• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس انفیکشن کے علاج میں کارآمد ثابت ہونے والی دوا ڈیکسامیتھاسون گزشتہ کئی دہائیوں سے استعمال کی جانے والی ایک سستی دوا ہے جسے کورونا وائرس کے حملے کے بعد سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے مریضوں کو پہلے ہی کئی ممالک بشمول پاکستان میں استعمال کرایا جا رہا ہے۔

پاکستانی ماہرین کے مطابق یہ دوا پاکستان میں بھی گزشتہ 60 سالوں سے دمہ اور دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو استعمال کروائی جا رہی ہے۔

معروف پاکستانی ماہر امراض سینہ پروفیسر سہیل اختر کے مطابق ڈیکسامیتھاسون ایک کورٹی زون ہے جو کہ اسٹیرائڈ کی ایک قسم ہے جسے دمہ اور سانس لینے میں تکلیف والے مریضوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے استعمال کروایا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اب چونکہ بی بی سی نے اس دوا کی کرونا وائرس میں افادیت کا بتایا ہے تو اس دوا کا نام ہر شخص کی زبان پر ہے۔

پروفیسر سہیل اختر کا کہنا تھا دنیا بھر کے ماہرین اس دوا کو نظام تنفس میں سوزش کم کرنے یا ختم کرانے کے لئے استعمال کراتے ہیں، اس کے علاوہ اس کا استعمال الرجی کے خاتمے، جلدی بیماریوں اور حمل کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں میں بھی کروایا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ دوا 1957 میں ایجاد ہوئی اور 1961 میں میں اس کا استعمال شروع کیا گیا۔ ڈیکسامیتھاسون عالمی ادارہ صحت کی "ضروری ادویات کی لسٹ" میں بھی شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی موجودگی ہر ملک میں ہونی چاہیے اور یہ دوا انتہائی ارزاں قیمت پر عوام کو مہیا کی جانی چاہیے۔

" ہم اپنے بچپن سے اس دوا کو عام طور پر استعمال ہوتے دیکھ رہے ہیں، ڈیکسا کے نام سے مشہور ہے، پاکستان کی کچی آبادیوں میں ڈاکٹروں اور اتائیوں کی پسندیدہ دوا ہے جو کہ نظام تنفس کے مریضوں کو گزشتہ پچاس ساٹھ سالوں سے عام طور پر استعمال کرائی جا رہی ہے"، پروفیسر سہیل اختر۔

پروفیسر سہیل اختر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اس دوا کی افادیت کرونا وائرس میں مبتلا صرف ان مریضوں میں سامنے آئی ہے جنہیں سانس لینے میں انتہائی شدید دشواری ہو اور ایسے مریض یا تو آکسیجن کے محتاج ہوں یا پھر وینٹیلیٹر پر ہوں جبکہ کورونا وائرس میں مبتلا کھانسی اور بخار کے مریضوں میں اس کی کوئی افادیت سامنے نہیں آئی ہے۔

ملک کے ایک اور مشہور ماہر امراض سینہ پروفیسر جاوید خان کہتے ہیں کہ ڈیکسا میتھاسون ایک سستا اسٹیرائڈ ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں کرونا وائرس میں مبتلا تشویشناک حالت کے مریضوں کو مہنگے اسٹرائیڈ استعمال کرائے جا رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ڈیکسامیتھاسون کی کرونا وائرس میں مبتلا سانس کی تکلیف والے مریضوں میں افادیت سامنےآئی ہے جس کے بعد اب پاکستانی اسپتالوں میں بھی اس سستی دوا کا استعمال کرایا جانا چاہیے۔

برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے معروف پاکستانی فزیشن ڈاکٹر عثمان غنی کہتے ہیں کہ جب کورونا وائرس پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اس وقت انسانی جسم کا مدافعتی نظام تمام حفاظتی خلیوں کو پھیپھڑوں میں بھیج دیتا ہے جسے "سائیٹو کائین اسٹارم" کہتے ہیں, جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میں شدید دشواری ہوتی ہے اور آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے اس کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مریض جاں بحق ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دوا "سائٹو کائین اسٹارم" کے مریضوں میں سانس کی تکلیف کو دور کرتی ہے اور جسم کے دیگر اعضاء بشمول دماغ، دل، گردوں اور دیگر حصوں کو آکسیجن کی فراہمی یقینی بناتی ہے جس کے نتیجے میں ’ملٹی اورگن فیلیئر‘ یا اعضاء کے ناکارہ ہو جانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی ڈیکسا میتھاسون پر کی گئی تحقیق کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی ماہرین کی کمیٹی اس دوا کے فائدہ مند ہونے یا نہ ہونے اور اس کو مریضوں میں استعمال کا جائزہ لے رہی ہے۔

لیکن پاکستانی فارماسسٹس کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس دوا کی فراہمی کو یقینی بنائے اور اس کو مارکیٹ سے غائب ہونے سے روکے جبکہ عوام کو یہ دوا صرف اور صرف مستند ڈاکٹری نسخے پر ہی فراہم کی جانی چاہیے۔

تازہ ترین