورٹی کی ادائیگیوں، دیگر ٹیکسوں اور لیویز میں چھوٹ دے تاوقت حالات نارمل نہیں ہو جاتے،یوٹیلیٹز کی مد میں حکومت کی طرف سے انڈسٹریز کے لیے کو خاطر خواہ ریلیف نہیں مل سکی،ایس ایم ایز کے لیے علیحدہ فنانسنگ اسکیمز کا اجراء کیا جائے۔
شرح سود کو مزید کم کرکے 4یا 5فیصد کیا جائے، ورکرز اور اسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنانسنگ کی خاطرشرح سود صفر کی جائے، ایکسپورٹ پروسیڈز رئیلائزیشن کی لمٹ 365دن تک بڑھا دی جائے،ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری سے منسلک تمام الائیڈ انڈسٹری کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے،انڈسٹریز میں کام کے دوران تمام حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا، ہمارا اولین مطالبہ آئندہ بجٹ میں پانچ زیر و ریٹیڈ سیکٹرز کے لیے ماضی کازیرو ریٹنگ نو پے منٹ نو ریفنڈ سیلز ٹیکس نظام کی بحالی ہے
محمد جاوید بلوانی
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو اب احساس پروگرام کے نام سے چلایا جا رہا ہے 75 لاکھ نئے لوگ شامل کیے گئے۔یہ نئے لوگ کسی سروے کی بجائے ایس ایم ایس کے ذریعے منتخب کیے گئے پھر ان سے ایک فارم بھروایا گیا اور انہیں بلا کر بارہ ہزار روپے تقسیم کیے گئے۔ یہ طریقہ کار شفاف نہیں کہلایا جا سکتا۔ اس میں شکوک و شبہات بہت ہیں اور اس پر کئی حلقوں سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ٹارگٹڈ ریلیف کے ساتھ معاشی نظام کے ذریعے بھی ریلیف کے اقدامات کرے۔
جس میں توانائی کی قیمتوں میں کمی سب سے مؤثر اقدام تصور کیا جاتا ہے جس کے سبب عوام کو براہ راست ریلیف دیا جا سکتا ہے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا مہنگائی پر بُرا اثر پڑتا ہے اور اس میں کمی سے عوام کو معاشی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ سندھ نے لوکل باڈیز کو استعمال کیا ہے لیکن باقی صوبوں یا وفاق نے لوکل باڈیز کو نظرانداز کیا ہے۔ لوکل باڈیز کے ذریعے نچلے لیول تک ڈیٹا بھی دستیاب ہو سکتا ہے اور لوگوں کو براہ راست ریلیف مہیا کیا جا سکتا ہے۔حکومت شرح سود میں بھی مزید کمی بھی کر سکتی ہے جس سے بھی ریلیف مہیا کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے کاروبار اور دُکاندار کے لیے مائیکرو فنانس کی ونڈوشروع کی جانی چاہیے۔ مزدور کلاس کو بھی شارٹ ٹرم کے قرضے بلاسود یا کم شرح سود پر دیا جانا چاہیے
محمد صابر
وزیراعظم عمران خان نے کورونا وبا سے متاثر عوام کی معاشی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بارہ کھرب کا ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ جس میں غریب عوام، ملازمت پیشہ افراد، دُکاندار، کاروباری طبقے سب کا خیال رکھا گیا ہے۔ حکومت کے نزدیک یہ ایک تاریخی پیکیج ہے جس میں احساس پروگرام کے ذریعے کچلے ہوئے طبقے کو نقد رقوم مہیا کی جا رہی ہیں، بزنس طبقے کو ریلیف مہیا کیا جا رہا ہے، شرح سود میں کمی کی جا رہی ہے، قرضے مہیا کیے جا رہے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ پیکیج صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے اور حقیقی ریلیف کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ حکومت کے پاس دیہاڑی دار طبقے، دُکانداروں، غربت کا شکار افراد اور تنخواہ دار طبقے کا کوئی ڈیٹا دستیاب ہی نہیں ہے جس کے ذریعے وہ براہ راست ریلیف مہیا کر سکے۔ ٹارگٹڈ سبسڈی بہت شارٹ ٹرم اور محدود تعداد میں ریلیف دینے کا نام ہے۔ جب کہ اس وقت بائیس کروڑ عوام مشکلات کا شکار ہیں حکومت کو اپنی معاشی پالیسی کے ذریعے ریلیف مہیا کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان کا بارہ کھرب کا ریلیف پیکیج کیا ہے؟ یہ کتنا مؤثر ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے یہ جاننے کے لیے کورونا وبا سے متاثرہ افراد کی معاشی مشکلات اور وفاقی حکومت کے بارہ کھرب کے ریلیف پیکیج پر ’’وزیراعظم کا ریلیف پیکیج، حقائق اور اقدامات‘‘ کے موضوع پر آن لائن/ ٹیلی فونک جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا۔ ٹیلی فون پر سائٹ ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین محمد جاوید بلوانی اور معروف اکنامسٹ اور سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر سے وابستہ محمد صابر نے اظہار خیال کیا جب کہ سوشل میڈیا پر بعض افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
