• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں پے درپے ہمارے جوانوں کی شہادتیں واضح کرتی ہیں کہ بھارت کی مودی سرکار صرف کشمیر میں دفعہ 370کے خاتمے اور پھر مسلسل ظالمانہ لاک ڈاؤن تک محدود نہیں رہے گی بلکہ افغانستان کے راستے مداخلت اور بلوچستان میں بھی بدامنی کو مسلسل بڑھاوا دینے کی حکمت عملی پر کاربند رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں پاکستان کو بھی بھارت میں موجود مجبور زیر نگیں قوموں کے حق میں آواز بلند نہیں کرنی چاہئے اور کیا وہ اخلاقی حمایت جو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان ان اقوام کو دے سکتا ہے، نہیں دینی چاہئے؟ بلاشبہ جواب ایک ہی ہوگا کہ ضرور آواز بلند کرنی چاہئے، ان اقوام میں جو بھارتی سرحدوں کے اندر سب سے زیادہ پس رہی ہے وہ سکھ قوم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خالصتان کی جدوجہد لاحاصل ہے؟ اس کا جواب آج کی تاریخ میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک ایسی قوم جو برصغیر میں بجا طور پر ایک شاندار سیاسی ماضی بلکہ مطلق العنان حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی، جس کی بہادری ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئی اور جس کے درمیان ہر زمانے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اونچی اڑان بھرنے کی صلاحیت اور اپنی بلند ہمتی کے بل پر قوم کو نئی راہ دکھاتے رہے پھر کیا ہوا کہ 1984کے بعد اب تک وہ سیاسی ساخت کے اعتبار سے انتہائی کمزور ہے اور اس کا قومی بیانیہ بھارت کے سیاسی معبد میں قابلِ لحاظ نہیں۔

گولڈن ٹیمپل یا ہرمندر صاحب کی بنیادیں ایک صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ سے اٹھوائی گئیں، یہ وہی جگہ ہے جو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کی آڑ میں جنرل برار کے ذریعے مٹی کی ڈھیری میں تبدیل کروائی گئی تھی کہ جس میں انسانی خون اور لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ آپریشن بلیواسٹار سے لیکر دلی کے فسادات تک ہزاروں سکھ نوجوان قتل ہوئے اور خواتین کے ساتھ جو ہوا وہ لکھنے کی میرے قلم میں تاب نہیں۔ اور پھر بعد میں آپریشن بلیک تھنڈر تحت جھوٹے اور بےبنیاد پولیس مقابلے، جبری گمشدگیاں اور خواتین سے انسانیت سوز سلوک جس کے امتیازی نشانات تھے۔ بےانت سنگھ جیسے غدار اس بھارتی بالادستی کے نظام میں پنپے۔ غداروں کا حشر اگر ممکن ہو تو سکھ تو ضرور کرتے ہیں لہٰذا بلونت سنگھ رجوانہ سمیت کچھ نوجوانوں نے اس وزیراعلیٰ کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

بلونت سنگھ رجوانہ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی مگر اس کی پھانسی کو روکنے کے لیے سکھوں نے پنجاب میں غیر سرکاری ریفرنڈم کا اعلان کیا، ریفرنڈم ہوا، گلی گلی اور کوچہ کوچہ احتجاج نے اس خالصتانی کو پھندے پر جھولنے سے روکا، احتجاج اور حمایت کی شدت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس دوران دلی کے حکمرانوں کی قلبی ماہیت تو نہیں بدلی مگر خالصتان کی تحریک سے ڈیل کرنے کی پالیسی کے بنیادی نکات ضرور طے کر لیے۔ طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ فرقہ ورانہ عصبیتوں کو ہوا دی گئی۔ اس کے ذریعے سیاسی جنگ کو فرقہ واریت سے تقسیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ کانگریس، اکالی دل جیسی جماعتوں کو ہر طرح کی سیاست کرنے کا پروانہ جاری کیا گیا اور بھارت نے ان کو ہر طرح کی سرکاری مدد اور فنڈز مہیا کیے ان جماعتوں سے وابستہ خود ساختہ سکھ رہنماؤں میں اپنی قوم کے لئے خلوص کا شدید فقدان تھا، پانی کا مسئلہ ہو یا پنجاب کی تقسیم سے لیکر چنڈی گڑھ تک کا معاملہ سب کچھ تباہی کی طرف ہی گیا۔ ان حالات نے کاشتکاروں کو خودکشی یا نشے کی لت میں مبتلا کردیا۔ اس تمام پس منظر کی وجہ سے آج کا مشرقی پنجاب شدید ذہنی الجھاؤ سے دوچار ہے، ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دہلی کا ہاتھ روکنا بہت مشکل ہے کیونکہ دہلی کی قوت ان کی قوت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس لیے انہیں اخلاقی حمایت ضرور ملنی چاہئے۔ اخلاقی حمایت سے میری مراد یہ کہ کم از کم اتنی تو پاکستان میں ان کو سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہئے جتنی بھارت میں نام نہاد بلوچ علیحدگی پسندوں کو دی جارہی ہے کہ وہ اپنے سیمینار کر رہے اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ خاص طور پر ان حالات میں جب ریفرنڈم 2020ء نے پنجاب کے غداروں سے لے کر دہلی کے حیلہ گروں تک کی نیندیں اچاٹ کر رکھی ہیں۔ اب ایک نئی سازش رچی جارہی ہے یعنی چھتیس سنگھ پورہ کی طرز پر بےگناہوں کو قتل کر کے مسلمانوں پر الزام دھرا جائے۔ اس ہلاکت خیز پالیسی کے روحِ رواں گولڈن ٹیمپل کے اندر قتل عام کرانے والے اور آج کل مودی کے مشیر اجیت دوول ہیں۔کابل میں گردوارے کے اندر کھیلے جانے والے خونی کھیل کے ڈانڈے بھی اسی سازش کی طرف جاتے ہیں، بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دشمن اس حد تک گر سکتا ہے کہ اگر بھارت میں رہنے والی اقلیتیں صرف اور صرف غلامی پر آمادہ ہوں، شکاری کتوں کو رکھوالا تسلیم کر لیں تو اپنی زندگی گزار سکتی ہیں ورنہ بی جے پی کی انتہا پسندانہ سوچ ان کو شکار کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار بیٹھی ہے۔ کشمیری، ناگا، سکھ یا آدھی واس سب جلد یا بدیر ان کی ہٹ لسٹ پہ ہیں۔

بدقسمتی سے بھارت کے بہت سے علاقے ساحل کے وہ حصے بن گئے ہیں جو پانی کے اتار چڑھاؤ کے درمیان ہوتے ہیں، حالات کے رحم و کرم پر۔ قبل اس کے کہ وہ سب کو علیحدہ علیحدہ پامال کرنے میں کامیاب ہو جائے بھارت کے پسے ہوئے طبقوں کیلئے دور اندیشی لازم ہے، آپس میں اتحاد و یگانگت کی خاطر آپس میں مکالمے کا آغاز کریں، بلاشبہ دہلی دخل انداز ہوگا، وہ چاہے گا کہ ان کی سیاسی آوازوں کو بم دھماکے دکھائے جائیں اور بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے والی دنیا کو باور کرایا جائے کہ یہ تحریک عوامی خواہشات کے بجائے آتش فشانی مزاج کے حاملین کی مصیبت ہے۔ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان مظلوم قوموں کی درست آواز اقوامِ عالم تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں اور کم از کم ان کو وطن عزیز میں بیٹھ کر اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کریں۔

تازہ ترین