• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانیت کے پچھلے پانچ ہزار سالہ ادوار کا مطالعہ کریں تو سب سے درد ناک المیہ جبر اور طاقت کا اندھا استعمال اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جنگلی اصول ہے۔ اقتدار یا حکمرانی کی ہوس نے ملک گیری یا فتوحات کی راہ اپنائی جس سے انسانیت پے در پے کچلی جاتی رہی۔ یونانی فلاسفرز کی فکری عظمت کو سلام ہے جنہوں نے صدیوں قبل تہذیبی و جمہوری حوالوں سے انسانیت کی رہنمائی فرمائی، یوں تہذیب حاضرہ نے ان بنیادوں پر عصری تقاضوں کی مناسبت سے جدید ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں کا ہمہ گیر تصور اپنا لیا۔ ظاہر ہے یہ برسوں کا نہیں صدیوں کا ارتقائی و شعوری سفر ہے بلاشبہ ماضی میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں لیکن ان سب کی بنیادیں ظلم، جبر، استحصال اور طاقت کے اندھے استعمال پر رکھی گئیں۔ جس فرد یا قوم کے پاس کسی بھی ذریعے سے طاقت آ جاتی تھی وہ اس کے زور پر دوسرے افراد اور اقوام کے خلاف جارحیت کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔

صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد آج کی تہذیبی انسانی ترقی جس مقام پر پہنچی ہے بلاشبہ یہ آئیڈیل نہیں ہے اس میں ہنوز کئی خامیاں اور کوتاہیاں موجود ہیں جن کی تطہیر کے بعد ہی قومیت انسانیت کا روپ دھار سکے گی لیکن عصر حاضر کی خوبیوں سے صرفِ نظر کرنا بھی بےانصافی و بددیانتی گردانی جائے گی بالخصوص ان مہذب اقوام اور ان کے باشعور شہریوں کا ان کے اپنے ماضی یا اپنی تاریخ کے متعلق حقیقت پسندانہ انسانی رویہ و جائزہ۔ اپنے سفر برطانیہ میں درویش کو ایسے برٹش لوگوں سے مل کر خوشی ہوئی جو اپنے کالونیل ادوار کو اپنی قوم کے لئے قابلِ فخر نہیں قابلِ مذمت گردانتے ہیں۔ ان کے بقول وہ اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے نونہالوں کے سامنے جارحیت کو جارحیت اور استحصال کو استحصال ہی پڑھاتے ہیں اس کے برعکس ہمارا رویہ کس قدر افسوسناک ہے ، ہم کیوں مصر ہیں کہ ہم نے اپنے اجتماعی قومی شعور کو آٹھویں صدی سے آگے نہیں جانے دینا؟ ماضی کا ہی نہیں اگر ہم نے آج کی حکمرانی کا تنقیدی جائزہ لینا ہے تو اس کے کم از کم دو موٹے یا بنیادی اصول ہونے چاہئیں اول یہ کہ وہ حکمرانی کیا عوام کی آزاد مرضی سے قائم ہوئی ہے اور دوم یہ کہ وہ عوامی بہبود و ترقی یا عوام کے انسانی حقوق اور آزادیوں کے لئے کس قدر مفید ہے۔ اس کے ساتھ میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ اس حکمرانی کا خود اپنے کمزور طبقات، ہمسایوں یا دیگر اقوامِ عالم کے ساتھ طرزِ عمل انسان نوازی کا ہے یا جارحیت پسندی و مفاد پرستی کا؟

اس پسِ منظر میں درویش جب مسلم ممالک پر اس حوالے سے نظریں ڈالتا ہے تو دکھ اور مایوسی کے ساتھ تمنا کرنے لگتا ہے کہ اے کاش ہماری مسلم دنیا بھی مہذب مغربی اقوام کے ہم پلہ ہو جائے۔ اسی طرح متذکرہ بالا اصولوں کی روشنی میں ہماری موجودہ دنیا کے تقریباً دو صد حکمرانوں میں اگر بہترین حکمرانی کا ایوارڈ دینا ہو تو وہ کینیڈا کے نوجوان وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو بنتا ہے جو اپنے ملک میں دبے ہوئے کمزور طبقات کے لئے کسی نعمت و رحمت سے کم نہیں جو عوامی دکھوں کو اپنے دکھ سمجھتا ہے اور انہیں دور کرنے کے لئے ہر لمحے مستعد رہتا ہے آج کا کینیڈا پوری دنیا کے لئے بلاتمیز مذہب و ملت، رنگ و نسل بھرپور کشش رکھتا ہے تو اس کی وجوہ پر بھی بحث مباحثہ ہونا چاہئے۔

آج کی دنیا میں بہترین حکمرانی کا ذکر کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ ابھی کورونا کے حوالے سے جب وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ ہم نے اس بدترین وبا کے شکار آخری مریض کو بھی صحت یاب کرتے ہوئے اس کے گھر پہنچا دیا ہے تو کتنا بھلا لگ رہا تھا۔ دنیا میں پہلا کورونا فری ملک، ہمارےجیسے ممالک اور ان کی قیادتوں کے لئے اس میں کتنا بڑا سبق ہے۔ یہ وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے اپنے ملک کی مسجد میں ہونے والی دہشت گردی کو بہترین اسلوب میں ہینڈل کرتے ہوئے اپنے ملک کی قلیل ترین اقلیت کی جس طرح دلجوئی کی تھی اس سے پوری دنیا میں ان کا اور ان کے ملک کا سر فخر سے بلند ہوا تھا حالانکہ اپنی ذاتی زندگی میں وزیراعظم نیوزی لینڈ کوئی پارسائی کے تمغات لئے نہیں پھر رہی ہیں۔ بہت سی وہ باتیں ان کے حوالے سے کھلے بندوں بیان کی جاتی ہیں جو ہمارے ہاں کسی مرد یا خاتون میں ہوں تو وہ الیکشن لڑنے سے ہی نا اہل قرار دے دیا جائے لیکن اصل ایشو یہ ہے کہ وہ عوام کے ساتھ چیٹنگ نہیں کرتی، ان کی خدمت کو ہی اپنی عبادت سمجھتی ہے۔ آخر ہم کب انسانی بنیادوں پر سوچیں گے، اسی چکر میں ہم آج تک عورت کی حکمرانی کو منفی نظروں سے دیکھتے ہیں حالانکہ فی زمانہ اگر خواتین کی حکمرانی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو وہ کسی طرح بھی مردوں سے کمتر نہیں ہے۔

تازہ ترین