چین کے شہر ووہان میں کورونا کی بیماری کی دریافت کے صرف چھ ماہ بعدسے ہی اس کی 90ممکنہ ویکسین دریافت کے مختلف مراحل میں ہیں ،جن میں سے چھ اس وقت سے ہی انسانوں کے استعمال کے بعد کی حفاظت کے لیے ٹیسٹ کی جارہی ہیں ۔اسی لیے دریافت اور تجربات کرنے والوں ،فنڈ فراہم کرنے والوں اور دوسرے متعلقہ لوگوں کو اب سب سے بڑے چیلنج کاسامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی ان میں سے کون سی ویکسین درست کام کرے گی ؟کسی بھی ویکسین کی کام یابی کے لیے ہزاروں لوگوں کو اس کا انجکشن لگایا جاتا ہے ،کچھ کو اصلی میں اسی کا انجکشن لگایا جاتا ہے اور کچھ کو نقلی میں ۔اس کے نتائج کے لیے مہینوں بلکہ کبھی تو سالوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے ۔
ان میں سے نوّے سے زاید مختلف مراحل میں ہیں اور چھہ حفاظتی ٹیسٹ سے گزر رہی ہیں
اس عمل کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس بیماری میں کتنے لوگ مبتلا ہوگئے ہیں اور کتنے صحت یاب ہوگئے ہیں ۔ اور کسی فرد پر اس کا اُلٹا اثر تو نہیں ہوا ہے ۔لیکن کووڈ19کی وبا پر قابو پانے کے لیے سائنس دانوں کو اس طر یقے کار کو تیز کرنا پڑے گا ۔کچھ ابتدائی جائزوں میں معلوم ہوا ہے کہ سارس Sars-Cov 2کی بیماری میں بھی چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیماری سے متاثر نہیں ہوتے ہیں اور ان کی قو ت مدافعت کی وجہ بھی سمجھ نہیں آتی ہے۔رواں ماہ سوئٹزر لینڈ میں موجود ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(WHO) نے ایک ایسا ٹرائل وضع کیا ہے ،جس سے متعددویکسین میں سے صرف ایک مطالعے میں ہی کار آمد ویکسین کا پتہ چلا لیا جائے گا ۔
لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ کون سی ویکسین کا ٹیسٹ سب سے پہلے کیا جائے گا ۔اور ان کی اثر انگیزی کا موزانہ کیسے کیا جائے گا ۔مارک فائنبرگ انٹر نیشنل ایڈویکسین انیشی ایٹو کے چیف ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہ اس طریقے کار میں ایسی ہم آہنگی ہوگی جو اس سے قبل دنیا میں کبھی نہیں ہوئی ہے ،جس کے وقت کا دورانیہ اتنا ہوگا ،جس کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا ۔JAVI کے چیف ایگزیکٹو سیٹھ بر کلے کے مطابق ایک ساتھ 200 ویکسین کو اثر انگیزی کی آزمائش میں نہیں لیا جاسکتا ہے ۔یہ ادارہ ان ممالک کو ویکسین کے لیے فنڈ فراہم کرتا ہے ،جن کی آمدنی کم ہے ۔
ڈبلیو ایچ او کا مجوزہ سالیڈیٹی ویکسین ٹرائل ویکسین کے ڈیویلپ کرنے کی رفتار تیز کرتا ہے ،جس کے ڈیزائن کو ضرورت کے مطابق استعمال کیا جاسکتا ہے ،جس میں چلتے ہوئے ٹرائل میںویکسین اور شریک کار مسلسل شامل کیے جاسکتے ہیں ۔اس ٹیسٹنگ کے بعدجو ویکسین کام نہیں کر ے گی وہ رد کردی جائے گی۔اس طریقے میں ڈبلیو ایچ او کو ابھی کچھ چیزوں کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے ۔مثال کے طور پر ویکسین کی اثر انگیزی کی پیمائش کیسے کی جائے گی۔
