• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1940کا زمانہ تھا، دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی، سوویت یونین اور جرمنی ہٹلر کی قیادت میں تیزی سے یورپ میں اپنے مخالف ممالک پر قابض ہوتے جا رہے تھے جبکہ کرہ ارض کے اس خطے میں سب سے زیادہ خطرے میں یہودی آبادی تھی جن کا ہٹلر کی فوج چن چن کر قتل عام کر رہی تھی۔ لتھوانیا کے کئی شہروں پر سوویت یونین کا قبضہ ہو چکا تھا جبکہ یہاں موجود یہودی آبادی جائے پناہ کی تلاش میں تھی جو انھیں کہیں نہیں مل پا رہی تھی۔ لتھوانیا کے دوسرے بڑے شہر کائونس (Kaunas) میں جاپان کا قونصلیٹ تھا جس کے انچارج سینئر سفارتکار چیونے سوگی ہارا (Chiune Sugihara) تھے، وہ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں اپنی حکومت کو تمام حالات سے باخبر رکھے ہوئے تھے، تاہم جیسے جیسے جرمن اور سوویت افواج لتھوانیا کے شہر کائونس کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں ویسے ویسے وہاں موجود یہودی آبادی میں پائی جانے والی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ لتھوانیا سے بغیر ویزے کے ملک سے باہر نکلنا زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف تھا۔ ایسے وقت میں ہالینڈ کی حکومت نے لتھوانیا میں موجود یہودی آبادی کی زندگی بچانے کے لیے انھیں ویسٹ انڈیز میں واقع ہالینڈ کے زیر قبضہ جزیرے کورا کائو (Curaçao) میں رہائش کا پرمٹ جاری کر دیا لیکن وہاں جانے کے لیے جاپان کا ٹرانزٹ ویزہ ضروری تھا۔ جیسے جیسے جرمن فوج لتھوانیا کے قریب آ رہی تھی یہودی جو چھ ہزار سے دس ہزار تک تھے، جاپان کے قونصلیٹ کے باہر جمع ہو رہے تھے۔ وہ جاپان سے ٹرانزٹ ویزہ جاری کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، تاہم دوسری جانب جاپانی ڈپٹی قونصل جنرل چیونے سوگی ہارا ٹوکیو سے وزارت خارجہ کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے ٹرانزٹ ویزے جاری کرنے کے لیے اجازت کے منتظر تھے لیکن ٹوکیو سے ہر دفعہ انکار ہو رہا تھا۔ جب تین بار ٹوکیو سے منفی جواب آیا تو چیونے سوگی ہارا نے محسوس کیا کہ اگر فوری طور پر ان پُرامن یہودی شہریوں کو ویزے جاری نہ کیے گئے تو یہ تمام لوگ جرمن فوج کے ہاتھوں ہلاک ہو سکتے ہیں لہٰذا انھوں نے اپنے حکام کی مرضی کے خلاف قونصلیٹ کے باہر جمع ہونے والے تمام شہریوں کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے پندرہ دن کے ٹرانزٹ ویزے جاری کرنا شروع کر دیے۔ اس اقدام سے سوگی ہارا نے نہ صرف اپنی ملازمت، بلکہ اپنے خاندان کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا لیکن انھوں نے روزانہ بیس بیس گھنٹے کام کرکے تمام یہودیوں کو ویزے جاری کر دیے اور تمام یہودی لتھوانیا سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

جنگ کے دنوں میں شاید سفارتکاروں کو اتنے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جاپانی حکومت نے انھیں فوراً ملازمت سے برخاست نہیں کیا، وہ جنگ عظیم کے خاتمے تک وزارت خارجہ میں اعلیٰ عہدے پر رہے اور سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ جاپانی حکومت نے انہیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے بھی نوازا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی جب وہ پولینڈ میں ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے تو سوویت فوج نے پولینڈ پر قبضہ کر لیا، سوگی ہارا اور ان کے خاندان کو گرفتار کر لیا گیا اور اٹھارہ ماہ انھوں نے سوویت یونین کی قید میں گزارے۔ 1946ء میں وہ جاپان واپس آئے اور ایک سال بعد ان سے استعفا طلب کر لیا گیا۔ یہ استعفا ڈائون سائزنگ کے نام پر لیا گیا تاہم ان کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ لتھوانیا میں حکم عدولی کے باعث ان سے جبری استعفا لیا گیا۔ چیونے سوگی ہارا کے صاحبزادے کا کہنا ہے کہ نہیں اپنے والد پر فخر ہے، انہوں نے انسانیت کی خدمت کی، نوبوکی چیونے سوگی ہارا کے اکلوتے بیٹے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہیں چند سال قبل ٹوکیو میں اسرائیلی سفارتخانے سے فون کال موصول ہوئی وہ اپنے والد کے ساتھ وہاں گئے تو وہاں کے قونصل جنرل نے بتایا کہ وہ بھی اس خاندان کا حصہ ہیں جن کو چیونے سوگی ہارا کی جانب سے ویزہ فراہم کیے جانے کے سبب نئی زندگی ملی، وہ دس ہزار لوگ اب ایک لاکھ لوگوں پر مشتمل ہیں۔ چیونے سوگی ہارا کی انسانیت کے لیے خدمات پر اسرائیلی حکومت نے بھی انہیںملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا جبکہ چیونے جاپان میں بھی ہیرو کے طورپر جانے جاتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین