• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ ہم اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ہونہار طلبہ میں سے تھے اور اس سے بڑا سچ کوئی نہیں کہ ملک میں رائج ناقص نظام تعلیم کی بدولت ہم نے ایم اے اور قانون کے امتحانات بھی پاس کر لئے ۔ ثبوت زیر نظر ہے کہ اگر طالب علم برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں ”ہاؤس آف کامنز“ کا اردو ترجمہ دارالعوام کی بجائے متعدد پرچوں میں ”دارالعلوم“ لکھ کر بھی ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کرلے تو پھر امیدوار کا کوئی قصور نہیں کہ وہ ممتحن کو اس سے زیادہ فیل کرنے کا چانس دے ہی نہیں سکتاتھا۔ اس کی مثال آمدہ عام انتخابات کے ان امیدواران جیسی ہے جنھوں نے جعلی ڈگریوں پر سابقہ الیکشن لڑا، جی بھر کے ٹیکس چوری و خزانہ خوری کی ،عوام کے لئے ٹکے کا کام نہ کیا مگر لوگ پھر بھی انہیں ہی منتخب کریں گے ۔ اس میں بھی امیدواران مذکور کا کوئی دوش نہیں ہوگا کہ وہ ووٹروں کو اپنے مسترد کرنے کا اس سے زیادہ موقع فراہم کر ہی نہیں سکتے تھے ۔ اس تمہید دلپذیر کا مقصد یہ ہے کہ ایسے عوامی نمائندوں کا جمہوریت سے اتنا ہی واسطہ ہے ،جتنا ہماری بدونِ خط لفافہ برانڈ ڈگریوں کا علم سے ۔ ہمارے لئے باعث فخرو مباہات کچھ اور ہے کہ ہمارا تعلق ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان کی نگری سے ہے ۔
موٹروے کے بلکسر انٹر چینج سے باہر نکلیں تو میانوالی روڈ کے بائیں جانب کرنل صاحب مرحوم کا قصبہ بلکسر اور دائیں جانب ہمارا گاؤں بکھاری کلاں واقع ہے ۔ چونکہ ہمارے گاؤں میں آج تک کوئی نامور شخصیت پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی پیدا ہونے کا امکان ہے ، سو جب کوئی ہمارا کالم پڑھ کر ہم سے اپنے علاقے کے بارے میں استفسار کرتا ہے تو ہم ہر دو دیہات کے جڑواں ہونے کی آڑ میں دیدہ دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا تعلق کرنل محمد خان کے گاؤں سے ہے ۔ اس سے جہاں اگلے پر رعب پڑتا ہے وہاں ہماری تحریر کی لا تعداد خامیاں بھی اس رعب تلے چھپ جاتی ہیں ۔ ہم یہ بے ضرر سا جھوٹ اس بنا پر خود اعتمادی سے بولتے ہیں کہ کون سا کسی نے موقع پر آ کر اس دعوے کی تصدیق کرنی ہے ، اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے ٹرپل ون بریگیڈ اتنی جلدی راولپنڈی سے اسلام آباد نہیں پہنچتا، جتنی سرعت سے ہم اپنا یہ جھوٹ چھپانے کے لئے بکھاری سے بلکسر پہنچ جاتے ہیں ۔ ویسے بھی جب ملک ہی جھوٹ کے سہارے چل رہا ہو تو ہمارے اس چھوٹے سے جھوٹ میں کیا مضائقہ ہے جبکہ یہ سفید جھوٹ بھی نہیں کہ تھوڑی بہت بارانی اراضی ہمارے بزرگوں کے نام پٹوار سرکل بلکسر میں بھی درج کاغذات مال ہے ۔
کل شادی کی ایک تقریب میں ہماری ملاقات کرنل محمد خان کے صاحبزادے چوہدری سلیم سے ہوئی ۔ یہ وہی سلیم میاں ہیں جن کے بچپن کا واقعہ کرنل صاحب نے لکھا ہے کہ کس طرح انہوں نے صاحبزادے کو انگریز دور کے اپنے زمانہ طالب علمی کا قصہ سنایا کہ جب اسکول ماسٹر صاحب ان کے ہاں مہمان ہوئے تو انہیں وی آئی پی پروٹوکول دیتے ہوئے ان کے لئے رنگیلے پائیوں والا پلنگ بچھایا گیا ۔ سلیم صاحب نے والد گرامی سے پوچھا کہ آپ لوگوں میں اتنی عقل نہیں تھی کہ ماسٹر صاحب کو کرسی پیش کرتے ۔ اس کے جواب میں کرنل صاحب نے تاریخی جملہ کہا کہ سلیم میاں! عقل تو تھی مگر کرسی نہیں تھی ۔ ہم نے چوہدری سلیم سے اس تاریک دور کا آج کے جدید زمانہ سے موازنہ کرنے کو کہا تو انہوں نے برجستہ جواب دیا ”اب گاؤں میں کرسیاں تو بہت ہیں لیکن عقل نہیں کہ باہمی محبت عنقا اور رواداری ناپید ہے “۔