پیرس میں قائم فرنیچ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ کی ریسرچ ڈائریکٹر میری پال کینی کے خیال میں اس طریقے میں معقولیت پائی جاتی ہے۔’’ اس کا سب سے بڑا چیلنج اس کی ترجیحات ہوں گی۔ یعنی سب سے پہلے کس ویکسین کی آزمائش ہوگی‘‘؟ڈبلیو ایچ او نے ویکسین کی آزمائش کرنے کی ترجیحات طے کرنے کے لیے ایک پینل بنایا ہے۔ لیکن ایسانظر نہیں آ تا کہ صرف یہی ایک ادارہ آزمائش کرے گا۔’’چند دوسرے اداروں سے ہم آہنگی اور رابطے بھی کرنے ہوں گے ورنہ یہ سارامعاملہ بہت گمبھیر ہوجائے گا‘‘ ،کیوں کہ صرف ڈبلیو ایچ او پروگرام کافی نہیں ہوگا۔فائنبرگ کا کہنا ہے۔
امریکا کی میری لینڈ ریاست کی یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے اس ماہ اطلاع دی ہے کہ اس نے ایک در جن سے زیادہ کمپنیوں سے اشتراک کا معاہدہ کیا ہے جو کورونا وائرس کی دوا اور ویکسین کی تیاری میں ہم آہنگی چاہتی ہیں ۔ اس کے علاوہ کوالیشن آف ایپی ڈیمک پریپیرڈنیسCEPI جو ایک عالمی ادارہ ہے اورویکسین کے لیے فنڈ فراہم کرتا ہے، یہ اس وقت 9دوسرے اداروں کو ویکسین بنانے کے لیے فنڈ فراہم کر رہا ہے۔ یہ غیر منافع بخش ادارہ تقریبا2 ارب ڈالرکا فنڈ ویکسین کی اثرانگیزی کی دریافت ،تیاری اور دوسرے اخراجات کے حصول کے لیے پر اُمید ہے ۔
ویکسین کی اثر انگیزی کی ترجیحات کا معیاراس کی تیاری کی گنجائش ،اس کی ابتدائی آزمائش میں جانوروں اور انسانوں میں مدافعت کی پیدا ئش ہوگا۔کینی کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ریگولیٹر کاویکسین کی قسم کا تجربہ بھی ہوگا،کیوں کہ اب جیسے آر این اے ویکسین ہے جوبڑے پیمانہ پر انسانوں پرٹیسٹ ہورہی ہے ،جس کے ٹیسٹ کی ریگولیٹرنے اجازت دیدی ہے۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے جینر انسٹیٹیوٹ میں تیار ہونے والی ایک ویکسین آج کل آزمائش کے ابتدائی مرحلے میں ہے۔
اُمید ہے کہ اگلے دو ماہ میں اس ویکیسن کی اثر انگیزی کی جانچ کریں گے ۔اس بارے میں اینڈریو پولا رڈ نے بتا یا تھا ،یہ آکسفورڈ میں کورونا وائرس کی آزمائش کررہے ہیں ۔ویکسین تیار کرنے والے ادارے ،ویکسین کی آزمائش کیسے کررہے ،اس بارے میں رپ بلوئے نے بتا یا جو JAVIکے پروگرام لیڈر ہیں۔تیسری درجے کی اثر انگیزی کی آزمائش اس وقت تک بے معنی ہے جب تک کسی ریگولیٹر ادارہ سے اس ویکسین لائسنس اور فراہمی کا انتظام نہ کیا گیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے ادارے صرف چند ہی ہوں گے جو اتنے اونچے اسٹینڈرڈتک جاسکتے ہوں گے۔
ایک دوسرا چیلنج یہ طے کرنا ہوگا کہ مقابلتاًایک ویکسین کس طرح دوسری ویکسین سے بہتر ہے ۔ویکسین کی اثر انگیزی جانچنے کی ڈبلیو ایچ او کی تجویز بیک وقت مختلف ویکسین کا باہمی مقابلہ کر سکتی ہے لیکن کینی کے خیال میں کچھ ڈیویلپر اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے کہ اس وجہ سے ان کی ویکسین کے تجارتی مواقع متاثر ہوسکتے ہیں۔JAVI کی وائس پریزیڈینٹ سواتی گپتا جوایمر جنگ انفیکشس ڈیسیزاینڈ سائنٹیفک اسٹریٹجی کی سربراہ بھی ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ویکسین ڈیویلپ کرنے والے اپنی ویکسین کا دوسری ویکسین سے مقابلہ کی حامی بھرنے سے پہلے یہ ضرور سمجھناچاہے گے کہ کلیدی فیصلے کن بنیادوں پر ہوں گے، تاکہ ان کو اس کااطمینان ہوسکے کہ اس مقابلے میں ان کی ویکسین ا نصاف کے مطابق اپنی اثر انگیزی دکھانے کا موقع رکھتی ہے۔
لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ مختلف ویکسین کامقابلہ کرنے کی قابلیت ہو ۔لند ن میں قائم ویلکم ٹرسٹ بایو میڈیکل چیریٹی کی ویکسین کی لیڈر یسرچر چالی ویلر کے مطابق ہم اس وقت جس نوعیت کے ماحول میں گھرے ہوئے ہیں ،اس میں یہ کام کرتا نظر نہیں آتا ہے ۔
دنیا بھر میں کورونا ائرس تیزی سے پھیلانے کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ ادارے تعاون کریں گے ،ہمیں ایک ویکسین سے زیادہ کی ضرورت ہوگی ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ڈیویلپرویکسین کی بڑے پیمانہ پر آزمائش کو ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ یہ متعین ہوسکے کہ وہ اثر انگیز اورمحفوظ ہے ۔ جب کہ کچھ ڈیویلپرز اس کا متبادل سوچ رہے ہیں۔اس کاایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ابتدا ئی آ ٓزمائشوں میں ویکسین سیکڑوںافراد کودی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیاوہ ان میں درست کام کرتی ہے ۔
پھر ریگولیٹر سے بہت زیادہ خطرہ میں رہنے والے گروپ پر ایمرجینسی رول کے تحت اس کے استعمال کی اجازت لی جائے۔جیسے ہیلتھ کیئر کے شعبے میں کام کرنے والے لوگ ہیں ۔جن کو کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہوتاہے۔ان میں ڈاکٹر اور نرسیز وغیرہ شامل ہیں۔امریکا کا فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ایمرجینسی استعمال کی اجازت دیے سکتا ہے ،جس کےبعد لائسنس لینے کے لیے اس کے بعد کے ڈیٹا کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
چین کے تیانجن شہر کی کسینو بایولوجکس جو ویکسین ڈیویلپ کر رہی ہے وہ ’سارس۔کووڈ۔2وائرس کی کیمیائی غیر فعال کی قسم استعمال کرے گی وہ اسی طریقے کے استعمال کاسوچ رہی ہے۔کمپنی کے ترجمان کے مطابق جانسن اینڈ جانسن نے ایک اعلامیہ میں بتایا تھا کہ ان کی ویکسین اگلے سال کی ابتدا میں ایمر جینسی استعمال کے لیے تیار ہوجائے گی۔ڈبلیو ایچ او میںامیو نائیزیشن ویکسین اور بایو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ کیتھرین اوبرائن کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کسی ویکسین کو کبھی بھی ایمرجینسی رول کے تحت استعمال کی اجازت نہیں ملی ہے ۔ ۔اگر کرونا وائرس کے لیے یہ طریقہ استعمال ہوا تو ریگولیٹراس کے لیے مزید یقین دہانی لے گی کہ ان کی ویکسین محفوظ اور بے ضرر ہوگی۔
یہ تحریک زور پکڑ رہی ہے کہ ویکیسن کی فعالیت جانچنے کے لیے معمول سے ہٹ کر چیلنج ٹرائل کا طریقہ اختیار کیا جائے ،جس میں صحت مند ،تندرست اور نوجوان رضا کاروں کو جان کر بیمار کیا جائے ۔وبائی بیماریوں میں اس طرح کے مطالعے اس سے پہلےملیریا اور ڈینگی کی ویکسین ریسرچ میں استعمال کی گئی تھیں ، جس سے کرونا وائرس کی ویکسین کے ڈیویلپمینٹ میں تیزی آسکتی ہیں۔
برکلے کاکہنا ہے کہ چیلنج ٹرائل میں یہ معلوم کیا جائے کہ کونسی ویکسین بڑے پیمانہ پر استعمال ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے خیال میں کسی موثر دواکی غیرموجودگی اور نوجوان کے جینیاتی ٹیسٹ کے بغیر یہ دیکھنا کہ کون اس سے شدید بیمار ہوگا ۔اس کا استعمال خطرناک ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں جب تک اس کا موثر علاج دریافت نہ ہو یہ کام بڑا مشکل ہوگا۔