• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف حکومت نے اپنی غیردانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے کورونا کا خوف پاکستانی عوام پر مسلط کردیا ہے۔وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر پر عمل در آمد ہونا چاہئے لیکن اسکی آڑ میں غیر ملکی فنڈنگ کو حاصل کرنا اور عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا کرنا کسی بھی حکومت کی جانب سے ایک اچھا اقدام نہیں گردانا جاسکتا۔ حکومت کی جانب سے بہتر حکمت عملی سے عوا م میں خوف کی فضا ختم کی جاسکتی تھی مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ ابھی تک ہزاروں پاکستانی بیرونی ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو واپس لانے کے حوالے سے حکومتی اقدامات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ملک و قوم کو اس وقت مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی اور اسکے نتیجے میں کورونا وائرس کو بڑھنے سے روکنے کیلئے ایس او پیز پر سختی سے عملدر آمد کروانے کی ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب تک حکومت کی جانب سے اس وبا کے خاتمے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کوئی اقدامات نظر نہیں آرہے، جسکی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں دن بدن تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کی اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ ابھی تک قائم نہیں ہوسکی۔ دونوں کے درمیان دوریا ں بڑھتی جا رہی ہیں۔قومی اسمبلی کے حالیہ ا جلاس کے دوران بھی ملک میں جاری سیاسی محاز آرائی سے عوام کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ ملک و قوم کورونا وبا سے نبرد آزما ہیں لیکن سیاسی قائدین ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہے ہیں۔ قوم کو بتایا جانا چاہیے کہ ابھی تک ارباب اقتدارنے کورونا کے حوالے سے قومی پالیسی کیوں نہیں بنائی۔؟ قومی اسمبلی کے سیشن سے بھی جو توقعات تھیں وہ کیوں پوری نہیں ہوئیں؟ عوام میں حکمرانوں کی کارکردگی کے حوالے سے تشویش بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ مسلسل ناکام حکمت عملی کے متاثرین کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حکومت کی جانب سے چھوٹے تاجروں اور زرعی شعبے کیلئے محض 100ارب روپے کا ریلیف پیکیج ناکافی ہے۔ اس سے عوام کے مسائل میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا اعلان خوش آئند ہے۔ اس کیساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم اور دیگر پانی ذخیرہ کرنیوالے پروجیکٹ بھی شروع ہونے چاہئیں۔ ہر سال بہت سارا قیمتی پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ اگر ذخائر تعمیر کیے ہوتے تو پاکستان معاشی لحاظ سے اب تک بہت مضبوط ہوچکا ہوتا۔ پانی کو ذخیرہ کر کے استعمال میں لانا ہوگا یہ درحقیقت پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ جس کی معیشت کا دارومدار 70فیصدزراعت سے وابستہ ہے۔ دیامر بھاشااور کالا باغ ڈیم بروقت تعمیر کیے گئے ہوتے تو آج کروڑو ں ایکڑ رقبہ مزید زرخیز بن چکا ہوتا اوراس پر کاشت جاری ہوتی تو ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہوتا۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اورمزید لاکھوں افراد کو روزگار کے ساتھ ساتھ سستی بجلی بھی دستیاب ہو تی۔ بد قسمتی سے سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیاہے۔ پاکستان معاشی لحاظ سے سنگین قسم کے مسائل کا شکارہے۔ عوام حکومتی اقدامات سے بد حال ہوچکے ہیں۔ شعبہ زراعت کو فروغ دے کر پاکستان دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکتا ہے۔ مگرستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے لیے ارباب اقتدارمیں وژن کا فقدان ہے۔ جب تک حکمران اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے، اس وقت تک ملک و قوم ترقی و خوشحالی کی منازل طے نہیں کرسکتے۔ انڈیا آج تک چھوٹے بڑے باسٹھ ڈیم بنا چکا ہے۔ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی بہت مہنگی عوام کو دی جا رہی ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ماضی میں آئی پی پیز کیساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو قوم کے سامنے لایا جائے۔ان معاہدوں میں عوام کے خون پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور توانائی بحران کی آڑ میں کرپٹ افراد نے اپنی تجوریوں کو بھرا ہے۔ حکمرانوں سمیت کسی کو بھی عوام کے مسائل اور ان کے حل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

موجودہ حکومت نے بھی عوام کو مشکلات میں مبتلا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ماضی کے منافع بخش ادارے اب قومی خزانے پر بھاری بوجھ بن چکے ہیں۔ ہر ادارے میں کرپشن اور بد عنوانی کی لمبی داستانیں دکھائی دیتیں ہیں۔آئے روز اسکینڈلز سامنے آرہے ہیں۔ قومی اداروں کو بہتراورفعال بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان سے کالی بھیڑوں کو فی الفور نکالا جائے۔ ملک و قوم اس وقت سنگین بحران سے دوچار ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر عوام میں مایوسی پھیلتی چلی جارہی ہے۔بھارت پاکستان پر آبی جارحیت کر رہا ہےاور علی الاعلان بلوچستان میں دہشت گردوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ عالمی برادری کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔

تازہ ترین