کرنل صاحب مزاح نگاری کے میدان میں تو ہم سے کئی نوری سال بلند ہیں ، البتہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے اور ہمارے بچپن کے ادوار کی پسماندگی میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ جب ہم اپنے گاؤں کے بدون چار دیواری پرائمری اسکول میں داخل ہوئے تو گورے کے چاند پر پہنچنے کا بڑا غلغلہ تھا۔ پھر ایک دن ہماری مسجد میں ایک مولانا(جن کے لئے رنگین پائیوں والا پلنگ بچھایا گیا تھا) نے وعظ کیا کہ چاند مبارک پر کوئی انسان قدم نہیں رکھ سکتا اور اس قشرِ ارض پر بلا تخصیص مردوزن جس نے بھی اغیار کے اس دعوے کو تسلیم کیا ، اس کا نکاح ٹوٹ چکا ہے ۔ ہم نے دل ہی دل میں کثرت سے توبہ استغفار پڑھی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارا بھی نکاح نہیں ہوا تھا ، ورنہ ہم تو اسکول ماسٹر صاحب کی لچھے دار باتوں میں آ کر گوروں کے چاند پر پہنچنے کی بے سروپا بات کو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے ۔ یہ اسی تلخ تجربے کا شاخسانہ ہے کہ آج جب ہم ”نکاح زدگان“ میں شامل ہیں تو NASAجیسے مغربی نام نہاد خلائی اداروں کی طرف سے مریخ اور پلوٹوپر کمندیں ڈالنے کی خبروں اور جعلی سائنسدانوں کے کائنات کی تخلیق کا سبب بننے والے ایٹم کے ذیلی ذرے کی دریافت کے دعوے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں اور ایسی لغو باتوں کے متعلق سوچنے پر وقت ضائع نہیں کرتے ۔ ویسے بھی بقول استاد محترم عطاء الحق قاسمی ”میں ایک ایسی قوم کا فرد ہوں، جس نے گزشتہ کئی صدیوں سے کوئی بات نہیں سوچی “۔ ہمارے خیال میں یہ کئی جہات سے احسن فعل ہے ۔ مثلاً اگر بندہ سوچنے سمجھنے کی لعنت سے پاک رہے تو جسمانی صحت بھی اچھی رہتی ہے ،بندہ آشوب آگہی کے مہلک اثرات سے بھی محفوظ رہتا ہے ، ووٹ دیتے وقت بھی کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نکاح بھی نہیں ٹوٹتا۔
خدا بخشے ہم ان مولانا کے لئے آج بھی دعا گو ہیں کہ جنہوں نے ہماری سوچنے کی عادت پختہ ہونے سے قبل ہی اس کے آگے دیوارِ چین کھڑی کر دی اور ہمیں غوروفکر ،تدبر اور منصوبہ بندی ایسے خرخشوں سے آزاد کردیا ، ورنہ آج زندگی کتنی مشکل ہوتی کہ بقول شخصے ” سوچنے والا صلیب پر ہوتا ہے “۔تاریخ مصر ہے کہ نہ سوچنے والوں کے لئے راحت ہی راحت ہے ۔ انہیں کچھ غرض نہیں ہوتی کہ جب دنیا جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت کائنات کو مسخر کر رہی ہے تو ہم کیوں توانائی کے بحران میں غوطہ زن ہیں ؟ وہ اس فکر سے بھی جی نہیں جلاتے کہ ہمارے جس نمائندے نے پچھلے پانچ سال ہمیں جوتے کی نوک پر رکھا، ہم دوبارہ اسے کیوں ووٹ دے رہے ہیں؟ یا یہ کہ ہمارے زعمائے ملت انتخابات میں جمہوریت کے چیمپئن اور آمریت جلوہ افروز ہوتے ہی اس کے در پر کیوں سجدہ ریز ہو جاتے ہیں؟ انہیں تو انتہا پسندی کے تیزی سے پھیلتے مہیب سائیوں میں بھی ہنوز دلی دور است نظر آتا ہے۔ خدا جانے ہمارے ہاں مٹھی بھر لوگ کیوں ہر وقت سوچ کی صلیب سے چمگادڑوں کی طرح لٹک کر ملکی تشخص مجروح کرتے رہتے ہیں۔ تاہم خوش قسمتی سے مملکتِ خداداد میں عمومی طور پر ایسا کوئی رواج نہیں اور کرنل محمد خان کے ضلع چکوال میں تو بالکل بھی نہیں۔
تازہ ترین