محمد صابر
اکنامسٹ/سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر
کورونا وبا نے دُنیا بھر کے ملکوں کو ایک مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ہلاکتوں سے نکلیں گے تو پتہ چلے گا کہ معیشت ڈُوب چکی ہے جس کے آثار ابھی سے سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان بھی اس صورت حال کا شکار ہے اوریہاں بھی کورونا وبا کے باعث معاشی بحران جنم لے رہا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ وہ ہے جو پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ روزانہ کمانے والا، دیہاڑی دار مزدور، چھوٹے کاروبار سے منسلک لوگ اور دُکاندار بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے آمدن کے ذرائع ختم ہوگئے ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں غیرروایتی معیشت سے زیادہ لوگ وابستہ ہیں اور وہ کسی سوشل نیٹ ورک سے منسلک بھی نہیں ہیں۔ ان کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے وہ کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ کسی حکومتی ادارے کی ان تک رسائی آسان نہیں ہے اس لیے کسی بھی ریلیف نیٹ ورک کی ان تک رسائی نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ انٹرنیٹ یا موبائل سے واقفیت بھی نہیں رکھتے۔ اس لیے ان دنوں وفاقی حکومت کے ریلیف پیکیج سے فائدہ اُٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔ کورونا وبا سے قبل بالعموم یہ تصور کیا جاتا تھا کہ زرعی شعبے سے وابستہ افراد پر کسی بھی آفت کا اثر زیادہ آتا ہے اور شہروں کے لوگ زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ کورونا نے اس تصوّر کو بدل دیا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کورونا وبا سے دیہی علاقے اور زراعت سے وابستہ لوگ نسبتاً محفوظ ہیں۔ دیہی علاقوں میں بھیڑ بھاڑ کم، کھلے مکانات، چھوٹے کاروباری علاقے، کاشت کاری ذریعہ روزگار ہونے کے سبب ان علاقوں کے لوگ محفوظ ہیں۔ خوراک میں خودکفیل ہونے کے سبب بھی بھوک اور خوراک کی قلت کا خوف نہیں ہے۔ اس کے برعکس شہروں میں رہنے والے افراد زیادہ خطرے میں دِکھائی دیتے ہیں اور ان پرکورونا وبا کے سبب بیماری اور معاش دونوں اقسام کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گنجان آبادی، بڑی تعداد کی نقل و حرکت، بڑے اجتماعات، بڑے بازار زیادہ خطرات کا سبب بن رہے ہیں۔ کاروبار کی بندش نے بھی مشکلات کو دوچند کر دیا ہے اور لوگوں کو زندگی بسر کرنے کے لوازمات دستیاب نہیں ہیں۔ زرعی سیکٹر پر لاک ڈائون کا زیادہ اثر نہیں ہوا اس کے برعکس شہری علاقوں میں اس کا معاشی اثر خطرناک ہے۔ لوگوں کی آمدنی کے ذرائع ختم ہوگئے ہیں، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور غیرروایتی معیشت کے سبب بھی شہروں میں لوگ زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کی ریلیف کے لیے کوئی ٹارگٹڈ پروگرام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایسے افراد کو معاشی پالیسی کے ذریعے ہی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے جس کے آغاز کے اب تک کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔
کورونا سے قبل غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا ڈیٹا صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہی دستیاب تھا۔ ورلڈ بینک کے تعاون سے یہ ایک تاریخی نوعیت کا پروگرام ہے جس کا ڈیٹا سروے کی مدد سے حاصل کیا گیا۔ اس کا آغاز 2008ء میں کیا گیا اور جو لوگ غربت کا شکار تھے ان کو خوراک مہیا کرنے کی غرض سے عورتوں کو ماہانہ رقم مہیا کرنے کا پروگرام تیار کیا گیا تا کہ وہ خوراک میں افراط زر کا شکار نہ ہوں۔ ورلڈ بینک نے بھی اس سروے میں معاونت کی تھی اور ڈیٹا تیار کیا گیا تھا۔ جس میں بارہ ملین افراد شامل تھے۔ موجودہ حکومت نے ایک بڑی تعداد کو اس پروگرام سے خارج کر دیا تھا جس کے بعد کورونا وبا سے قبل 45 لاکھ افراد اس اسکیم سے فائدہ اُٹھا رہے تھے۔ بے نظیر اسکیم میں رقم ماہانہ نہیں دی جا رہی تھی موجودہ حکومت نے اسے دو ہزار ماہانہ کر دیا۔ 108 ارب اس پروگرام میں رکھے گئے تھے۔ رواں مالی سال کے نو مہینوں میں 72 ارب روپے تقسیم بھی کیے جا چکے تھے۔ کورونا کے سبب تبدیلی یہ کی گئی کہ لوگوں کو چار ماہ کے لیے یکمشت رقم بارہ ہزار فی کس ادا کی جا رہی ہے۔ جس میں آٹھ ہزار، دو ہزار ماہانہ کے حساب سے اور ایک ہزار ماہانہ اضافی وفاقی ریلیف پروگرام کے تحت ادا کیے جا رہے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو اب احساس پروگرام کے نام سے چلایا جا رہا ہے لیکن پروگرام سے بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر نکالنے کے سبب ڈیٹا کم ہوگیا جس کے لیے 75 لاکھ نئے لوگ شامل کیے گئے۔ اس طرح یہ تعداد واپس ایک کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ گئی۔ یہ نئے لوگ کسی سروے کی بجائے ایس ایم ایس کے ذریعے منتخب کیے گئے پھر ان سے ایک فارم بھروایا گیا اور انہیں بلا کر بارہ ہزار روپے تقسیم کیے گئے۔ یہ طریقہ کار شفاف نہیں کہلایا جا سکتا۔ اس میں شکوک و شبہات بہت ہیں اور قرین قیاس ہے کہ ضرورت مندوں کی اکثریت اس پروگرام سے باہر ہے۔ اس طریقہ کار سے حاصل کیا گیا ڈیٹا مستند نہیں تصوّر کیا جا رہا ہے اور اس پر کئی حلقوں سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے جس 144 ارب روپے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے اس کے تحت بارہ ملین افراد میں احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار فی کس تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ اس میں سے 54 ارب روپے ان لوگوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ تھے اور 90 ارب روپے ان لوگوں میں جو نئے رجسٹرڈ کیے گئے ہیں اب تک 73 لاکھ افراد میں 90 ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ یوں ابھی 54 ارب روپے باقی ماندہ 39 لاکھ افراد میں تقسیم کرنا باقی ہے۔ پنجاب میں 70 لاکھ افراد میں رقوم تقسیم کی گئیں، سندھ میں 23 لاکھ، خیبر پختون خوا میں ساڑھے تیرہ لاکھ، بلوچستان میں تین لاکھ بیالیس ہزار، گلگت بلتستان میں 50 ہزار اور آزاد کشمیر میں ایک لاکھ 36 ہزار افراد میں بارہ ہزار فی کس رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔ اسلام آباد میں یہ تعداد 28 ہزار ہے۔ پنجاب میں 37.2بلین روپے تقسیم کیے گئے جبکہ سندھ میں 28.6 بلین، خیبرپختوان خوا میں 16.6 بلین، بلوچستان میں 4.2 بلین، گلگت بلتستان میں 63 کروڑ، آزاد کشمیر میں 1.6 بلین اور اسلام آباد میں 34 کروڑ روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر جو رقم تقسیم کی گئی ہے اس کا اوسط حیرت انگیز طور پر بارہ ہزار ایک سو ننانوے روپے فی کس بنتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رقم بارہ ہزار فی کس تقسیم ہو رہی ہے لیکن اوسط زیادہ بن رہی ہے۔ پنجاب میں اوسطاً 12181، سندھ میں 12087، خیبرپختون خوا میں 12375، بلوچستان میں 12241، گلگت بلتستان میں 12795، آزاد کشمیر میں 12485 اور اسلام آباد میں اوسطاً 12158 روپے تقسیم ہوئے ہیں۔ بارہ ہزار فی کس ایک سیدھا امائونٹ ہے لیکن اوسط میں یہ فرق کیوں آ رہا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
ایک بات اور اہم دکھائی دیتی ہے کہ 144 ارب روپے احساس پروگرام کے لیے مختص کیے ہیں جو 12 ملین لوگوں میں تقسیم ہونے ہیں لیکن اب تک 108 بلین٭٭٭ بینکوں جمع کرائے گئے ہیں جن میں سے اب تک 89 ارب تقسیم کیے جا چکے ہیں باقی امائونٹ ابھی مہیا کیا جانا ہے۔ اب اس وقت پنجاب کے بینکوں میں 9 ارب سندھ میں 4.8 ارب، خیبرپختون خوا میں 2.9 ارب، بلوچستان میں 1.6 ارب گلگت بلتستان میں 14 کروڑ 73 لاکھ، آزاد کشمیر میں 31 کروڑ 73 لاکھ اور اسلام آباد کےبینکوں میں 16 کروڑ 33 لاکھ رقم موجود ہے۔
