• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے میں جبکہ پوری دنیا کی توجہ کورونا وائرس اور اُس کی تباہیوں پر مرکوز ہے، میڈیا میں مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلا گیا ہے۔ شاید اِسی لئے گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یورپی پارلیمنٹ میں ہونے والی ایک تاریخی پیشرفت سے قوم بے خبر رہی جس میں یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر ڈاکٹر فیبیو ماسیو کسٹاڈالو اور دیگر5 ممبران پارلیمنٹ نے یورپی کمیشن کے صدر کو تحریر کئے گئے اپنے خط میں اُن کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی فوج کی بربریت کی طرف دلائی۔ خط میں یورپی کمیشن کے صدر ارسولاوینڈر اور نائب صدر جوزف بوریل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کمیشن، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی بربریت کو فوری طور پر بند کرائے جس کی تصدیق اقوام متحدہ کی 2018-19ء کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ خط میں مزید تحریر ہے کہ وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکومت اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی ہدایات پر سختی سے عمل کرے اور اس کی سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ واضح رہے کہ یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر اور 15 اہم ممبران کا تعلق یورپی پارلیمنٹ کے 8 بڑے گروپ سے ہے جن میں یورپی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن ماریا ارینا بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ مئی میں یورپی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن ماریا ارینا نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو تحریر کئے گئے ایک خط میں بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ یورپی پارلیمنٹ بنیادی انسانی حقوق کی ایڈووکیٹ ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی پر ان کی نظر ہے جس پر یورپی پارلیمنٹ کو شدید تحفظات ہیں۔ خط میں مزید تحریر تھا کہ یورپی پارلیمنٹ کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں سینکڑوں افراد کی شرکت سے یہ بات عیاں ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے اور مسلمانوں کے سٹیزن ایکٹ سے مسلمانوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔ اپنے خط میں ماریا ارینا نے بھارت میں انسانی حقوق کیلئے سرگرم رہنمائوں کی گرفتاری کی بھی مذمت کی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے بھارت پر یکے بعد دیگرے دو سخت خط تحریر کئے گئے ہیں جس میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ای یو پاک فرینڈشپ فیڈریشن یورپ کے چیئرمین چوہدری پرویز اقبال لوسر اور اُن کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے جن کی کوششوں سے یورپی پارلیمنٹ نے پہلی بار یورپی کمیشن کو کشمیر کی حمایت میں خط تحریر کیا۔ پرویز اقبال لوسرہمیشہ کشمیر کاز کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں اور پورے یورپ میں اپنے ساتھیوں اور سکھ برادری کے ساتھ مل کر یورپی پارلیمنٹ، یورپ میں بھارتی سفارتخانوں اور عالمی عدالت انصاف کے سامنے بھارت کے خلاف وقتاً فوقتاً بڑے احتجاجی مظاہرے کروانے میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کے سامنے ان مظاہروں سے یورپی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کیلئے حالیہ دنوں میں نرم جذبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل پرویز لوسر کی کوششوں سے یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر ڈاکٹر فیبیو ماسیو کسٹاڈالو پاکستان تشریف لائے تھےاور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے گورنر ہائوس لاہور میں انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی تھی۔

بھارت، امریکہ اور یورپی یونین میں لاکھوں ڈالر کی لابسٹ کو استعمال کرکے کشمیر پر یورپی یونین کی وہ حمایت حاصل نہیں کرسکا جو ای یو پاک فرینڈشپ فیڈریشن یورپ نے بغیر کچھ خرچ کئے مقبوضہ کشمیر کیلئے یورپی یونین کی حمایت حاصل کی جس پر فیڈریشن کے چیئرمین اور ان کی ٹیم خراج تحسین کی مستحق ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج اور بریگزٹ کے بعد یہ تصور کیا جارہا تھا کہ یورپی یونین میں کشمیر کے معاملے پر ہماری آواز کمزور پڑجائے گی لیکن یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ خطوط نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کی آواز پہلے سے زیادہ موثر انداز میں بلند ہوئی ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنے والے اِن 15 یورپی ممبران پارلیمنٹ کی کاوشوں کو سراہنے کیلئے اُنہیں پاکستان مدعو کرکے آزاد کشمیر کا دورہ کروائے جہاں بھارت آج کل کنٹرول لائن پر گولہ باری کرکے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے اور شہری آبادی کو نشانہ بنارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حامی اِن ارکان پارلیمنٹ کے دورے سے نہ صرف اُن کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ یورپی یونین کے دیگر ممبران پارلیمنٹ بھی مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیں گے۔ یورپی یونین یورپ کے 27 ممالک پر مشتمل ایک یونین ہے۔ یورپی یونین دنیا میں ایک بڑی آواز تصور کی جاتی جس کے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے سفیر تعینات ہیں۔ بلجیئم کے شہر برسلز میں قائم پاکستان کا سفارتخانہ صرف بلجیئم اور لکسمبرگ تک محدود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان، یورپی یونین کیلئے بھی علیحدہ سفیر کی تعیناتی عمل میں لائے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر یورپی پارلیمنٹ کی حمایت سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

تازہ ترین