• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان نے آج تک جنگ و جدل اورقومی سلامتی کے نام پر جتنے بھی ہتھیار ایجاد کیے ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک ایٹم بم ہے۔ اس کی تباہی کےاثرات کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔یہ چند لمحوں میں پورے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ اس کی شِدّت سے پہاڑ پگھل جاتے ہیں اور اس کی حِدّت سے دریا ریت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ چند لمحے قیامت کے ہوتے ہیں اور پھر برسوں اس سرزمین پر کچھ نہیں اُگ پاتا۔ تاب کار اثرات دور دور تک تباہی کا سامان لے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ دکھ اور پریشانی کی بات یہ ہے ہم اس خطرناک ترین ہتھیار کے ڈھیر لگانے کے ساتھ اور بھی کئی اقسام کے مہلک ہتھیار بنا کر ذخیرہ کرتے جا رہے ہیں۔ 

ان ذخائر میں ایٹم بم کے ساتھ ہائیڈروجن بم بھی ہیں جو مزید مہلک اور برترین بم ہے جس سے تمام اقسام کی حیات دم گھٹ کرہلاک ہو جاتی ہے۔روس نے سردجنگ کے دور میں زار بم آر ایس دو سوبیس تیا ر کیا ۔اسےروس نے ایٹم بم نے دس گنا زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر علیحدہ ہیں۔اس کے علاوہ بایو انجینئرنگ سے وبائی امراض پھیلانے والے ہتھیاربھی ہیں۔اب کرونا وائرس کا تماشہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس سے آگے نینو ٹیکنالوجی کی مددسے بھی مزید مہلک اور خطرناک ہتھیار بنائے جا رہے ہیں جن کی تشہیر ابھی نہیں کی گئی ہے۔

قدیم یونانی فلاسفر ہیرامللیس کہتا ہے کہ دنیا میں جنگ یا مسابقت ہرچیز کی ماں ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا میں جتنی دریافتیں اور ایجادات ہوئیںوہ اختراعا ت، افکار، خیالات، مملکتوں کاظہوراور حکم رانی کے سرچشمے اسی کے مرہون منت ہیں۔ دنیا میں پہلی بار6اگست 1945کو جاپان کےشہر ہیروشیما پر امریکانےاپنے بی 52طیارے سے پہلا ایٹم بم گرایا۔ اس وقت ہیروشیما کی کل آبادی دو لاکھ پچپن ہزار سے زاید تھی۔ بم گرتے ہی لمحوں میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ باقی شدید ترین اور بدترین طور پر زخمی، مفلوج اور اپاہج ہو گئے ۔ ہفتوں ان کے جسم سے خون اور پانی رستا رہا اور وہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوتے رہے۔ 

امریکا کی وارٹیم نے9اگست 1945کو جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ اس وقت ناگاساکی کی مجموعی آبادی دولاکھ تریسٹھ ہزار سے زاید تھی۔ چند لمحوں میں ان میں سے سوا دو لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ باقی آبادی بدترین حالت اور زخموں کی تاب نہ لاکر تڑپ تڑپ کر ختم ہوئی۔ جو چند ایک افرادکسی وجہ سے ان جزائرپر زندہ رہ گئے تھے وہ مرنے والوں سے زیادہ بدنصیب تھے۔کیوں کہ وہ مفلوج تھے۔انہیں طرح طرح کی عجیب بیماریوں نے گھیر لیا۔ وہ زندہ تھے نہ مردہ۔محض سانس کا رشتہ باقی تھا۔ باقی ایک عذاب تھا ان بے گناہ لوگوں پر جو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا تھی۔ دنیاپرسکتہ طاری ہو چکا تھاکہ کیا قیامت ٹوٹ پڑی ۔ جب دنیا کو ہوش آیا تو وہ خاصی بدل چکی تھی ۔

دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں کی جرمنی، اٹلی اور جاپان سے جنگ جاری تھی۔روس اور جرمنی کا اسٹالن گراڈ کا معرکہ شدّت سے ہوا۔جرمنی نے اپنی پوری عسکری طاقت روس کو شکست دینے کے لیے جھونک دی تھی۔مگر روسی فوج بڑی دلیری سے لڑے۔روسی کمیونسٹ پارٹی کے رضا کاروں نے بھی اپنی جان لڑادی۔ چند ماہ کی جنگ میں جرمنی کے پائوں اکھڑ گئے۔جرمنی کی شکست کے بعد دوسرے لفظوں میں دوسری جنگ عظیم ختم ہو گئی۔ اتحادی،یعنی امریکا، روس، برطانیہ اور دیگر فاتح قرار پائے۔

مگر مشرقِ بعید اور بحرالکاہل میں جاپانی فوجیں معرکے سر کر رہی تھی۔ جاپانی جس جذبے اور جنون سے یہ جنگ لڑ رہے تھے وہ واقعی امریکیوں کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ یورپ میں جنگ کے خاتمے کے بعد بھی جاپانی پیش قدمی پر تلے ہوئے تھے۔اتحادی ا فواج نے بحرالکاہل میں جاپانی فوج کا گھیرائو کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی جاپان کو جنگ بندکرنے اور ہتھیار ڈالنے کا الٹی میٹم دے دیا تھا۔مگر جاپان نے الٹی میٹم مستردکرتے ہوئے اعلان کر دیاکہ جنگ جاری رہے گی۔ 

امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھاکہ امریکی سپاہی ہلاک ہو رہے تھے۔جرمنی ہتھیار ڈال چکا تھا،مگر جاپانی لڑائی بند نہیںکر رہے تھے۔لہذا سوچا گیا کہ ان پرکوئی خطرناک ہتھیار استعمال کیا جائے۔ادہر مین ہٹن کلب نامی سائنس دانوں اور ماہرین کا گروپ آئین اسٹائن کے امریکا آنے کے بعد سے کام کر رہا تھا۔اس کلب نے دوطرح کے بم تیار کرلیے تھے۔ ایک یورینیم سے اوردوسرا پلوٹونیم سے تیارکیا جا رہا تھا۔ ہیری ٹرومین نے 6اگست کو جس بم کو گرانے کا حکم دیا وہ یورینیم سے تیار کردہ تھاجو ہیروشیما پر گرایا گیا۔پھر تین دن بعد، 9اگست کو جوبم ناگا ساکی پر گرایا گیا وہ پلوٹونیم سے تیارکردہ تھا ۔ ان دونوں حملوں کے دودن بعد جاپان نے ہتھیا ر ڈال دیے۔

دوسری عالمی جنگ کا انجام اتنا خوف ناک ہوگا یہ کسی نے سوچام بھی نہ تھا۔اس سے قبل جب امریکا اور جاپان بحرالکاہل اور اس کے اطراف نبرد آزما تھے تو اس وقت امریکاکے زیرک جنرل، میک آرتھر نے امریکاکو جاپان پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہےکہ جنرل میک آرتھر نے تمام تیاریاں کرلی تھیں،مگر مین ہٹن کلب کی طرف سے اشارہ تھاکہ اس کے بنائے ہوئے بم کا تجربہ بھی کرنا ہے۔اور پھر یہ دو ایٹمی تجربات بھی کرلیےگئے اوریوں امریکا نے اپنے آپ کوسپر پاور ڈیکلیئر کردیا۔

