• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارنگی کہاں چلی گئی! ارے کورونا کے زمانے میں، یہ میرا ذہن سارنگی، استاد ناظم، استاد مبارک اور نہ جانے کتنے معجزہ نما سازندوں کو یاد کرتے ہوئے طبلے والے استاد شوکت کو کبھی نہیں بھولے گا کہ ایک کینیڈین خاتون طبلے پر ڈاکٹریٹ کر رہی تھیں۔ وہ پاکستان آئیں، مجھے جانتی تھیں اور پہلے سے اطلاع دی کہ وہ استاد شوکت سے ملنا، باتیں اور طبلہ سننے کیلئے، خاص لاہور آرہی ہیں۔ میں وہ شام کبھی نہیں بھول سکتی۔ کئی گھنٹے وہ استاد کی باتیں، طبلہ بجاتے ہوئے، ریکارڈنگ اور تصویریں اتارتی رہیں۔

آپ پوچھیں گے کہ کورونا کے زمانے میں تمہیں سارنگی اور دوسرے سازندے کیوں یاد آگئے۔ یہ شرارت شبلی کی ہے۔ نہ وہ وزیر اطلاعات بنتا اور نہ مجھے پرانے زمانے، اس کے باپ احمد فراز کی موسیقاروں سے محبت اور خواتین گلوکاروں کے ساتھ شیفتگی کے زمانے یاد آتے۔ دراصل جب میں شبلی کو خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہار میں۔ ایک دائی یا نرس کی طرح بولتے سنتی ہوں کہ کیا میڈیا کو کوئی متعلقہ ادارے کا فرد میسر نہیں ہے کہ یہ بوجھ بھی اس بےچارے پر ڈال دیا گیا ہے۔ پھر میرا دماغ دستک دے کر مجھے یاد کراتا ہے کہ شبلی تو اطلاعات کا وزیر ہے جس میں ریڈیو، ٹی وی کے اداروں میں جو جو فنکار یا خزانے موجود ہیں۔ ریڈیو میں آرکائیو سیکشن میں بڑے غلام علی خان سے لیکر، سب استاد گانے والوں کو پرانے سیکرٹری محمود کی بیگم منیر محمود اور ان سے پہلے فیض صاحب، خواجہ خورشید انور اور ان کے ماتحت شیخ صاحب نے سارا کلاسیکی سرمایہ، کاٹھ کباڑ میں سے نکال کر جمع کیا تھا۔ وہ سب کہاں ہے۔ اس کو تو کسی نالائق افسر کو کہہ کر مارکیٹ میں لائو۔ اس طرح ٹی وی پر صفدر میر، یوسف کامران، نعیم بخاری، پروین شاکر، اشفاق احمد (وہ مولوی والے پروگرام میں) کے میوزک پروگرام اور پھر میرے انٹرویوز کو ٹی وی کے پہلے دن سے لیکر آج سے چند برس پہلے تک موجود ہوں گے وہ کیوں سامنے نہیں لاتے۔ کتنا ملال ہے کہ ٹی وی والوں کے پاس لطف اللہ خان کی طرح، آوازوں کا خزانہ ہی مرتب نہیں کیا گیا۔ روشن آرا بیگم سے لیکر میڈم، پٹھانے خاں اور کیا کیا کمال فنکاروں کی ریکارڈنگز موجود ہیں۔ اب یوسف صلاح الدین کی ریکارڈنگز چلا کر ٹی وی کا پیٹ بھر رہے ہو۔ یا پھر بوگس اچھل کود کے ڈانس اور گانے جو انہوں نے بالی ووڈ کی نقل میں کرنے سیکھ لئے ہیں۔ پورے 24 گھنٹوں میں صرف اور صرف سیاسی بے ہودگیوں کا بیان۔ تم سیاست میں ہو، میں خوش ہوں کہ ایک پڑھا لکھا سنجیدہ نوجوان (میرے لئے تم نوجوان ہی ہو) سیاست میں وہ زبان بولے گا کہ عالمی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے تناظر میں گفتگو کرےگا۔ ریڈیو پاکستان کو اس کی اصلی حالت میں واپس لائیگا۔ پیمرا اور اے پی پی آخر کیا کام کر رہے ہیں اور ان کو کن مقاصد کیلئے قائم کیا گیا تھا اور اب کیا ہو رہا ہے۔ فلم اور مطبوعات کا ادارہ، اگر ہے تو کیا کر رہا ہے۔ پاکستان پکٹوریل اور ماہ نو، یہ رسالے تو ضیا الحق کے کالے قوانین کے زمانے میں بھی آب و تاب سے نکلتے رہے ہیں۔ یوٹیوب کو آج کل سارا زمانہ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے اور ہمارے چینل کولڈ ڈرنکس ہی بیچے جا رہے ہیں۔ شام 7بجے سے رات 11بجے تک ایک بھی پروگرام نہ عورتوں کے دیکھنے کا ہوتا ہے نہ بزرگوں اور نہ کسی بھی عمر کے لوگوں کیلئے ہوتا ہے۔ آخر یہ ڈھول کب تک بجتے رہیں گے۔ یہ اتنی بڑی وزارت پر جب تک باجوہ صاحب سربراہ آئی ایس پی آر رہے، ان کا مکمل کنٹرول تھا۔ اب ان کو، تمہارا رفیق بنایا گیا ہے۔ اگر وہ ہے تو چین اور انڈیا کے جھگڑے پر کام کی بات اور روزانہ کشمیر میں دونوں طرف لوگوں کا مارے جانا آخر کب تک چلے گا۔ انڈیا والے تو بڑے آرام سے کشمیر کے قوانین بدلے جا رہے ہیں۔ بی بی سی پر اس کا ذکر سنا جاتا ہے ہمارے یہاں وہی 72سال پرانے کشمیر سے متعلق فقرے سامنے آ رہے ہیں۔ ہم کیوں اس پر بات نہیں کرتے کہ کیا سبب ہے کہ یو اے ای کا طیارہ اسرائیل جا رہا ہے۔ یہ کیا چکر ہے کہ ہم افغانستان کیلئے تو روزانہ واہگہ بارڈر کھول رہے ہیں۔ روزانہ بلوچستان اور کے پی میں افغانستان سے عوام کے آنے جانے اور بزنس کا سامان آنے جانے پر کوئی روک ٹوک نہیں رکھتے۔ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے اسباب بیان نہیں کرتے اور تو اور مظہر عباس کے لکھے ہوئے مضمون پر جواباً یہ نہیں سمجھاتے کہ بھئی میں نوکری کر رہا ہوں۔ میں ہزماسٹروائس ہوں۔ تم نے تو جنوبی امریکہ میں نوکری کرتے ہوئے وہاں کی سیاست، منشیات کا کاروبار دیکھا ہوا ہے۔ اسد عمر اگر سنجیدہ باتیں کر سکتا ہے تو تم تو ہو ہی احمد فراز کے بیٹے! میں جانتی ہوں اس سارے کام میں جو تم کر رہے ہو، تمہاری مرضی شامل نہیں مگر ہم لوگوں نے ضیا کے اور شیخ ریلوے کے زمانے میں بھی کام کیا۔ یہ الگ بات کہ کبھی جبری رخصت کاٹی اور کبھی جبری ریٹائرمنٹ لی۔

شبلی میاں! بڑی دلجمعی سے نوکری کرو۔ دیکھو چند دنوں کیلئے جونیجو نے جو کیا۔ اس کو لوگ آج تک سراہتے ہیں۔ پاکستان کے ایک صدر نے ناگفتہ سرگرمیوں کے باوجود اٹھارویں ترمیم پاس کی۔ ہمارے ملک میں بڑا کام نہیں ہو سکتا۔ کچھ چھوٹے چھوٹے کام کر جائو۔ کام کرنے والوں کو لوگ یاد رکھتے ہیں۔

تازہ ترین