محمد فاروق دانش
اگرہم ایک قوم کی حیثیت سے اپنے روز و شب کے معمولات کا جائزہ لیں، تو دیکھیں گے کہ اکثر معاملات میںہماری زندگی غیر حقیقی اور نا قابل عمل خوابوں کے سراب کے گرد گھومتی ہے ، جس کے سبب قوموں کی برادری میںہم اپنے کئی اہداف کے حصول کی تکمیل میں ناکام اور ایک مایوس قوم کی حیثیت سے نمایاںہوتے ہیں ۔ اپنی تمام ترخرابیوں اور کوتاہیوں کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال دینے کے ساتھ ہم لوگ اس حوالے سے درپیش خرابیوں اور تمام تر صورت حال کا سبب زندگی کے مختلف عوامل کو قرار دے دیتے ہیں ۔ قومی اُمنگوں کی تشکیل میں حائل مشکلات کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت کئی دوستوں ،اہل عمل و دوانش کی آراء سامنے آئیں،جن میں واضع تضادات موجود تھے ۔ تاہم ایک بات پر سب کا اتفاق اور اتحاد دکھائی دیا ،وہ معاملہ تھا تعلیم کا ۔جس میں بہتری لانے اور پڑھے لکھے معاشرے کا قیام یقینی بنانے کی اُمید موجود تھی لیکن تعلیمی میدان میں موجود اصل نقائص اور مفید مقاصد کے حصول میں درپیش مشکلات کے ازالے کے امور کا جائزہ درست انداز میں نہیں لیا جاتاجس سے یک مکمل منزل کے حصول کے لیے قابل عمل اور پائے دار سفر کا آغاز کیا جاتا جیسے انگریزوں نے کیا ۔جب شاہجہاں ،آگرہ میں اپنے خوابوں کا محل تعمیر کر رہا تھا ، آکسفورڈ میں انگریزوں نے ایک قابل رشک درس گاہ کی بنیاد رکھ دی ،یورپ کی علم دوستی نے دو سو سال تک ایک آزادی پسند قوم کو غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ۔غرض کہ تعلیم کا تسلط اور حکمرانی ہی قوموں کے وقار اور معاشرتی استحکا م میں اضافے کا سبب بنا۔
ہو سکتا ہے بعض لوگ ان خیالات سے اتفاق نہ کریں ۔بعض ناقدین کی رائے میں تو ہمارے ہاں رائج ماحول علم و تکلم کے بنیادی اسباب کے منافی اور یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے جس کے سبب تعلیم کے پھیلائو اور معاشرے میں اس کے اصل رواج کے بنیادی مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہورہا اور ہماری معاشرتی اقدار میں میرٹ کے قتل کا ایک سبب بھی ایسے ہی عوامل کو قرار دیا جارہا ہے کیوںکہ تعلیم ہی اصل صلاحیت ہے جو انسانی معاشرے کو تخریب کے بجائے تعمیر کی جانب لے جاتی ہے ۔ تعلیمی ماحول کی خرابی اور تعلیمی مقاصد کے حصول میں پیش آنے والی ناکامیوں کے اصل اسباب کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے سے اجتناب ہی کیا جاتا رہا ہے جس کے سبب تعلیمی ماحول پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور نقل کے رجحان میں بھی اضافہ ہو ا ہے جو اب معاشرے میں ایک جدید مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔
علم قوم کی ترقی کی اصل سیڑھی ہے۔ تعلیم کے میدان کو سر کرنے والی قومیں آج دنیا میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں اور علم ہی کے میدان میں اپنے کارہائے نمایاں انجام دینے کے سبب ان میں ایک دوسرے کا کوئی ثانی بھی نہیں لیکن ہمارا معاشرہ تمام تر کوششوں کے باوجود تعلیمی میدان میں قابل ذکر مقام کا حامل نہیں ہوسکا۔ جب ہم پڑھے لکھے معاشرے کے قیام کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے طریقہ تعلیم اور علمی خرابیوں کا جائزہ لینا چاہیے کیوںکہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں ہمارے ہاں رائج طریقہ تعلیم ہمیشہ منفرد اور الگ نوعیت کا رہا ہے ہمارے ماہرین تعلیم نے یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین سے بنیادی نوعیت کی مدد نہیں لی ،جو تعلیمی اقدار کو مفید بنانے اور ان کی علمی کامیابیوں کے اسباب میں اضافے کا سبب بنتیں ۔ تعلیمی میدان میں نقل کے رجحان میں اضافے اور علمی صلاحیتوں کے حصول کی کوششوں کے فقدان کا سبب بھی تعلیمی اداروں میںفائز با اختیار حلقے ہی قرار دیئے جاتے ہیں ،جو ہماری قومی تعلیم کے امور کی نگرانی اور تعلیمی ماحول میں موجود سقم کو دور کرنے کی کا وشیں انجام نہیں دے رہے جس کے سبب نقل کے رجحانات بھی زمانے کی جدت کے ساتھ جدید ہوتے جارہے ہیں،اور نقل کرنے والے اسے اپنا حق تصور کرنے لگے ہیں ۔ با آسانی کی جانے والی نقل نے ہمارے تعلیمی ڈھانچے میں ایک کینسر کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ کینسر روز بہ روز وبائی صورت اختیار کرتا جارہا ہے ،جس کے ذمہ دار ایک جانب اپنی مخفی صلاحیتوں کے اجاگر ہونے کے خوف میں مبتلا اور پڑھنے لکھنے کے شوق سے عاری طلباء و طالبات خود ہیں تو دوسری جانب اساتذہ اور والدین بھی نقل کے معاملے کو معمولی نوعیت کا غیر اہم موضوع قرار دیتے ہیں۔