مگر تین سال کےکم عرصے میں روس نے بڑے بڑے ایٹمی تجربات کرکے امریکا کو جتا دیا کہ دنیا میں دو سپر پاورز ہیں۔مگر اس تمام جنگ و جدل ، نخوت ، نفرت، حسد ، مسابقت، تعصب ، حرص و لالچ میں کسی نے یہ اعداد و شمار جمع نہیں کیے کہ بیسویں صدی میں کتنے کروڑ انسانوںکو ہلاک کیاگیا،کتنےملکوں، شہروں اورگائوں کو تاراج کیا گیا۔کتنے جان دار، جنگلی حیات، جنگل، نباتات تباہ ہوئے۔ یہ اعداد و شمارکبھی سامنے نہیں آئیں گے۔ لیکن اس کا خمیازہ انسانیت اب تک بھگت رہی ہے۔ دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو آج بھی روٹی، کپڑا، چھت، دوا، تعلیم، پانی، روزگار، انصاف، کچھ بھی تو میسر نہیں آیا۔

انسان نے پوری طرح عالم گیر تباہی اور انسانیت کی بربادی کا اہتمام کرلیا ہے۔ خاص طورپر کرونا وائرس کی وجہ سے مغربی ملکوں، خصوصا امریکا کے چین پر الزامات اور چین کے جوابی الزامات سے دنیا میں تند وتیز لہجوں اور الفاظ کی جنگ تیز ہوتی جا رہی ہے۔بعض ممالک تحریری طورپرچین پر الزامات لگاچکے ہیں کہ اس نے وائرس کے پھیلنے کے بارے میں دنیا کو بروقت اطلاع نہیں دی۔ اس ضمن میں آسٹریلیا کے صدرنے ایک سخت خط بیجنگ کو ارسال کیا ہے جس پر چین نے آسٹریلیا کو واضح دھمکی دی ہےکہ اس سے تجارتی تعلقات منقطع کیےجا سکتے ہیں ۔ 

کچھ ایسا ہی معاملہ تائیوان کا ہے۔ اس نے بھی چین سے احتجاج کیا ہے۔ یورپی یونین امریکا،نیوزی لینڈ اور روس بھی بڑی حد تک شکوے کر رہے ہیںکہ چین نے انہیں بھی نہیں بتایا کہ یہ وبائی مرض انسان سے انسان کو لگتا ہے اور سانس سے پھیلتا ہے۔ اس بارے میںعالمی ادارہ صحت کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اس نے بھی اپنا فرض پوری طرح ادا نہیں کیا۔ اس کووڈ۔ انیس کی وجہ سے امریکا ، یورپ اور دیگر ممالک کو اربوں کھربوں ڈالرزکا نقصان ہواہے جس سے یہ تمام ممالک شدت غم اورغصے سے تڑپ رہے ہیں۔ ہزاروں اموات ہوچکی ہیں۔

ایسے میں جو عالمی کشیدگی اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے اس میں ماہرین اورمبصرین کو خدشات ہیں کہ کہیں سے کوئی چنگاری نہ بھڑک جائے جو لمحوں میں بڑی جنگ میںتبدیل ہو سکتی ہے۔ حالات اور واقعات اسی رخ پرجا رہے ہیں۔مگر بیش ترسیاست دانوں اور سفارت کاروں کا خیال ہے کہ قوموں کے مابین جو بھی غم و غصہ اور اشتعال کیوں نہ ہو دنیا کی نظریں درحققیت امریکا کے صدارتی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں۔خود امریکا میں پوری انتظامیہ،صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وہاں کی دونوں سیاسی جماعتیںانتخابی معرکہ سرکرنے کی طرف متوجہ ہیں۔مگر کووڈ۔انیس نے سب کچھ تہہ و بالا کر دیا ہے۔

امریکہ میںکرونا وائرس کے مریضوں اور اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح کی صورت حال سے جدید امریکا پہلی بار گزر رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے صدارتی امیدواروں کے درمیان مقابلہ مزید سخت ہوگیا ہے ۔ صدرٹرمپ اپنی آتش بیانی اوربے ساختگی کے ضمن میں خاصی شہرت رکھتے ہیں جس پر ہر کوئی ان سے ہوشیاریا سہما رہتا ہےکہ جانے کب ان کے منہ سے کون سا جملہ نکل جائے۔ ٹرمپ نے جب سےامریکا کے صدر کی حیثیت سے وائٹ ہائوس میں قدم رکھا ہے تب سے اب تک وہ ساٹھ فی صد سے زاید اپنے قریبی رفقا، اعلی حکام اور انتظامی افسران کو تبدیل کر چکے ہیں۔ 

