• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر حملہ آور ہونے والے ٹڈی دل کے حملے کا دائرہ وسیع تر ہوتے ہوئے تشویش میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ وطن عزیز جو پہلے ہی کورونا کی وباء سے نبرد آزما ہے اس پر ٹڈی کی یہ افتاد ’’مرے پہ سو درے‘‘ کے مصداق ہے۔ اس بات کا تذکرہ سپریم کورٹ میں کورونا کی روک تھام کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران بھی ہوا۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم 5رکنی بینچ کو آگاہ کیا کہ ملک ٹڈی دل کے شدید حملوں کا سامنا کرنے والا ہے۔ ایتھوپیا سے ٹڈی کا بڑا جھنڈ پاکستان آنے کو ہے جو فصلوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ملک کو 30سال قبل بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صوبہ سندھ سے شروع ہونے والی یہ آفت نہ صرف بلوچستان کے چند علاقوں بلکہ پنجاب تک پھیل چکی ہے اور کھڑی فصلوں کو چٹ کرنے میں مشغول ہے۔ سپرے کرنے والا جہاز چولستان کے قریب کریش ہو چکا ہے اور بقول چیئرمین این ڈی ایم اے بوئینگ کمپنی کے لئے مکینیکل پرزے بنانے والی کراچی کی کمپنی کے ساتھ 15فضائی سپرے مشینیں بنانے کا معاہدہ کیا گیا ہے جو تسلی بخش ہوئیں تو مزید 200مشینیں حاصل کی جائیں گی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ کلچرل ایگریکلچر آرگنائزیشن نے ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے سنگین تحفظ خوراک کے خطرے سے آگاہ کر رکھا ہے اور ہم ابھی تک سپرے مشینیں بنوا کر چیک کرنے کے عمل میں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا یہی ادارہ باور کرا چکا ہے کہ کورونا کی موجودگی میں یہ صورتحال غذائی قلت، مویشیوں کی ہلاکت اور کمزور طبقات کیلئے کسی قہر سے کم نہ ہوگی۔ عالمی ادارے بھی پاکستان کی مدد پر آمادگی ظاہر کر رہے ہیں تو لمحہ بھر تاخیر کیے بغیر ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے حتیٰ الوسع کوشش کرنا ہوگی ورنہ ہمیں خدانخواستہ خوراک تک کیلئے دوسروں کا محتاج ہونا پڑ سکتا ہے۔

تازہ ترین