وفاقی حکومت نے ریلیف مہیا کرنے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈی کا نظام اپنایا ہے جو یقیناً شارٹ ٹرم مدت میں مؤثر ثابت ہوتا ہے لیکن بے نظیر انکم سپورٹ کا پروگرام 2008 سے چل رہا ہے۔ اس دوران ہمیں حقیقی صرورت مندوں کی تلاش کا کوئی اور نیا نظام یا ڈیٹا ترتیب دے دینا چاہیے تھا جس کے تحت کورونا وبا جیسے آفات میں لوگوں کو ریلیف مہیا کی جا سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ ٹارگٹڈ ریلیف کے ساتھ معاشی نظام کے ذریعے بھی ریلیف کے اقدامات کرے۔ جس میں توانائی کی قیمتوں میں کمی سب سے مؤثر اقدام تصور کیا جاتا ہے جس کے سبب عوام کو براہ راست ریلیف دیا جا سکتا ہے اور افراط زر میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا مہنگائی پر بُرا اثر پڑتا ہے اور اس میں کمی سے عوام کو معاشی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے اور ان کی حقیقی آمدنی میں اضافہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرول کے نرخ اس وقت عالمی سطح پر بہت نیچے آ گئے ہیں حکومت پٹرول کے نرخوں میں کمی کرکے عوام کو ریلیف مہیا کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ بجلی گیس کے بلوں میں بھی نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ بجلی گیس کے بلوں میں بھی نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔ جس کا اثر افراطِ زر میں کمی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ آمدنی متاثر ہونے والے افراد کے لیے یہ ریلیف بہت مؤثر ثابت ہوگا۔ بجلی گیس کے بل مؤخر بھی کیے جا سکتے ہیں لیکن ان اقدامات کی بجائے حکومت پٹرول پر زیادہ ٹیکس وصول کر رہی ہے جو عام حالات میں تو شاید اتنا بُرا تصوّر نہیں کیا جاتا لیکن کورونا وبا کے دوران یہ فیصلہ بے حسی پر مبنی ہے حکومت پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں فوری طور پر نمایاں کمی کرے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ترقّی یافتہ ملکوں میں تو کام کرنے والوں کا ڈیٹا حکومتوں کو دستیاب ہے اور اس سے براہ راست اکائونٹس میں رقوم ٹرانسفر کر دیں لیکن پاکستان میں یہ سہولت نہیں تو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں کمی سے ہی عوام کو ریلیف مہیا کا جانا چاہیے۔
ریلیف کے اقدامات میں مقامی حکومتوں کا کردار بھی بہت مؤثر ہے لیکن پاکستان میں اسے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ سندھ نے لوکل باڈیز کو استعمال کیا ہے لیکن باقی صوبوں یا وفاق نے لوکل باڈیز کو نظرانداز کیا ہے۔ لوکل باڈیز کے ذریعے نچلے لیول تک ڈیٹا بھی دستیاب ہو سکتا ہے اور لوگوں کو براہ راست ریلیف مہیا کیا جا سکتا ہے۔
حکومت شرح سود میں بھی مزید کمی بھی کر سکتی ہے جس سے بھی ریلیف مہیا کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے کاروبار اور دُکاندار کے لیے مائیکرو فنانس کی ونڈوشروع کی جانی چاہیے۔ مزدور کلاس کو بھی شارٹ ٹرم کے قرضے بلاسود یا کم شرح سود پر دیا جانا چاہیے تا کہ وہ آمدنی کا ذریعہ بند ہونے کے سبب اپنا گزارہ کے لیے رقم حاصل کر سکیں اور اچھے حالات میں واپس کر سکیں۔
محمد جاوید بلوانی
سابق چیئرمین سائٹ ایسوسی ایشن
سائٹ ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ہیں، پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیف کوآرڈینیٹر ہیں، سابق چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ جنگ فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف بحرانوں کے بعد کورونا وبا نے پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔عالمی سطح پر لاک ڈائون اور پاکستان میں کورونا کے کیس رپورٹ ہونے پر اچانک اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر سندھ حکومت نے 23مارچ سے کراچی میں مکمل لاک ڈائون کا آغاز کر دیا اور سوائے ضروری خدمات کی انڈسٹریز جن میں فوڈ آئیٹمز اور ادویات کی صنعت شامل ہے ان کے علاوہ تمام انڈسٹریز کو فوری طو ر پر بند کر دیا جس کی وجہ سے خاص طور پر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی۔صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹس مصنوعات کی تیاری بند ہو گئی۔ امریکا،یورپ اور دیگر اہم ممالک کے لیے ایک بڑی تعداد میں ایکسپورٹ آرڈرز کینسل ہو گئے ہیں۔ کورونا نے انسانی جان کو خطرات لاحق کرنے کے بعد پاکستانی ایکسپورٹس پر بھی جان لیوا حملہ کر دیا ہے۔کئی ایکسپورٹ شپمنٹس پہنچ گئی تھیں انہیں خریداروں نے وصول کرنے سے بھی انکار کر دیااور ایکسپورٹرز ایک انتہائی غیر یقینی صورت حال اور عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔پاکستان بھر سے کئی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ ایکسپورٹ آرڈر کینسل ہونے اورمکمل شدہ ایکسپورٹ شپمنٹ میں تاخیر کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو ایل سی کے تحت پے منٹس بھی تاخیر کا شکار ہوئیں جس کی وجہ سے برآمد کنندگان کے مالی دباؤ میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ان کے پاس موجودہ صورت حال میں نقدی ختم ہو چکی ہے اور ورکرز کی اجرت و تنخواہ ادا کرنے، یوٹیلیٹز کے بلز ادا کرنے اور انڈسٹریز کو چلانے کے لیے فنڈز ختم ہو گئے ہیں۔ایکسپورٹرز پہلے ہی مختلف چیلنجز اور مالی دباؤ کا شکار ہیں اور اب لیکوڈیٹی اور کیش فلو کے سنگین بحران کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔اربوں روپے کی ایکسپورٹرز کی رقوم حکومت کے پاس سیلز ٹیکس ریفنڈز، انکم ٹیکس ریفنڈز، کسٹمز ریبیٹ، ڈی ایل ٹی ایل اور ڈی ڈی ٹی کی شکل میں پھنسی ہوئی تھی جن کی ادائیگیاں حکومت نے موخر کی ہوئی تھیں۔ایسی تشویش ناک صورت حال میں ایسوسی ایشن نے فوری طور پر ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کی بقا کی خاطروزیر اعظم پاکستان عمران خان سے فوری طور پر نوٹس اور ریلیف کی اپیل کی کہ حکومت فوری طور پر تمام ضروری اقدامات اٹھائے اوران مشکل حالات میں برآمدی صنعتوں کے تحفظ کے لیے فوری ریلیف کا اعلان کرے۔ اس وقت ایک جنگی صورت حال کا سامنا ہے جس میں اہم ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔موجودہ صورت حال میں ایکسپورٹ انڈسٹریز دیوالیہ ہو سکتی ہیں اور کئی انڈسٹریز مستقل طور پر بند ہو جائیں گی اور لامحالہ لاکھوں کی تعداد میں ورکرز بے روزگار ہو جائیں گے او ر بد امنی بڑھے گی۔
محمد جاوید بلوانی جو کراچی انڈسٹریل فورم کے چیف کوآرڈی نیٹر بھی ہیںنے بتایا کہ عالمی سطح پر کئی ممالک میں حکومتوں نے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں کیش سبسڈیز دی گئیں، قرضوں کی شرح سود صفر کردی گئی ہے اور ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔سنگین عالمی اور قومی منظرنامے کے مطابق پی ایچ ایم اے نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان بھی ایکسپورٹرز کو فوری ریلیف فراہم کرے اورجلد ازجلدایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کلیمزکی فوری ادا کرے،کسٹمر ریبٹ، ڈی ڈی ٹی اور ڈی ایل ٹی ایل کی ادائیگیاں کرے،ایکسپورٹ انڈسٹریز کو دی گئی ریفنانسنگ اسکیمز پر مارک اپ کی چھوٹ دے اور ادائیگیوں میں آسانی کرے،کم از کم آئندہ تین ماہ کے لیے یوٹیلیٹیز کے بلوں کو موخر کیا جائے، سابقہ بقایاجات نہ لگائے جائیں اورسرچارج کو معاف کیا جائے، ای او بی آئی اورسوشل سیکیورٹی کی ادائیگیوں، دیگر ٹیکسوں اور لیویز میں چھوٹ دے تاوقت حالات نارمل نہیں ہو جاتے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 24مارچ کوتقریباً 1200ارب کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جس میں سے لیبر کے لیے 200ارب روپے مختص کئے گئے۔کم آمدنی والی فیملیزکے لیے 150بلین مختص کئے گئے ، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی میں تاخیر کی سہولت دی گئی۔جبکہ ایکسپورٹ اور انڈسٹریز جو کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہو ئی اس کو ریلیف فراہم کرنے کی خاطرفوری طور پر ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کا اعلان کیا گیا اور 100ارب کے ریفنڈزکی فوری ادائیگی کی گئی۔ علاوہ ازیں فاسٹر سسٹم کے تحت بروقت ریفنڈز کی ادائیگیاں شروع ہو گئیں، زیر التواء کسٹمز ریبیٹ اور ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس کی مد میں بھی حکومت نے ادائیگیاں کر دیں جو خوش آئند ہے جس کے لیے ہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ان کی اکنامک ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ کرونا وبا کے پیش نظر مکمل لاک ڈائون کے باعث ایکسپورٹرز کی مشکلات خاص طور پر لیکویڈٹی مسائل میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا وزیر اعظم پاکستان سے مطالبہ ہے کہ ہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے پرانے deferredسیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے ریفنڈز کلیمز کی ادائیگیاں بھی فوری طور پر کی جائیں۔یوٹیلیٹز کی مد میں حکومت کی طرف سے انڈسٹریز کے لیے کو خاطر خواہ ریلیف نہیں مل سکی۔
محمد جاوید بلوانی نے بتایا کہ اس کے علاوہ حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تحت بھی ریلیف کے لیے اقدامات کئے جس میں شرح سود میں کمی، ایکسپورٹ صنعتوں کے لیے ایکسپورٹ ریفنانسنگ اسکیم کے تحت فنانسنگ میں سہولت ، ورکرز اور اسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 3فیصد شرح سود پر قرضہ کی فراہمی تاکہ ورکرز کی ملازمتیں ختم نہ ہوں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی ایکسپورٹ کی صنعتیں خاص طور پر اسمال اینڈ میڈیم ایکسپورٹ انڈسٹریز کی بڑی تعداد بینکوں کے سہولت استعمال نہیں کرنے اس لیے ان سہولیات کا انہیں کوئی فائدہ نہ مل سکا۔ ایس ایم ایز کے لیے ان اسکیمزکو آسان بنانے اور شرح سود کم کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ایس ایم ایز کے لیے علیحدہ فنانسنگ اسکیمز کا اجراء کیا جائے، شرح سود کو مزید کم کرکے 4یا 5فیصد کیا جائے، ورکرز اور اسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنانسنگ کی خاطرشرح سودصفر کی جائے، ایکسپورٹ پروسیڈز رئیلائزیشن کی لمٹ 365دن تک بڑھا دی جائے۔
محمد جاوید بلوانی نے بتایا کہ حکومت سندھ کے کراچی میں لاک ڈائون کے آغاز کے ساتھ ہی پی ایچ ایم اے نے سندھ حکومت سے رابط کیا اور ایکسپورٹ انڈسٹریز کو ایس او پی کے تحت صنعتیں کھولنے کا مطالبہ کیا تاکہ ایکسپورٹ انڈسٹریز اپنے ایکسپورٹ آرڈرز کو مکمل کر سکیں بصورت دیگر آرڈرز کینسل ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا ہو گا۔کئی اجلاس کے بعد تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد حکومت سندھ ایکسپورٹ انڈسٹریز کو ایس او پی کے تحت صنعت کو چلانے کی اجازت دینے پر رضامند ہو گئی۔اس حوالے سے پی ایچ ایم اے نے وفاقی حکومت سے بھی رابطہ کیا اور مشیر تجارت اور وفاقی سیکریٹری تجارت کی طرف سے سندھ حکومت کو ایکسپورٹ انڈسٹری کو چلانے کے لیے سفارشات بھجوائی گئیں۔واضح رہے کہ حکومت پنجاب نے سب سے پہلے ایکسپورٹ انڈسٹری کو چلانے کی اجازت دی جس کی وجہ سے پنجاب کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کو نسبتاً کم نقصان کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سندھ کی ایکسپورٹ انڈسٹری کوانڈسٹری کھولنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے بروقت ایکسپورٹ آرڈرز مکمل نہ ہونے اور کئی ایکسپورٹ آرڈرز کے منسوخ ہونے کی وجہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
محمد جاوید بلوانی نے بتایا کہ ملک بھر میں تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ایکسپورٹ انڈسٹریز نے ٹریڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے آرڈرز کی تصدیق اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے خصوصی اجازت ملنے کے بعد کام شروع کر دیا ہے تاہم ممبران نے ایسوسی ایشن رابطہ کرکے درخواست کی ہے کہ ان کی الائیڈ انڈسٹریز کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے کیونکہ الائیڈ انڈسٹریز کی بند ش کے باعث ان کی سپلائی چین مکمل نہیں ہے اور مصنوعات کی تیاری کے لیے درکار میٹرئیل جو الائیڈ انڈسٹریز سپلائی کرتی تھیں دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل ممکن نہیں۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کے ساتھ تقریباً چالیس سے زائد الائیڈ انڈسٹریز وابستہ ہیں۔