اگر ہم حقائق کو پیش نظر رکھیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے ملک میں صد فیصد ڈگریاں رکھنے والے نوجوانوں میں پڑھے لکھے افراد کا تناسب دس فیصد سے زاید نہیں ہے ،جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ دوران امتحان انہیں نقل کرنے کی مکمل اور آزادانہ اجازت دی جاتی ہے ۔ علم سے دلی لگائو رکھنے اور پڑھ کر محنت سے امتحان پاس کرنے والوں کی حق تلفی کے واقعات عام ہوچکے ہیں ،پہلے نقل کے ذرائع اور وسائل بے حد کم تھے اور صرف بوٹی مافیا تھی ،لیکن اب دوران امتحانات نقل کرنے کی تمام تر جدید سہولیات دستیاب ہوجاتی ہیں،موبائل فون کے ذریعے انٹر نیٹ سے تمام تر معلومات تک رسائی طالب علم کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکی ہے اور طلباء امتحان کی تیاری کے لیے کتابوں میں سر کھپانے اور زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کی بجائے نقل کرنے کے جدید طریقوں کو اختیار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اورجان بوجھ کر تعلیم کے فروغ کی تمام تر کوششوں کو شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے ،طلباء کا پڑھنے اور لکھنے کے شوق سے فرار نے صورتحال کو زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے۔
مصروفیات کے لیےاب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان گھر میں رہیں تو کیا کریں۔ یہ بہت اچھا موقع ہے کہ آپ کچھ اچھی کتابیں پڑھیں ، وہ جو آپ نے کبھی خریدی ہوں مگر پڑھ نہ پائے ہوں ۔ ان کو نکالیں اور پڑھ ڈالیں۔ اگر بدقسمتی سے آپ کے پاس کتابیں نہیںہیں تو آج کل نیٹ پر پڑھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ ایسی چیزیں پڑھیں، جن سے آپ کی سوجھ بوجھ میں اضافہ ہو اور ایسے بے شمار اردو کی کتابیں بھی نیٹ پر مفت میں موجود ہیں۔ مثلاً آپ ریختہ کی ویب سائٹ پر چلے جائیں تو اردو کا اعلیٰ ادب موجود ہے، مزاح بھی، شاعری بھی، اس کا مطالعہ کریں۔ اس کے علاوہ آپ زیادہ دیر فیس بک پر وقت گزارنے کے بجائے اردو اور انگریزی کے اخبارات کا بغور مطالعہ بھی کرسکتے ہیں۔
پڑھائی کرنے کے لئے لائحہ عمل اور حکمت عملی کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے آپ کے پڑھنے اور اسےمکمل کرنے پر لگنے والے وقت میں نمایاں کمی ہوتی ہے اور آپ کو دوسرے طالب علموں پر سبقت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ کسی پلانر یا گوگل کیلنڈر کا استعمال کرکے آغاز کریں اور اپنی ان تمام ذمےداریوں اور کاموں کو لکھیں جنہیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اپنے ہفتہ وار نظام الاوقات اور روزمرہ کاموں پر بھی توجہ دیں۔ اسائنمنٹس کو حصوں میں بانٹ دیں، ایک نشست میں ایک حصہ مکمل کرکے اٹھیںاور کسی بھی وجہ سے اس حصے کو ادھورا نہ چھوڑیں جیسا کہ آپ کے دوست نے فون کیا تھا اور آپ نے اس سے ایک گھنٹے بات چیت کی تھی۔ اگر ایسا کریں گے تو ہفتے کے آخر میں آپ پردباؤ بڑھ جائے گا ا ور ہدف پورا نہ کرنے پر مایوسی بھی ہوگی۔پھر اوپن اسٹڈی کے ذریعے بھی آپ کو مطالعہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ ایک پلیٹ فارم ہے، جہاں آپ دوسرے طلبہ کے ساتھ پرانے لیکچرز کے تبادلے کے ساتھ ساتھ مختلف ٹیسٹ اور امتحانات کی تیاری کرسکتے ہیں یا ان سےمشورے لے سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت صرف نہ کریں۔ اور اگر نیٹ کا استعمال کر ہی رہے ہیں تو اسے تعلیم کے حصول کے لیے وقف کریں کہ یہ آپ کے فارغ وقت کو بے حد کارآمد بنائے گا۔ فرصت کے اس قدر لمحات آسانی سے میسر نہیں ہوتے۔ جب تعلیمی کارکردگی بہتر کرنے کا سوال ہو تو ہر منٹ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