• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمداجمل

ہمارے نوجوان اعلیٰ اور پروفیشنل تعلیم کے شعبے میں وہ کارنامے انجام نہیں دے رہے کہ جن سے ہم اپنے ملک و قوم کے دیرینہ مسائل کے پائیدار حل نکال سکیں، اس کی بنیادی کیا وجہ ہے ؟ ہمارا ملک قیام پاکستان کے بعد سے دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ کہ جنھیں تمام مراعات ، سہولتیں، وسائل، اورترجیحات حاصل ہیں، لیکن دوسری طرف وہ طبقہ ہے جسے ہر جگہ مار پڑتی ہے ۔ جسے کوئی سہولت اور مراعت حاصل نہیں ۔ وہ بنیادی سہولتوں سے ہی محروم ہے، پہلے طبقے جسے ہم اشرافیہ سے تعبیر کرتے ہیں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے ملک اور بیرون ملک تمام وسائل اور مواقع میسرہیں، جبکہ غریب کا بچہ تو صرف سرکاری اسکولوں تک ہی محدود رہتا ہے اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں داخلے کا خواب دیکھنا بھی اس کے لئے محال ہوتاہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ جو نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو کیا کارنامے انجام دیتے ہیں ؟ ہوتا یہ ہے کہ کہ یہ نوجوان یا تو اپنے باپ دادا کا کاروبار سنبھالتے ہیں یا پھر ان کے توسط سے ہی کوئی دوسرا بزنس سیٹ کرنے میں لگ جاتے ہیں اور یوں وہ ایک ہی دائرے میں رہ کر اپنی صلاحیتوں کو محدود کرلیتے ہیں ، اور یہ صلاحیتیں صرف ان کے اپنے کاروبار تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کی بات تو دور کی کوڑی لانے کے مترادف بن جاتی ہے ۔ غریب کا بچہ عمومی تعلیم تو کسی نہ کسی طرح حاصل کرلیتا ہے لیکن مزید تعلیم حال کرنے کی اس میں سکت نہیں ہوتی ، وہ مزید تعلیم تو کیا حاصل کرے گا وہ تو روزگار یا ذریعہ معاش تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے ، اس کی صلاحیتیں اپنے معاشی چکروں میں زنگ آلود ہوجاتی ہیں اور پھر ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے یا سوچنے کی فکر کہاں سے پیدا ہوگی....

ان بنیادی سوالات کے بعد اگر ہم اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو ہم ابھی تک کوئی قابل ذکر سائنسدان پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں، ہم کوئی قابل فخر انجینئر یا ڈاکٹر سامنے لانے میں ہنوز ناکام ہی ہیں ، ہمارے ملک کے بنیادی مسائل بدرجہ اتم موجود ہیں، ہمارے نوجوان میں بہت صلاحیتیں ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں یا جوافورڈ کرسکتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیےبیرون ملک قائم جامعات تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں وہاں سے فارغ ہوکر بہت کم واپس آتے ہیں اکثریت اسی ملک میں اپنے معاش کے کسی نہ کسی سلسلے کا انتظام کرلیتی ہے، یوں Brain Drain ہوجاتا ہے ، غریب نوجوان تو اچھا مستقبل صرف ایک عدد نوکری کے حصول ہی میں دیکھتا ہے، ہمارے ملک کے مسائل کیا ہیں ؟ ان کا حل کیا ہے ؟ ہم کیسے مسائل سے چھٹکارہ پائیں گے؟ کیا پلاننگ ہونی چاہئے ؟ معاشی مسائل پر کیسے قابو پائیں ؟ بجلی کیسے بنائی جائے لوڈ شیڈنگ کیسے ختم ہو ؟ پانی کس طرح اسٹو ر کیا جائے، ڈیم کیسے بنائے جائیں ؟، معیاری سڑکیں کیسے بنیں ؟ انڈسٹری کیسے قائم ہو ؟ وغیرہ وغیرہ..... ان سوالات کے عملی جواب ہمارے نوجوانوں نے دینے کی کوشش نہیں کی۔ ابھی تک ہمارے پاس کسی نئے معاشی منصوبہ ساز کا نام سامنے نہیں آیا ، کوئی انجینئر ایسا نہیں جو لوڈ شیڈنگ کا قابل عمل منصوبہ دے سکے ۔نوجوانوں کی صلاحیتوں پر کسی کو شبہ نہیں لیکن بات یہ ہے کہ ہمارا نوجوان تو معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے وہ جب تک اپنی جنگ نہیں جیتے گا وہ کس طرح دوسروں کی جنگ لڑ پائے گا۔

مسلمانوں کی تاریخ سائنسدانوں ، ریاضی دانوں ، ڈاکٹروں، حکیموں اور معاشی منصوبہ سازوں اور جنگی حکمت عملی ترتیب دینے والے سپہ سالاروں سے بھری پڑی ہے لیکن اب کہاں ہیں ان جیسے لوگ ؟؟ ہم ان شعبوں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور مغرب حاوی ہے پہلے ان شعبوں میں مسلمانوں کا غلبہ تھا۔ ہم کیوں اب صف اول کے سائنسدان نہیں بنا سکے ہیں ، طب و جراحت میں مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دئیے ہیں وہ اب تک یاد کئے جاتے ہیں لیکن ان کے جانے کے بعد مسلمان زوال پذیر ہیں، وہ تو اب کسی شعبے میں نمایاں نظر نہیں آتے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں سائنس پڑھنے کا رجحاں کم ہوتا جارہا ہے، یہ نوجوان اب سائنسدان بننے کی کم خواہش رکھتے ہیں ، اکثر و بیشتر طلبہ کو یہ مضمون بہت خشک اور مشکل لگتا ہے،اور وہ اس سے متنفر ہوتے جارہے ہیں ، کامرس پڑھنے کا رجحان بڑھا ہے یا پھر بزنس ایجوکیشن کا ۔ ہمارے ملک میں سائنس کا نصاب گھسا پٹا ہے اور دور حاضر کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہی حال میڈیسن کے شعبے کا ہے جہاں یورپ اور امریکہ میں ہونے والی جدید تحقیق سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ۔

افسوناک بات یہ ہے کہ ہم ہر چیز درآمد کررہے ہیں ہم غیر ممالک کی تیار کردہ چیزوں اور ایجادات کو بخوشی استعمال کرتے ہیں اور خطیر زر مبادلہ جھونک دیتے ہیں لیکن اپنے ملک میں ان کی تیاری پر توجہ نہیں دی جاتی نہ ہی ہمارا نوجوان اس جانب توجہ دیتا ہے اور نہ ہی حکومتی پا لیسی اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ، ہم چیزیں تو درآمد کرتے ہیں لیکن ان کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر کوئی دھیان نہیں دیتے ۔ 

اگر ہم یہ ٹیکنالوجی درآمد کریں تو پھر ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگا رکے مواقع کھلیں گے اور وہ اپنی صلاحیتوں کو صحیح جگہ استعمال کرسکیں گے، ابھی تک ہم نے صرف اشیاء امپورٹ کرنے پر توجہ دی ہے لیکن ٹیکنالوجی حاصل کرنا کبھی ہمارا مقصد نہیں رہا۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع میسر نہیں ، وہ ایک نوکری ملنے کے بعد اسے برقرار رکھنے میں لگ جاتے ہیں ، ملک و قوم کے لیے اگر ہم ٹیکنالوجی درآمد کریں تو یہاں نئی صنعتیں قائم ہوں، با صلاحیت نوجوان کو ا س ٹیکنالوجی سے استفادے کا موقع ملے گا اور وہ اس میں جدت لانے کی کوشش کرے گا۔صورتحال کو یکسر تبدیل کرنے کے لیےپختہ عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین