• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی پی حکومت کے 2010-11کے مالی سال میں پاکستان نے اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ برآمدات کیں۔ ان کا حجم 25.4بلین ڈالر تھا۔ اگلے سال ان میں تھوڑی سی کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ 24.7بلین ڈالر ہو گئیں۔

جب 2013میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا تھا تو برآمدات 24.8 بلین ڈالر تھیں۔ ہم اپنے پہلے سال کے دوران برآمدات25.1 بلین ڈالر تک لے گئے۔ اس کے بعد ہماری برآمدات میں یا تو کمی آئی یا اُسی سطح پر رہیں۔ اس کی وجہ عالمی سطح پر اشیائے ضرورت کی گرتی ہوئی قیمتیں تھیں۔ ہماری حکومت کے آخری برس 24.8بلین کی برآمدات تھیں۔

پانچ برسوں کے دوران پی ٹی آئی کے سیاستدان ہمیں برآمدات نہ بڑھانے پر مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ہمارے جانے کے بعد کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 115سے گرا کر 160کر دی گئی۔ کہا گیا کہ ایسا کرنے سے برآمدات میں فقید المثال تیزی آئے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ گزشتہ برس برآمدات ہمارے دور کی برآمدات سے دو فیصد کم تھیں۔

رواں سال، مارچ تک بھی برآمدات اُسی سطح پر تھیں جو ہم نے دوسال پہلے حاصل کی تھی۔ موجودہ عالمی وبا کی وجہ سے برآمدات کی شرح سر کے بل گر چکی ہے، چنانچہ اب اضافے کا کوئی امکان نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کورونا سے پہلے بھی کرنسی کی چالیس فیصد قدر گرانے کے باوجود برآمدات کی شرح بڑھنے کے بجائے کم کیوں ہوئی؟

اس کی وجہ صرف کرنسی کی قدر کا غیریقینی پن ہی نہیں بلکہ شرح سود اور اشیائے صرف کی قیمت میں کیا جانے والا بہت زیادہ اضافہ تھا۔ حسبِ توقع الزام (ن) لیگ پر لگایا گیا کہ وہ چیزوں کی قیمتیں بڑھانے میں ناکام رہی تھی اس لیے گردشی قرضہ ناقابلِ برداشت سطح تک پہنچ گیا۔

بدقسمتی سے اس وقت توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ تاریخ کی سب سے بلند سطح پر ہے۔ اس میں اضافہ بھی تاریخ کی تیز ترین شرح سے ہوا ہے۔ دونوں سوئی گیس کمپنیوں کے قابلِ وصول بل بلند ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

اشیائے ضروریہ کی قیمت میں اضافہ گردشی قرضے کو محدود کرنے اور آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے تھا لیکن عملی طور پر گردشی قرضے میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور میرا نہیں خیال کہ اس کارکردگی پر آئی ایم ایف بھی خوش ہوگا۔

الزام لگایا جاتا رہا کہ پاکستان مسلم لیگ نون اپنی ’’بدعنوانی اور نااہلی‘‘ کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے میں ناکام رہی۔ حقیقت یہ تھی کہ ہم نے پانچ برسوں کے دوران ٹیکس کے حجم کو دو گنا کیا۔ اسے 1946بلین روپوں سے اٹھا کر 3850بلین روپوں تک لے گئے۔

دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت نے آتے ہی دو سو بلین روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کر دیے لیکن یہ اپنے پہلے سال اتنا ٹیکس اکٹھا نہ کر سکی جتنا ہم نے اپنے پہلے سال کیا تھا۔ رواں سال پی ٹی آئی کا ٹیکس ہدف5500 بلین روپے ہے۔ اس نے سات سو بلین کے اضافی ٹیکسز عائد کیے۔

تاہم کورونا وبا سے پہلے بھی یہ صرف 4200بلین روپے کے محصولات اکٹھے کرتی دکھائی دیتی تھی۔ اب کووڈ 19کے بعد اس کا ہدف 3900بلین روپے ہے۔ یہ وہی ہدف ہے جو ہم نے دو سال پہلے حاصل کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے کچھ حامی غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ محصولات میں کمی کی وجہ درآمدات میں کمی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پی ٹی آئی نے (ن) لیگ پر کم ٹیکس اکٹھا کرنے اور غیرضروری اخراجات کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا نتیجہ بجٹ خسارے کی صورت نکلتا ہے۔ نیز یہ بلند خسارے ہماری بدعنوانی کا ثبوت ہیں۔ اگر ثبوت کی بات ہو تو۔

حقیقت یہ ہے کہ الزامات لگانے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت سے رہنما اور اینکر پرسنز ہمہ وقت اسی کام میں مشغول ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے پانچ برسوں کے دوران خسارے کو جی ڈی پی کے 5فیصد سے کم رکھا تھا۔ صرف ہمارے آخری برس یہ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6فیصد ہو گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے پہلے برس اس کی سادگی، پروٹوکول کی منسوخی، گائے، بھینسیں، گاڑیاں وغیرہ فروخت کرنے کے باوجود خسارہ جی ڈی پی کا 8.9فیصد ہے۔ یہ گزشتہ چالیس سال میں خسارے کی سب سے بلند سطح تھی لیکن یہ ریکارڈ بھی برقرار نہ رہا۔ کورونا وبا سے پہلے بھی زیادہ تر ماہرین معاشیات 9.5فیصد خسارے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اب یہ خسارہ غالباً 10.5فیصد سے بھی تجاوز کر جائے گا۔

ہم پر تنقید کی گئی کہ نون لیگ نے قوم پر ناقابلِ برداشت قرضے کا بوجھ لاد دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دور میں خسارے کی شرح ہماری معاشی شرح نمو سے بمشکل ایک فیصد زیادہ تھی۔ اس طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضے کی شرح میں بہت سست روی سے اضافہ ہوا۔ پانچ برسوں کے دوران جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضے کی شرح 63.8فیصد سے بمشکل72.1 فیصد تک پہنچی۔

گویا صرف 8فیصد اضافہ ہوا۔ آج اگرچہ پاکستان کے بہت بلند قرضے کو ناقابلِ برداشت بوجھ نہیں کہا جا رہا، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ قرضے کی شرح میں پاکستان کی تاریخ کا تیز ترین اضافہ جاری ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے پہلے سال جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضے کی شرح میں12.7 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ مسلم لیگ کے پانچ سالوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ابھی یہ پی ٹی آئی کا صرف دوسرا سال ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کورونا وبا نے ہماری معیشت کو خاصی زک پہنچائی ہے۔ برآمدات اور محصولات کی شرح میں اپریل میں کافی کمی دیکھنے میں آئی لیکن یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اس وبا سے پہلے بھی پی ٹی آئی حکومت معاشی اہداف سے بہت پیچھے تھے۔ پہلے اٹھارہ ماہ کے دوران اس کی کارکردگی نہایت مایوس کن تھی۔

پہلے دو سالوں کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ملک کو اس کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ اور سب سے کم معاشی شرح نمو دی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اپنی آئینی مدت کے باقی برسوں کے دوران اُن کی معاشی ٹیم قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔

تازہ ترین