• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر رشید جالندھری مرحوم سے قرآن، حدیث، فقہ، اسلامی تاریخ، جدید و قدیم مسلم افکار اور عصری تقاضوں کے حوالوں سے درویش کی حیران کن حد تک ہم آہنگی تھی سوائے اس کے کہ مسلمانانِ جنوبی ایشیا کی قیادت میں ان کی پسند مولانا ابوالکلام آزاد تھے تو خاکسار کے مرشد سر سید وہ اپنی گفتگو میں اکثر مولانا آزاد کے حوالے دیتے اور کہتے کہ ہندوستان کو ابوالکلام ملے اور ہمارے حصے میں ابوالاعلیٰ آئے۔ دونوں ہستیوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے افکار و خیالات دہرانے کی میں خود میں اس لیے ہمت و جسارت نہیں پاتا کہ میں خود ان سے بعض معاملات میں برملا اختلاف رکھتا تھا۔۔۔ البتہ مصر کے بلند پایہ اسکالر ڈاکٹر طحٰہ حسین کی فکری عظمت پر دونوں کا کامل ایکا تھا۔ 2005کی بات ہے کسی بک فیئر میں جانے کا اتفاق ہوا تو کمال سخاوت سے بولے اپنی پسند بتائو؟ عرض کی ڈاکٹر طحٰہ حسین کی ’’اللیام‘‘تو انہوں نے کچھ مزید بھی تحفتاً عنایت فرما دیں۔

ڈاکٹر طحٰہ حسین کی ویسے تو 70کے قریب کتب ہیں جن میں پیغمبر اسلامﷺ، سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ اورسیدنا علیؓ کی سیرت پر بھی اُن کی کتب موجود ہیں۔ سیدنا عمرؓ تو ڈاکٹر صاحب کے لئے ایک آئیڈیل شخصیت تھے لیکن جو کتاب انہوں نے سیدنا عثمانؓ کی شہادت اور ما بعد اٹھنے والے فتنوں پر پیش فرمائی ہے ’’الفتنۃ الکبریٰ‘‘ وہ اپنی مثال آپ ہے، جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی اس نے اس موضوع پر کچھ نہیں پڑھا۔ اس سے بھی پہلے 1926میں ان کی تہلکہ آمیز کتاب آئی تھی ’’فی الشعر الجاہلی‘‘ جس میں انہوں نے قرآن سے قبل کے عرب شعراء کے کلام پر تحقیقی کام کیا تھا جس پر ان کے خلاف ایک فتنہ کھڑا ہو گیا حالانکہ انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی کی ہدایات کے مطابق چار بڑے متنازع ایشوز کو کتاب سے خارج کر دیا تھا پھر بھی انہیں نہ صرف یہ کہ یونیورسٹی سے نکلنا پڑا بلکہ ان کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی،کئی لوگوں نے تو ان کے سر کا مطالبہ بھی کیا۔

درویش مصر میں ڈاکٹر طحٰہ حسین کی شخصیت، افکار اور جدوجہد کو جنوبی ایشیا میں سرسید کی شخصیت افکار اور جدوجہد کی طرح دیکھتا ہے بلکہ پوری سچائی یہ ہے کہ وہ سرسید سے بھی چار ہاتھ آگے تھے۔ اتنی بڑی اور ہمہ گیر شخصیت عقل محو حیرت ہے کہ ایک محدود زندگی میں انہوں نے اتنے بڑے بڑے کارہائے نمایاں کیسے سرانجام دیے۔ بے سروسامانی میں اتنی لگن اور اتنی بلندی۔ مصری مائیں واقعی اپنے نونہالوں کو عزم و ہمت کی یہ داستان سنانے میں حق بجانب ہیں۔ ڈاکٹر طحٰہ حسین تین برس کی عمر میں چیچک کے باعث نابینا ہو گئے تھے جس کے باعث انہیں مقامی دینی مدرسے میں حفظ قرآن کے لئے ڈال دیا گیا مگر حافظ بننے کے بعد انہوں نے جامعۃ الازہر کی راہ لی۔ ڈاکٹر رشید جالندھری کی زبانی ملاحظہ ہو’’جن لوگوں نے جدید مصر کی ادبی، ثقافتی اور اجتماعی زندگی کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر طحٰہ حسین کی عظیم شخصیت نے جدید مصر کی تعمیر و تشکیل میں ایک زبردست کردار ادا کیا ہے۔ آپ مسلم تاریخ کی ان چند ممتاز شخصیتوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے تلاش حق کی راہ میں اپنی بے سروسامانی اور بے چارگی کو حائل نہیں ہونے دیا۔ ذرا ہوش سنبھالا تو والدین نے مذہبی تعلیم کے لئے قاہرہ کی ہزار سالہ پرانی درس گاہ الازہر میں بھجوا دیا جہاں پر قرآن، حدیث، ادب اور منطق کی تعلیم کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کے قیام اور خورونوش کا انتظام بھی کیا جاتا تھا۔ آپ الازہر میں قریباً 6سال رہے اس زمانے میں مصر کی نئی قاہرہ یونیورسٹی میں جانا شروع کر دیا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ الازہر کی تعلیم اور اس کا ماحول تلاش حق کی راہ میں آپ کی فطری جستجو کا جواب نہ دے سکا۔ اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ بعض تنگ نظر اساتذہ نے آپ کو ایک نابینا، دیہاتی اور غریب و ناتواں طالبعلم جانا اور وہ سلوک کیا جو اخلاق فاضلہ سے عاری آدمیوں کا شعار ہوا کرتا ہے۔ اس بھیانک سلوک کی درد ناک داستان آپ کی کتاب ’’الایام‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے‘‘۔