ہمارا حکومت سے مطالبہ کیا کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری سے منسلک تمام الائیڈ انڈسٹری کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے۔الائیڈ انڈسٹری لاک ڈائون کے دوران کام کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے عائد قواعد و ضوابط پر عمل کرنے اور حلف نامے جمع کروانے کے لیے تیار ہے اور انڈسٹریز میں کام کے دوران تمام حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔اس وقت تک ٹریڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے 834 ایکسپورٹ انڈسٹریز کے آرڈرز کی تصدیق کر دی ہے جبکہ حکومت سندھ نے صرف591انڈسٹریز کو صنعتی سرگرمیاں چلانے کی اجازت دی ہے جبکہ الائیڈ انڈسٹری کو کھولنے کا ٖفیصلہ تاحال تاخیر کا شکار ہے۔
پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے بجٹ تجاویز وفاقی حکومت کو ارسال کر دی ہیںجس میں ہمارا اولین مطالبہ آئندہ بجٹ میں پانچ زیر و ریٹیڈ سیکٹرز کے لیے ماضی کازیرو ریٹنگ نو پے منٹ نو ریفنڈ سیلز ٹیکس نظام کی بحالی ہے جو ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو درپیش مالی مشکلات کا مستقل حل نکالنے کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس لیے حکومت ایس آر او 1125کا حقیقی معنوں میں دوبار اطلاق کرے۔علاوہ ازیں پی ایچ ایم اے میں بجٹ تجاویز میں مطالبہ کیا ہے کہ برآمدی شعبے کے خام مال پر ودھ ہولڈنگ ٹیکس ختم یا 0.50فیصد کیا جائے، کسٹم ریبیٹ کلیمز کی ادائیگی برآمدات کی رقم ملنے کے ساتھ کی جائے، 0.25فیصد ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج معطل کر دیا جائے جب تک فنڈ میں موجود اربوں روپے استعمال نہیں ہو جاتے،ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے گیس کی طرح بجلی کے علیحدہ نرخ کو ٹیریف شیڈول میں علیحدہ بیان کیا جائے، لاک ڈاون کے سبب ایکسپورٹس پروسیدز کا دورانیہ 180 روز سے بڑھا کر 365 دن کیا جائے،ٹیکسٹائل شعبے میں ماضی میں دی گئی ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ اسکیم کا اجراء مزید 3 سال کے لیے کیا جائے، ڈیوٹی ڈرا بیک آف ٹیکسس کی موجودہ ترغیبات کو بڑھایا جائے اور انکریمنٹل ڈرابیک کے دورانیہ کو 12 کے بجائے 8 ماہ کیا جائے ، ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیمز کو آسان بنایا جائے، ایکسپورٹ اورینٹیڈ یونٹس سے متعلق ترمیمی ایس آر او 747 کو واپس لیا جائے،ڈی ٹی آر ای اسکیم میں درآمدات کی درخواست فاسٹ ٹریک پر کاروائی کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں اجازت دی جائے۔
محمد جاوید بلوانی نے بتایا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو سہارا دینا اور سنبھالنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے بصورت دیگر ایکسپورٹ میں شدید تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کے حکومتی امدادی اقدامات انتہائی ضروری ہیں ورنہ تشویشناک حالات اور مختلف چیلنجز کا سامنا کرتی برآمدی صنعتوں کو افراتفری کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
عثمان غازی۔ بلاول ہائوس کے میڈیا مانیٹرنگ اینڈ رسپانس سیل کے انچارج ہیں۔ سوشل میڈیا پر جنگ فورم کے سوال کے جواب میں انہوں نے رائے دی کہ
1۔ 100 ارب روپے کاروباری برادری کے لئے ٹیکس ری فنڈ کے رکھے گئے ہیں۔ یہ تو وہ پیسہ ہے جو کاروباری برادری کا 250 ارب ایڈوانس حکومت کے پاس ہے، وہ تین سال سے مانگ رہے ہیں، اس کا خزانہ پر کیا اثر ہو گا کہ یہ تو بجٹ کا حصہ نہ ہے۔ اس پر مزید یہ کہ پہلے بھی کئی دفعہ وعدے کر کے حکومت نے یہ رقم نہ دی ہے۔