ان کے جذباتی رویے سے بہت سے افراد ناراض رہتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ حال ہی میں وہ ایک نازک موقعے سےگزرے ہیں۔دوسراستم یہ کہ ان کے مقابل ڈیمو کریٹک پارٹی کے اب واحد امیدوار جوبائیڈن ہیں جو سابق صدر اوباما کے دور میںنائب صدر تھے۔ جوبائیڈن بہت بردبار شخصیت کے مالک ہیں۔ان کا ماضی بے داغ ہے۔کام یاب سفارت کار اور محنتی سیاست داں ہیں۔ وہ اپنی پارٹی کے حلقے کے علاوہ بھی دیگر حلقوں میں پسند کیے جاتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا موقف یہ ہے کہ چین نے وا ئرس کو فروغ دیا،مغربی ممالک خصوصاامریکاکی معیشت، سیاست اور معاشرت کو شدید زک پہنچائی ہے جس کا معاوضہ چین امریکاکو ادا کرے یا پھر حالات کا مقابلہ کرے۔ان کا اور ان کے حاموں کامزید کہنا ہےکہ امریکی کمپنیوں کو چین سے اپنی فیکٹریاں منتقل کرنی چاہییںاور امریکیوں کو روزگار فراہم کرنا چاہیے۔بلاشبہ امریکا کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور لاکھوں امریکی بے روزگار ہو گئے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی الزامات چین کے حوالے سے کتنے درست اور کتنے من گھڑت ہیں؟

مسئلہ یہ ہے کہ دو بڑی طاقتوں کے بیچ کشیدگی بڑ ھ رہی ہے اور حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں ۔ ایسے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسائل میں گھرے ممالک جنگ و جدل کا راستہ اپناتے ہیں اور اپنی قوم کو اس میں الجھا دیتے ہیں یا نہیں؟اس حوالے سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ امن کے ادوار کی معیشت الگ ہوتی ہے اور جنگ کے دور کی معیشت اور ہوتی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر ، پریشان کن بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے جتنے ممالک ہیں ان کے اسلحہ خانے بھرے ہوئے ہیں۔ بعض ممالک کی فوجوں نے مشقیں بھی شروع کردی ہیں۔ 

دنیا کے بیش ترحساس مقامات مزید حساس ہوگئے ہیں ۔ اس وقت امریکا،روس،چین، برطانیہ، فرانس، اسرائیل، بھارت،پاکستان اور شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں، میزائلوں، بین البراعظمی میزائلوں،کیمیائی اور بایولوجیکل ہتھیاروں،لیزر، سائبراسپیس اور خلائی جنگی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ اگر خدانخواستہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو تصور کریں کہ کس قدر تباہی کا اندیشہ ہے۔ پہلے ہی کرہ ارض کو انسان بری طرح زخمی کرچکا ہےاس پر ایٹمی جنگ کی قیامت نہ صرف پوری انسانیت کی تباہی ہوگی بلکہ کراہ ارض کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔واضح رہے کہ سترہویں صدی سے انیسویں صدی تک اس وقت کی بڑی طاقتیں،جن میں سرفہرست برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال، ہالینڈ اوربیلجیم وغیرہ تھے،آدھی سے زاید دنیا پر اپنا تسلط قائم کرچکی تھیں۔ 

ترقی پذیر ممالک ان کی غلامی برداشت کرتے رہے اور اپنے قدرتی وسائل کی لوٹ مار دیکھتے رہے۔ پھر جرمنی، آسٹریا، اٹلی نےنو آبادیات میں اپنا حصہ بانٹنے کے لیے یورپی طاقتوں ہی سے جنگ کی ۔ دو عالمی جنگوں کا حشر سب نے دیکھا اور ان کے مہلک اثرات غریب ممالک اب تک بھگت رہے ہیں۔اب ایک بار پھر دنیاغریب ممالک کے قدرتی وسائل پر ایک الگ طریقے سے تسلط قائم کرنے اور دنیا کی معیشت میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنےکی جنگ کے دہانےپر آگئی ہے۔

یہ بات توطے ہے کہ کووڈ۔انیس کی وبا کے بعد دنیا میں خاصی تبدیلیاں آجائیں گی۔ سب سے پہلے قوموںکو بے روزگاری،بھوک،پانی کی قلت اور منہگائی کے مسائل کا سامنا کرناہوگا۔ تعلیمی ماحول،صحت عامہ کی سہولتوں،طرزِ معاشرت اور طرز حکم رانی میں نمایاں تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔جمہوری معاشروں کو زبردست خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔بنیادی انسانی حقوق اور اظہار رائے پر پابندیاں عاید ہو سکتی ہیں۔انتہا پسند نظریات، خواہ وہ مذہبی نوعیت کے ہوں، نسلی یا لسانی ہوں ،شدت سے فروغ پا سکتے ہیں۔اس تناظر میںبعض معاشروں میں خانہ جنگی ہونے کے بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ دنیا بہ تدریج دو اور تین بلاکس میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ قوم پرستی کو عروج حاصل ہو سکتاہے۔ 

نظریہ عالم گیریت اپنی ساکھ کھو چکاہے۔ یہ محض کثیر القومی اداروں اور اجارہ دار کارپوریشنز کا کلب ہے۔دنیا کی قسمت کا آخری فیصلہ ان اجارہ داروں نے کرنا ہے۔ اس کاپہلا فیصلہ امریکاکے صدارتی انتخابات کے بعدسامنےآجائے گا۔ امریکی صدارتی انتخابات بھی عجیب ماحول میں آ رہے ہیں۔نومبر تک معلوم نہیں کیا کچھ بدل جائے۔ کیوں کہ چین اور امریکا کے درمیان کووڈ۔انیس کے معاملے میں قدرے تیزی آرہی ہے اور یہ کشیدگی سرد جنگ میں بدلتی دکھائی دےرہی ہے۔چین میں بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حرکت بھی دکھائی دی ہے۔ خاص طور پر جنوبی بحیرہ چین اور بحرالکاہل میں چینی بحری جہاز اور طیارے مستعد ہیں ۔ دوسری طرف امریکانے بھی اپناسب سے بڑاطیارہ بردار جہاز روزویلٹ، دیگر جہازاوربم بار طیارے بحرالکاہل میں واقع امریکی جزیرہ گوام پہنچادیے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں کشمیر ہمیشہ فلش پوائنٹ رہا ہے۔اب بھارتی حکومت شور مچا رہی ہے کہ پاکستان جنگی تیاریاں کر رہا ہے اور یہ خدشات ظاہرکیے جا رہے ہیں کہ پاکستان بھارت پر ایٹمی حملہ کرے گا۔ پاکستان کی حکومت، آئی ایس پی آر اور وزارت خارجہ ان بھارتی الزامات کومسترد کرچکی ہے۔اس طرح مشرق وسطی، بحرالکاہل، جنوبی ایشیا اور یورپ بہ تدریج ایٹمی فلش پوائنٹ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان تمام ممالک کے پاس روایتی ہتھیار بھی نہایت مہلک ہیں۔لیکن اگر روایتی ہتھیاروں سے بھی جنگ شروع ہوئی اورکسی نے بھی ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کیے تب بھی دنیا کی نصف آبادی ختم ہوجائے گی۔ تباہی و بربادی کے تخمینے برسوں لگائے جاتے رہیں گے ۔ واضح رہے کہ1945میں امریکا نے ہیروشیما پر جو بم گرایا وہ بہت کم طاقت کا تھا۔ اس لیے اس کا نام ’’بے بی بم‘‘ رکھا گیا تھا۔ 

