• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاک ڈاؤن سے ٹیکسی ڈرائیونگ کا شعبہ انتہائی متاثر، ڈرائیورز، کمپنی مالکان دباؤ کا شکار

اولڈہم( تنویر کھٹانہ) برطانیہ کی ٹیکسی فورس کا تقریباً پچاس فیصد ایشیائی ڈرائیورز پر مشتمل ہیں جن میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور بھارتی شامل ہیں۔ مارچ کے مہینے میں حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعدٹیکسی ڈرائیونگ کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سیکورٹی انڈسٹری کےبعد سب سے زیادہ اموات ٹیکسی انڈسٹری میں ہوئی ہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران بھی ٹیکسی ڈرائیورز کو ضروری ورکرزکی فہرست میں شامل نہیں کیا تھا تاہم کچھ کمپنیوں اور ڈرائیورز نے کام جاری رکھا اور کئی جوان اموات بھی ہوئیں۔ تاہم ٹیکسی ڈرائیورز کی اکثریت نے لاک ڈاؤن کے دوران گھروں پر رہنے کو ہی ترجیح دی لیکن تین ماہ گذرنے کے باوجود غیر یقینی صورتحال کے سبب اب اس انڈسٹری سے منسلک لوگ شدید ذہنی کوفت اور دباؤ کا شکار ہے۔ روزنامہ جنگ نے اس حوالے سے خصوصی سروے کیا جس میں ٹیکسی ڈرائیورز نے اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت سے اس انڈسٹری کو بچانے کے حوالے سے مزیداقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ مانچسٹر سٹی کونسل کے پرائیوٹ ہائر ڈرائیور نوید احمد کا کہنا تھا کہ فرلاف کی رقم ملی ہے لیکن یہ رقم ناکافی ہے۔ کام پر واپس جانا چاہتا ہوں لیکن حکومت کی جانب سے واضح اور موثر حکمت عملی نہ ہونے کے سبب غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس انڈسٹری کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اولڈہم کونسل کے پرائیوٹ ہائرڈرائیور راشد علی کا کہنا تھا کہ ہماری ملازمت پبلک ریلیشن کی ہے جس میں مختلف لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔ ایسے میں ملازمت پرجانا خطرناک ہو سکتا ہے لیکن گھر بیٹھ کر بھی خرچے پورے نہیں ہو رہے۔ یہ ساری صورتحال بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا باعث بن رہی ہے۔ مانچسٹر کونسل کے پرائیوٹ ہائر ڈرائیور شمریز کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ گھروں پر رہیں اور دوسری جانب کام پر جانے کا بھی کہہ رہی ہے۔ ہماری جاب میں دو میٹر کا فاصلہ رکھنا ممکن نہیں۔ کام پر نہ جانے کے سبب کافی نقصان ہو چکا ہے۔ میں نے ابھی ٹیکسی شروع کی ہے اور اس سبب فرلاف بھی نہیں ملا نوبت فاقوں تک آ پہنچی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے واضح حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ اولڈہم کونسل کے پرائیوٹ ہائر ڈرائیور ثاقب کا کہنا تھا کہ میں دوبارہ کام پر واپس آیاہوں ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال کر رہا ہوں لیکن کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخراجات میں کمی نہیں ہوئی لیکن کام پر ڈرائیورزکم ہونے کے باوجود کام کے حالات بہت برے ہیں۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس انڈسٹری کو بچانے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی لائیں۔ اس انڈسٹری کے تباہ ہونے کی صورت میں ایشیائی ڈرائیورز کی بڑی تعداد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ لاک ڈاؤن سے حالات کی مکمل واپسی تک اس شعبے سے وابستہ افراد شدید تحفظات کا شکار رہیں گے۔

تازہ ترین