2۔100 ارب کاروباری افراد کی طرف سے لئے گئے قرض کے اصل زر اور سود کو ایک سال کے لئے ڈیفر کیا ہے، اس کا حکومت کے خزانہ پر کیا اثر ہو گا کہ حکومت نے تو کوئی خرچ نہ کرنا ہے، بنکوں کو کہا گیا ہے کوئی مالی اثر نہ ہے۔
3۔280 ارب روپے گندم کی خریداری کے لئے رکھے گئے ہیں۔
یہ تو ہر سال حکومت اسٹرٹیجک ریزرو کی خریداری میں استعمال کرتی ہے، اس کا کورونا وائرس سے کوئی تعلق نہ ہے۔
4۔75 ارب روپیہ تیل کی قیمت کم کرنے پر خرچ ہو گا۔
حالانکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے تیل سستا ہو گیا ہے اور حکومت کو اس مد میں 150 ارب سے زائد کی بچت ہوئی ہے جو عوام تک جانا چاہیئے، یہ تو صرف 75 ارب روپے دے رہے ہیں۔
5۔30 ارب روپے چھوٹے صارفین کے لئے بجلی اور گیس کے بل ایک ماہ مؤخر کرنے کا کہا گیا ہے جو کہ انہوں نے قسطوں میں آنے والے مہینوں میں ادا کرنا ہے تو اس کا کورونا ریلیف سے کیا تعلق، اس حکومت کا کوئی خرچ نہ ہورہا ہے۔
6۔200 ارب روپے ان مزدوروں کے لئے رکھے گئے ہیں جو بیروزگار ہوں گے یا ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔
اس کی تو کیلکولیشن نہ ہے، نہ ہی کوئی طریقہ کار طے ہوا ہے، بس ایک فِگردے دیا گیا ہے نہ کوئی کام ہو رہا ہے۔
7۔ 100 ارب روپے کسانوں اورایس ایم ای کے لئے رکھا گیا ہے، اس کا کوئی بیسز نہ بتایا گیا ہے، اسکو کس طرح کسانوں اور چھوٹی و درمیانی صنعتوں کو دیا جائے گا، ابھی تک صرف لفاظی ہے۔
8۔ 150 ارب روپے 12 ملین افراد جو کہ ڈیلی ویجر یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام والے ہیں، یہی رقم اصل میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کو دی جا رہی ہے، اس میں ماہانہ اقساط جو کہ بجٹ کا حصہ تھا، گذشتہ کئی ماہ سے ادا نہ کی گئی ہیں اور اب 4 ماہ کی امداد یک مشت دے رہے ہیں تو اس میں کچھ لوگ نئے اور بیشتر پہلے سے موجود ہیں لہذا اس کا خزانہ پر 150 ارب کا اثر نہ ہوگا یا کافی کم ہو گا۔
9۔ 50 ارب روپے یوٹیلٹی اسٹور کے لئے رکھے گئے ہیں، دراصل پچھلے پورے سال میں یوٹیلٹی اسٹور کی کل سیل ساڑھے 26 ارب روپے تھی، جو ادارہ سال میں کل سیل ساڑھے 26 ارب روپے کر سکتا ہو، وہ 50 ارب کا ریلیف کیسے دے سکتا ہے۔ کیا یوٹیلٹی اسٹور 50 ارب کا سامان مفت دے گا۔
10۔ 50 ارب روپے کوکورونا سے متعلقہ سامان اور مشینری وغیرہ کی خرید و فروخت کے لئے رکھا گیا ہے، خرچ کتنا ہو گا؟
11۔ 25 ارب روپیہ این ڈی ایم اے کے لئے رکھا گیا ہے جس سے مختلف سامان ٹیسٹنگ کٹس، وینٹیلیٹرز وغیرہ اوردیگر سامان خرید رہے ہیں۔
12۔100 ارب روپیہ بلاک ایلوکیشن کے لئے رکھا گیا ہے کہ مستقبل میں جہاں ضرورت ہوئی، خرچ کریں گے۔
اس کو یہاں دکھانے کی ضرورت نہ تھی بلکہ جب ضرورت ہوتی اس کی منظوری دے دی جاتی، کون سا پارلیمینٹ سے فوری منظوری کی ضرورت ہے۔ کیا آپ نے سارے پیکیج کی وہاں سے منظوری لی ہے؟
شوکت رسول۔ بارہ کھرب کا ریلیف پیکیج دھوکا ہے۔ احساس پروگرام جو کہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام ہے 144 ارب روپے دینے کا کہا گیا، ماہانہ ایک ہزار اضافی، اب چار ماہ ان غریبوں کو پیسے نہیں ملیں گے۔ گندم کی خریداری کے لیے 280 ارب روپے رکھے گئے، ہر سال یہ کام ہوتا ہے۔ تاجروں کو برآمدات پر جی ایس ٹی ریفنڈ کے لیے 100ارب روپے رکھے گئے، یہ تاجروں کے اپنے پیسے ہیںپیٹرولیم مصنوعات پر رعایت کے لیے 75 ارب روپے رکھے گئے، حکومت پہلے ہی بہت زیادہ ٹیکس وصول کر رہی تھی اور اب بھی 99.7 فیصد ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ کرونا کے علاج اور آلات کے لیے جو رقم رکھی گئی ہے وہ صوبوں کے حصے سے کاٹ لی جائے گی۔یہ ریلیف پیکیج اعداد و شمار کا دھوکا ہے۔
عارف قریشی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 144ارب کے احساس پروگرام میں فی خاندان بارہ ہزار روپے دیے جارہے ہیں احساس پروگرام سینٹرز پر سماجی فاصلوں پر عمل نہیں کیا گیا اکثر سینٹر پر مرد و خواتین کی بھیڑ نے کورونا وائرس کو دعوت دی دوسرا ان 12ہزار میں بھی کرپشن کی گئی اکثر مرد و خواتین کو 12ہزار کے بجائے دس گیارہ ہزار روپے دئے گے۔