دوسرا، جو ناگاساکی پر گرایاگیا، وہ قدرے زیادہ قوت کا تھا۔ اس کا نام ’’فیٹ مین‘‘ رکھا گیاتھا۔ یہ دونوں بم تجرباتی نوعیت کےتھے اور آج کی نسبت بہت کم قوت کے حامل تھے، مگر ان جزیروں کے لیے قیامت خیز تھے۔انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس نے جو جوہری تجربات کیے وہ جاپان پر گرائے گئے بموں سے سو گنا زاید قوت کے تھے۔ روس نےسرد جنگ کے دوران ایک ایٹم بم تیار کیا تھا جس کا نام ’’زار بم‘‘ رکھا تھا۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا، طاقت ور اور مہلک ترین بم قرار دیا گیا تھا ۔ روس نے اسے اپنے ذخیرے میں رکھ چھوڑا ہے۔انیس سو ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں روس اور امریکانے ایٹمی تجربات کا طویل سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح ان ممالک کے ایٹمی ذخائر میں ہزاروں بم جمع ہوتے رہے۔ مگر دنیا کو اس وقت ہوش آیا جب 1962میں اس وقت کے سوویت یونین نے امریکاکے قریب واقع جزیرے،کیوبا میں اپنے ایٹمی میزائل نصب کرنے کا اعلان کرکے یہ میزائل سمندری جہاز سے کیوبا کی طرف روانہ کر دیے تھے۔

اس پر امریکا میں جیسے طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔واشنگٹن نے فوری خبردار کیا کہ میزائل کیوبا تک پہنچے تو امریکا ایٹمی حملہ کردے گا۔ مگر روس نے اس دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئےجہازکو بحراوقیانوس میں جانے دیا۔ امریکانے پھر زوردار دھمکی دی اور اپنےبحری بیڑے، لڑاکا طیاروں، سب کو الرٹ کر دیا۔ درحقیقت واقعہ یہ تھا کہ امریکانے اس سے چند ماہ قبل بڑی راز داری سے بحیرہ روم میں قبرص میں اپنے بحری اڈے پر بین البراعظمی میزائل نصب کردیے تھے جو بہ راہ راست روس کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ اس لیے روس نے کیوبا میں، جو اس کا اتحادی تھا، اپنے میزائل نصب کرنے کا منصوبہ بنایا جس پر امریکہ چیخ پڑا۔ پھرطے ہوا کہ امریکا بھی قبرص سے اپنے میزائل ہٹالےگا۔ اس طرح یہ تنازع حل ہوگیا اور دنیا ایک خوف ناک ایٹمی جنگ میں جھلس جانے سے بچ گئی۔ اندازہ لگائیں کہ کس طرح اس دنیا کو محض ایک تنازع اور ایک ایسا ملک جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں تہس نہس کر سکتا ہے۔

اب ایک نئی سردجنگ شروع ہوچکی ہے۔ایک طرف چین اور اس کے حلیف ہیں ۔دوسری طرف امریکا اور اس کے حلیف اوربہت بڑی تعداد میں غیر جانب دارممالک بھی ہو سکتے ہیں۔ ایران میں کووڈ۔انیس سے ہزاروں اموات ہو چکی ہیں۔ اس پر اقتصادی پابندیاں عاید ہیں۔ ایرانی حکومت اس صورت حال میں خاصی پریشان ہے۔ایرانی عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور اضطراب کوئی رنگ دکھا سکتا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی اپنی حدوں کو چھورہی ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں پریشان ہیں۔ ان پر ایف اے ٹی ایف نے بھی کچھ بندشیں لگائی ہیں کہ اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔ ان کے لیے یہ مشکلات بھی ہیں کہ تیل کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں، مارکیٹ مندی ہے اور ملک میں کاروبار بند ہے۔وہاں سب سےزیادہ تارکین وطن پاکستانی، بھارتی اور بنگلا دیشی ہیں جنہیں تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، کہیں سے کوئی مدد نہیں ہے۔ اب یہ اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ تارکین وطن کی بڑی تعداد کو واپس اپنے وطن آنا ہوگا۔ 

