• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس پاکستان میں آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے لیکن جہاں تک اس بیماری سے متاثر اور فوت ہونے والے افراد کی تعداد کا تعلق ہے تو وہ امریکا، برطانیہ اور یورپ وغیرہ کے مقابلہ میں کافی کم ہے جس پر ہمیں اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ کا ہم پر یہ کرم اسی طرح برقرار رہے۔ 

لیکن جب ہم اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھتے ہیں تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ کہیں ہم اپنے رب کی ناشکری تو نہیں کر رہے! اپنے اردگرد دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ تو ہم پر اپنا کرم فرما رہا ہے لیکن ہم اپنے بارے میں بے رحم ہو چکے ہیں۔ وگرنہ ایسا کیوں ہے کہ لوگ احتیاط ہی نہیں کرتے۔ 

بازاروں میں جائیں، مارکیٹوں کی حالت دیکھ لیں، کسی فوتیدگی پر چلے جائیں، بڑی تعداد میں لوگ بنا احتیاطی تدابیر کے نظر آئیں گے، بغیر ماسک پہنے لوگ معمول کے مطابق ادھر اُدھر پھر رہے ہیں، بازاروں میں خوب رش لگایا جا رہا ہے اور احتیاطی تدابیر کا کسی کو خیال نہیں، یہاں تک کے بچوں کو بھی بازاروں میں لے جایا جا رہا ہے۔ 

حکومت نے مجبوری کے تحت لاک ڈائون میں نرمی کی جس کا مقصد کاروبارِ زندگی کو ممکنہ حد تک چلانا تھا تاکہ لوگوں کا روزگار، اُن کا کاروبار بحال ہو اور کوئی بھوک سے نہ مرے، بے روزگاری میں کمی آئے اور معیشت کا پہیہ دوبارہ سے رواں ہو لیکن لوگ ہیں کہ احتیاط ہی نہیں کرتے۔

چند دن پہلے مری میں ایک جنازہ میں شرکت کے لیے جانا پڑا تو وہاں موجود بڑی تعداد میں لوگوں کو اس انداز میں دیکھا جیسے کورونا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جو کوئی احتیاط کر رہا تھا اُس سے بھی ہاتھ ملانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

 ایسے میں حکومت کیا کرے! لاک ڈائون کو جاری رکھنا ممکن اس لیے نہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں لیکن لاک ڈائون کھولیں تو لوگ تعاون نہیں کرتے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم احتیاط نہیں کریں گے تو یہ وائرس مزید پھیلے گا جس سے اموات میں بھی اضافہ ہوگا۔ دوبارہ لاک ڈائون کی طرف جانا معاشی طور پر شاید ممکن نہ ہو کیونکہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ گھر بٹھا کر لوگوں کو کھلائے۔ 

دوسری طرف اگر ہم احتیاط نہیں کریں گے تو ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جنہیں اسپتال جانے کی ضرورت ہوگی۔ ابھی تک تو حالات قابو میں ہیں لیکن اگر بیماروں کی تعداد بڑھ گئی، اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی اور وینٹی لیٹرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تو پھر حالات بہت تشویشناک ہو سکتے ہیں۔

 اس لیے کورونا سے بچنے کے لیے حکومت سے زیادہ کردارعام لوگوں کا ہے جو وہ ادا نہیں کر رہے۔ میری عوام سے درخواست ہے کہ اپنے آپ پر رحم کریں اور اللہ کی ناشکری سے بچیں۔ عید کی خریداری میں اتنے پاگل نہ بن جائیں کہ خود کو بھی اور دوسروں میں بھی کورونا وائرس پھیلانے کا سبب بن جائیں اور عید مناتے مناتے خدانخواستہ کہیں اسپتال نہ پہنچ جائیں یا کسی دوسرے کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈال دیں۔

کورونا وائرس سے متعلق ایک اور توجہ طلب معاملہ ہے جس پر حکومت کو سوچ بچار کے بعد ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ معاملہ ہے اُن افراد کا جو کورونا کے مرض کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شکایات مل رہی ہیں کہ کئی افراد کی موت کو کورونا سے جوڑ دیا گیا جبکہ اُن کی موت کی وجہ کوئی اور تھی۔

دوسرا معاملہ کورونا سے مرنے والے کی نمازِ جنازہ اور میت دفنانے سے متعلق ہے۔ ابھی تک جو دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے کیسز میں حکومت چار پانچ افراد کے علاوہ کسی کو نمازِ جنازہ میں شرکت کی اجازت نہیں دیتی جس سے لواحقین، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بہت دکھ پہنچتا ہے۔

 WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا سے مرنے والے کی میت سے وائرس نہیں پھیلتا لیکن پھر بھی احتیاط کی جائے، اُسے بوسہ نہ دیا جائے، اسے چھوا نہ جائے۔ اب احتیاط یہ ہو سکتی ہے کہ کورونا سے مرنے والے کی میت کو احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے غسل دیا جائے، تابوت میں بند کر کے دفنایا جائے۔ 

کورونا سے مرنے والوں کا جنازہ پڑھنے اور میت دفنانے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ WHO کی ہدایات کی روشنی میں SOPs جاری کرے۔ اگر میت تابوت میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ بند کر دی گئی ہے تو پھر لوگوں کو فاصلہ رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنے سے کیوں روکا جاتا ہے۔ 

حکومت اس معاملہ میں تحقیق کر کے جنازہ اور تدفین کے SOPs جاری کرے، عوام میں آگاہی بھی پھیلائے ورنہ یہاں تو ایسے بھی کیس سامنے آ رہے ہیں کہ لوگ عام قبرستانوں میں کورونا کی میت کو دفنانے پر بھی اعتراض کر رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین