• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض صاحب نے1952ء میں جیل سے ایلس کو خط میں لکھا تھا کہ ”ہمیں نوجوان لکھنے والوں کی کتابیں موصول ہو رہی ہیں۔ پتہ نہیں چلتا کہ یہ لوگ نوجوانی میں یہ اداسی، مایوسی اور الجھنوں کا شکار کیوں ہیں۔ یہ عمر تو تمناؤں، خوابوں، عشق اور مسکراہٹوں کی ہوتی ہے“۔ فیض صاحب نے ناصر کاظمی کی غزل
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سورہی ہے
پڑھی ہوگی تو یوں سوچا ہوگا۔ وہ تو جیل میں تھے اور ان کو خبر نہ تھی کہ لاہور میں احمدیوں کے مسئلے پر پہلا مارشل لا،لاہور میں لگا تھا۔ بعدازاں ان کے خلاف تشہیری مہم شروع کی گئی مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے تو ہم سارے بچے بغیر جانے کہ کون شیعہ ہے کون سنی ہم لوگ محرم کا دھنیہ بناتے اور کھاتے تھے۔ ہماری مائیں نویں دسویں محرم کا روزہ رکھا کرتی تھیں۔ ان دو دنوں میں ریڈیو لگانے اور گانے سننے کی بھی ممانعت ہوتی تھی پھر جوان ہوئے تو فیض صاحب اور شاکر علی کے ساتھ تو شب عاشور کی مجلس سننے حویلی قزلباش موچی دروازے ہی جایا کرتے تھے۔ زندگی نے اور سفر طے کیا تو ٹیلی ویژن پر مجلس شام غریباں خاص کر ترابی صاحب کی مجلس میں پوشیدہ اشارے اور سیاسی نکتے غور سے سنتے اور اگلے دن ٹی ہاؤس میں ان پر بحث ہوتی۔ وہ چونکہ ایوب خاں کے مارشل لا کا زمانہ تھا۔ فاطمہ جناح کو زور زبردستی سے شکست دی گئی تھی۔ ہم سب کو اس بات پر غصہ تھا اور ہماری ترجمانی مجلس شام غریباں میں ہوجایا کرتی تھی۔
فیض صاحب نے اپنے خطبوں میں وہ زبان استعمال کی ہے جو ہمارے گھروں میں بولی جاتی تھی مثلاً ”کواڑ“ کا لفظ، اب اگر کوئی کہے تو لوگ پوچھتے ہیں یہ کیا ہوتا ہے۔ اس لئے شاید مدیحہ گوہر اور نعیم طاہر کو بھی معلوم نہ تھا اور جب نعیم نے فیض صاحب کے خطوط پڑھتے ہوئے ”کَواڑ“ کہا تو فوراً میں اور آغا ناصر بھڑک اٹھے۔ ارے ہم سے پوچھ لینا تھا کہ یہ لفظ ”کِواڑ“ ہوتا ہے۔ زیر کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ اب ایسے الفاظ ، انتظار حسین بھی استعمال نہیں کرتے۔ اس لئے تلفظ کا معاملہ بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ ٹیلی ویژن تو الفاظ کا بھرتہ بہت بناتا ہے مگر جب منٹو کی تحریریں پڑھی جائیں یا فیض کی۔ بالخصوص تلفظ صحیح رکھنا لازم ہوجاتا ہے۔تحریر پڑھنے کی بات تو ایک طرف رہی۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو ہماری ساری قومی زبانوں کے الفاظ ، اردو میں شامل ہوتے جا رہے ہیں اور بھلے لگ رہیں مگر کہیں کہیں یہ بے ساختہ نہیں لگتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ جب بہاؤ اور راکھ ، مستنصر کے ناول آئے تو انڈیا میں ادیبوں نے کہا کہ ہمیں بہت سے پنجابی لفظوں کا مطلب نہیں آتا ہے۔ یہی منظر نامہ ان کے ناول خس و خاشاک زمانے اور اے غزال شب میں محسوس ہوا۔ معلوم ہے کہ یہ الفاظ زبردستی گھسائے نہیں گئے ہیں مگر اردو کے روزمرہ میں شامل ابھی تک نہیں ہیں۔ فرخندہ لودھی کی تحریروں میں بھی اکثر پنجابی الفاظ ملتے تھے جو سہانے لگتے تھے۔ ابھی میرے سامنے محمود قاضی کی کتاب ”ٹلّہ جوگیاں“ پڑی ہے۔ قاضی کا کہانی کا بیانیہ بہت خوبصورت ہے مگر پنجابی الفاظ کی بہتات مجھ تک کو جو پنجابن ہے، اس کو جگہ بجگہ گراں گزرتی ہے۔ بہت دلچسپ تجربات ہیں، کئی جگہ تو مستنصر کے خس و خاشاک زمانے کے ان خانہ بدوشوں سے مماثل ہیں جو ہر طرح کے حرام جانور کھاتے ہیں مگر مختلف اس طرح ہیں کہ لاہور کے موچی دروازے کا باغ یاد آجاتا ہے ، جب وہ ہیر سنتے ہیں اور سب سے اچھی پڑھنے والے کو انعام واکرام ملتا ہے۔ محمود احمد قاضی نے لیل پور جس طرح لکھا ہے وہ ہم سب کا شناسا لفظ معلوم دیتا ہے کہ سارے بسوں کے اسٹینڈ پر لوگ آج بھی فیصل آباد کی جگہ لیل پور کہنا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح طوطیا من موتیا جیسے بچپن کے سنے ہوئے مصرعے، خود بھی واپس بچپن کی طرف لے جاتے ہیں۔ ساری کہانیاں اور ناولٹ اپنی دھرتی کی بوباس میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ مطلب بھی نکل سکتا ہے کہ پنجابی کے جو لفظ مجھے مانوس لگ رہے ہیں وہ درست اور جو نامانوس وہ غلط۔ یہ تو مزا نہ آیا۔ علاقے کے حوالے سے قاضی نے اپنے کرداروں کو زبان دی ہے۔ اب ان سے اردوئے معلّیٰ کی زبان تو نہیں بلوا سکتا تھا۔
یہیں پہ مجھے خالد احمد کی لفظوں کی بنت بھی یاد آگئی۔ کیا اچھا شاعر تھا۔ ہم سے اتنی جلدی روٹھ گیا۔ اب سوچتی ہوں اس کی کتابیں سامنے رکھ کر کہ ایک زمانہ اس پر گزرا، مسلسل غزل کہنے کا۔ ظفر اقبال کی طرح تیس چالیس شعروں کی غزلیں لکھ ڈالیں پھر نظم اور غزل میں پنجابی کے لفظوں کا استعمال ایسے شروع کیا کہ کہیں کہیں تو بہت کھٹکا۔ بالکل اس طرح کے اس کا موڈ آیا اور مفرّس غزلیں اور نظمیں لکھنی شروع کیں۔ کہیں بھی یہ نہیں لگا کہ لہجہ نامانوس نہیں ہے۔خاص طور پر تو نعتوں میں اس کا لہجہ بہت ہی صوفیانہ تھا۔ گویا اردو نے پیرہن بدلتے ہوئے کہیں پنجابی بولی کو اپنے اندر سمویا تو کہیں فارسی کو، مگر فارسی نے ہی تو جنم دیا تھا اردو کو اور پھر پلی بڑھی پنجاب کے آنگنوں میں بلکہ محمود قاضی کے بقول کٹٹرا موراں جیسے علاقوں میں جو کچھ مائی جنداں بولتی ہے۔ وہ بولی نہ ڈیرہ غازی خاں میں بولی جاتی ہے اور نہ انڈیا کے غازی آباد ہیں۔ چونکہ پنجابی میں لکھی ہوئی کتابیں بہت فروخت نہیں ہوتی ہیں اس لئے پنجابی ماحول کو واضح کرنے کیلئے اس کا لب و لہجہ اختیار کرنا، بھلا لگتا ہے۔ کہانی لکھنی ہو خانہ بدوشوں، ساربانوں ، مچھیروں اور ملاحوں کے بارے میں، وہ زبان ، کالج میں پڑھتی لڑکی کی زبان یا سروتے سے چھالیہ کترتی، غرارہ پہنے خاتون سے مختلف ہوتا ہے۔ بس آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اشرف صبوحی کی تحریر اور گفتگو جس کسی نے سنی ہو وہ اس شیرینی گفتار کی نقل بھی نہیں اتار سکتا ہے بالکل ایسے جیسے امرسندھو نے لکھا ہے خیرالنساء جعفری کے انداز میں سندھی زبان، امرجلیل جیسے جید لکھنے والے بھی نہیں لکھ سکتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اپنے اپنے زمانے کا لہجہ، اس زمانے کے مصنفین کی تحریروں میں جھلکتا نظر آتا ہے۔ یہی حال بلوچی اور پشتو کے مصنفین کا ہے۔ مجھے حسینہ گل کی نظمیں جو وہ پشتو میں لکھتی ہے اور مجھے اس کا اردو ترجمہ سناتی ہے، بہت لطف آتا ہے۔ حکیم بلوچ اور طاہر محمد خان کی بلوچی کہانیاں بھی اپنے علاقے کا منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔
تازہ ترین