یہ جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ان تمام مسائل میں زیادہ لمبھیر مسئلہ جنگ کا نظر آتاہے، خواہ اس سال یااگلے سال۔ مگر ٹکراو لازمی نظر آ رہا ہے جس کی تیاریاں دیکھ کر خدشات اور بڑھ جاتے ہیں۔ جنوبی بحیرہ چین میں چین نےاپنے بحری بیڑے کو الرٹ کر دیا ہے۔ بحرالکاہل کے کھلے سمندر میں چینی جہاز گھوم رہے ہیں۔جنگی جہازوں کی اڑان بھی جاری ہیں۔امریکا نے اس صورت حال میں اپنے بحری بیڑوں کو الرٹ کر دیا ہے۔ بحرالکاہل میں امریکہ کا سب سے بڑا طیارہ بردار جہاز روزمغربی گوام کے قریب کھڑا ہے۔ اس کے ساتھ دیگر بحری جہاز بھی ہیں۔

امریکا کو اس بات کی بھی فکر ہے کہ امریکاکےقومی صحت عامہ کےشعبے کے ڈائریکٹرنے پیش گوئی کی ہے کہ جون کے بعد ملک میں کرونا کے مریضوں کی اموات میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ تعداد ہزاروں میں ہوگی۔امریکا اس وقت کووڈ انیس کے ضمن میںسب سے زیادہ پریشان ملک ہے۔ وہ جمہوری ملک ہے۔وہاں انسانی حقوق کی پاس داری لازم ہے۔ عدلیہ آزاد ہے۔پریس کو پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ معاشی طور پر اگر کچھ ٹھیک ہو رہا تھا تو وہ سب پانی میں گیا۔ گویا مفلسی میں آٹا گیلا ہوگیا۔ 

یورپی ممالک سمیت دیگر امریکی حلیف اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پھر صدر ٹرمپ رسی پر جھول رہے ہیں۔ صدارتی امیدواروں میں رسہ کشی جاری ہے۔ اس پر ستم یہ کہ چین نے دانت دکھانے شروع کر دیے ہیں،دنیا میں تیل کی قیمت گر چکی ہے، حصص بازار بیٹھ چکا ہے۔ ان حالات میں تاریخ بتاتی ہے کہ یا توریاستیں بکھر جاتی ہیں یا پھر جنگ کی راہ پر چل پڑتی ہیں۔ ویسے بھی معروف تاریخ دان اور مدبر ابن خلدون کے نزدیک کسی بھی بڑی سے بڑی ریاست کی عمر ایک سو بیس سال سے زاید نہیں ہوتی۔

دوسری طرف بے روزگاری،بھوک، معیشت میں مندی اور سماجی مشکلات کے باوجود بڑی قتیں اپنے اسلحہ خانوں کی گنتی پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ چین نے اپنے سات مزید جدید ہتھیاروں کی نمایش کی ہے۔جیساکہ عرض کیا گیا یہ طاقتیں کسی بہانے سے ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں جو کرونا وائرس سے دس ہزار گنا بڑی تباہی کا باعث بنے گا۔

لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ اسی کرہ ارض کے انسانوں نے علم و دانش کے بیش بہا موتی دیےہیں۔ہم نے مہلک بیماریوں اور طوفانوں کو شکست دی ہے۔ قدرتی آفات کا سب نے مل کر مقابلہ کیا ہے۔ اس حسین کرہ ارض کو اور اس پر بسنے والے کروڑوں مسکراتے بچوں کو کیا ہم صرف اپنی انا، نخوت، طاقت اور اپنے مفاد کے لیے نیست و نابود کردیں گے؟ محض اپنا جھنڈا لہرانے کے لیے؟

تازہ ترین