’’خاکسار نے زندگی میں جو چند اچھی تقاریر سنی ہیں ان میں سے ایک ڈاکٹر طحٰہ حسین کی ہے۔ وہ حضرت عمر فاروقؓ کی حیات کا خصوصی مطالعہ رکھتے تھے، جب وہ تقریر کرتے تو قاہرہ کی سڑکیں بند ہو جاتیں۔ ڈاکٹر احمد امین نے لکھا ہے کہ جب ڈاکٹر طحٰہ حسین تقریر کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ان کے سامنے ایک آسمانی کتاب دھری ہے اور فرشتوں کی انگلیاں اس کے اوراق الٹ رہی ہیں۔ وہ نابینا تھے لیکن ترقی کی منزلیں طے کرتے بہت آگے نکل گئے، ان کی آواز میں ایک وقار تھا اور تمکنت۔ جمال عبدالناصر پر کوئی تنقید نہیں کر سکتا تھا سوائے ڈاکٹر طحٰہ حسین کے۔ ناصر کہتا تھا یہ ہمارا قومی ہیرو ہے جو جی چاہے کہے۔ ڈاکٹر طحٰہ حسین کو دورِ طالبعلمی میں علمائے الازہر نے جامعہ سے نکال باہر کیا تھا لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب وہ ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے روم گئے تو انہوں نے دوران تقریر وہاں چند احادیث کا ترجمہ اطالوی زبان میں پڑھا تو کچھ مسیحی راہبات نے ان سے اجازت چاہی کہ ہم اپنی دعائوں میں یہ پڑھیں اس پر علمائے الازہر نے انہیں مبارکباد کا خط لکھتے ہوئے کہا کہ آپ نے عجیب و غریب کام کر دکھایا ہے۔ ڈاکٹر طحٰہ حسین کی مخالفت میں قاہرہ سے ایک مشہور کتاب چھپی تھی ’’تحت ریتہ القرآن‘‘ جو ڈاکٹر صاحب کے حریف مصطفیٰ الرافعی نے لکھی، 1929میں مصر کی اسمبلی میں بحث ہوئی تھی کہ طحٰہ حسین ملحد ہے اسے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے لیکن پھر وہ بھی وقت آیا جب ڈاکٹر طحٰہ حسین مصر کے وزیر تعلیم بن گئے۔ ایک بار قاہرہ یونیورسٹی کے کچھ طالبعلموں نے نعرے لگائے ’’اندھے واپس جائو، اندھا وزیر مردہ باد‘‘ تو ڈاکٹر طحٰہ حسین نے کہا بلاشبہ میری ظاہری آنکھیں نہیں ہیں مگر میں دل و دماغ کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں، صد شکر کہ تم لوگوں کو نہیں دیکھ پا رہا۔

جب وہ یونیورسٹی میں استاد تھے تو ان کےمخالف مصطفیٰ الرافعی کی بیٹی نے وہاں داخلہ لیا اسے تشویش تھی کہ نا معلوم کیا سلوک ہو۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا تو وہ بولے آپ میری بھی بیٹی ہیں آپ کو معاشی مدد کی ضرورت ہو تو میں تمہارا وظیفہ بھی لگوا دوں گا میرا تم سے نہیں مصطفیٰ سے اختلاف تھا۔ اتنے بلند نظر انسان تھے ڈاکٹر طحٰہ حسین‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین