• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:شمیم ڈیوڈ ۔۔لندن
سابق چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی نے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی انتہائی تشویش ناک خلاف ورزیوں اور دن بدن مزید بگڑتی ہوئی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے 2014ء میں حکومت کو ایک با اختیار، مضبوط اور جاندار کمیشن بنانے کا حکم دیا جس کا مقصد اقلیتوں کے اُن تمام حقوق پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا جو آئین پاکستان ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو دیتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اِس حکم پر مذہبی اقلیتوں میں خوشی و اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی لیکن حکومت وقت نے اِس پر کوئی کام نہ کیا۔ 2018ء میں سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے اس حکم کی تعمیل کیلئے جناب محمد شعیب سڈل کی سر پرستی میں فرد واحد کمیشن بنایا تاکہ عدالت عظمیٰ کے 2014ء کے حکم پر عملدرآمد کیا جا سکے۔ جناب محمد شعیب سڈل کو یہ بھاری ذمہ داری سونپی گئی کہ تمام متعلقہ فریقین ، سِول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور متاثرہ افراد سے مشاورت کے بعد قومی کمیشن برائے اقلیت کی تشکیل ، دائرہ کار و اختیار، قانونی حیثیت اور ساخت وضع کریں اور مسودہ بناکر حکومت کو دیں تاکہ ان خطوط پر ایک جامع اور مضبوط کمیشن قائم کیا جا سکے جو حقیقتا ً مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے عملا سرگرم و فعال ہو۔ حکومت کی اور بہت سی چالاکیوں، قلا بازیوں اور وعدہ خلافیوں کے علاوہ قومی کمیشن برائے اقلیتی امور کے معاملہ میں جو ہوشیاری دکھائی گئی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ جناب محمد شعیب سڈل کی سرپرستی میں جس کمیشن نے حکومت کی معاونت کرنی اور ایک مددگار اور صلاح کار کے طور پر مشورہ دینا تھا اُس کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اچانک 21اپریل 2020ء میں خبر شائع ہوئی کہ وزارت مذہبی امور نے کابینہ میں ایک سمری پیش کی ہے کہ پہلے سے موجود اقلیتی قومی کمیشن کو ازسر نو بحال کیاجائے یعنی اِس نامعلوم موجودکمیشن کی ازسر نو بحالی چیف جسٹس کے 2014ء کے حکم کی تعمیل ہے۔ یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ حکومت کی اِس معاملہ میں اِس قدر غیر سنجیدگی، گومگو اور مشکوک رویہ اور طریقہ کار اِس کمیشن کے مقاصد، افادیت اور فعال ہونے پر بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اولین سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ اگر اِس قسم کا کوئی کمیشن پہلے سے موجود تھا تو 2014ء کے حکم پر عدالت ِ عظمیٰ کو اِس کی موجودہ پوزیشن کے متعلق کیوں آگاہ نہ کیا گیا۔ اگر ایسا کوئی کمیشن پہلے سے موجود تھا تو اُس کے کبھی بھی فعال ہونے اور اقلیتوں پر اِس کے کوئی مثبت اثرات کبھی نظر نہ آئے۔ ایسا کمیشن کس اندھیر کوٹھری میں پڑا تھا کہ اقلیتیں اس کے وجود سے ہی بے بہرہ تھیں لیکن وزارت مذہبی امور کی سحر انگیزی کا کمال کہ راتوں رات ایسی رازداری سے کابینہ میں سمری کے ذریعہ نامعلوم مردہ کمیشن کو زندہ دم کر دیا۔ یہ عمل اِس تیزی و تندی اور مخفی انداز میں ہوا کہ کورونا وائرس بھی شرما جائے۔ کوئی ایسا کمیشن جس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو۔ پر زور طور پر اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا۔ جناب شعیب سڈل کی ماہرانہ اور پیشہ ورانہ تجربہ کی بِناء پر اُن کو ایک مسوہ تیار کرنے کو کہا گیا تاکہ اُس مسودہ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لاکر اِس کمیشن کو قانونی حیثیت حاصل ہو سکے۔ اِس کے بغیر یہ کمیشن بے کار ہے۔ محض ہوا میں لہراتے ہوئے سرکنڈے کی مانند ہے۔ ہوا میں لہراتا تو نظر آئے لیکن اپنے آپ کو مضبوط رکھنے کی بھی سکت نہ ہو۔ اگر حکومت کا مقصد ایسا کمیشن بنا کر بین الاقوامی سطح پر مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے چارٹ میں اعلیٰ درجہ حاصل کرنا ہے تو ایسی ہوشیاری نہ پہلے کبھی کارگر ثابت ہوئی ہے نہ اب ہو سکتی ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جا سکتی۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس نے جمہوریت اور سیکولر ازم کا ڈھونگ رچا کر کافی دہائیاں دنیا کو الو بنایا اور اقلیتوں پر ظلم آخر کار دنیا کے سامنے عیاں ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرازم کی ڈھال ٹوٹ پھوٹ گئی۔ اگر حکومت واقعی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سنجیدہ اقدام کرنا چاہتی ہے تو پھر قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ کے حکم کے تمام تقاضے پورے کرے۔ اِس کمیشن کو قانونی پشت پناہی دے۔ اس کی رُکنیت کا کلیہ ایسا ہو کہ اقلیتیں آزادانہ طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کر سکیں اور اُن کے حل کیلئے کھُل کر تجاویز پیش کر سکیں اور قانونی پشت پناہی کی اُن تجاویز پر عمل ممکن ہو سکے۔ کمیشن کی موجودہ رُکنیت کے تناسب سے یہ گمان گزرتا ہے کہ کمیشن اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے نہیں بلکہ اکثریت کے تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے جو اقلیتی ممبران اِس کمیشن کے رُکن چنے گئے ہیں اُن کی اہلیت اعلیٰ تعلیم، تجربہ ، دینداری اور قومی جذبہ خدمت پر کوئی شک نہیں بلکہ قوم کو فخر ہے لیکن وہ موجودہ کمیشن کی ساخت و ڈھانچہ کی نوعیت کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے کس طرح موثر اور کار آمد کردار ادا کر سکیں گے۔ کیا جیسے اقلیتی ایم این اے اور ایم پی اے پارلیمنٹ میں بے آواز اور تصویر لب بند بیٹھے ہیں ویسے ہی اس کمیشن کے ممبران کی کارکردگی اور حیثیت ہوگی کیونکہ موجودہ حالت میں اِن کی آواز اور کاوش کوئی خاطر خواہ تبدیلی لانے کے قابل نہیں ہو سکتی۔ کیا یہ چنیدا ممبران حکومت کے ہاتھوں محض بے دردی سے استعمال ہی ہوتے رہیں گے؟ کیونکہ کمیشن کی موجودہ رُکنیت کی ساخت اور قانونی پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام اور بے بس ثابت ہوں گے۔ مذہبی اقلیتیں جوں کی توں تصویر یاس بنی رہیں گی اور آپ کی حیثیت محض حکومتی حواری کی ہوگی اور جس مقصد کیلئے سپریم کورٹ نے اس کمیشن کو قائم کرنے کا حکم دیا تھا وہ مقصد اس کی موجودہ حالت حاصل نہیں ہو سکے گا۔ مسیحی ہونے کی حیثیت اور کمیونٹی کی مجموعی آواز کی ترجمانی کرتے ہوئے ہم پُر زور انداز میں جناب سڈل صاحب کی سفارشات کی تائید کرتے ہیں اور خواہش مند ہیں کہ قومی کمیشن برائے اقلیت سڈل سفارشات کی روشنی میں تشکیل دیا جائے۔ ساتھ ہی ہم جناب محمد شعیب سڈل کاجذبہ فرض شناسی اور حق کی آواز اٹھانے کیلئے مرد آہن کا کردار ادا کرنے کی داد دیتے ہیں۔ اُن تمام انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں ، صحافیوں، دانشوروں اور کارکنان کو سلام پیش کرتے ہیں جو مشکل حالات میں بے آوازوں کی آواز بنتے ہیں۔ ہم موجودہ شکل و صورت اور خدوخال میں حکومت کی بنائی ہوئی بے جان، غیر منصفانہ، ناواجب اور جانبدار قومی کمیشن برائے اقلیت کو مسترد کرتے ہیں۔
تازہ ترین