• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت اور چین کے درمیان تبت کے عین سامنے مشرقی لداخ کے علاقے وادیٔ گلوان میں ایکچوئل لائن آف کنٹرول (LAC) پر کوئی گولی چلائی بغیر ہاتھا پائی اور پتھروں کے استعمال سے خونریز جھڑپ ہوئی ہے جس سے ایک کرنل سمیت بھارت کے 20یا بعض خبروں کے مطابق 30فوجی مارے گئے اور کچھ لاپتا ہیں جبکہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کے بھی 43اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارتی عسکری ذرائع کے مطابق یہ جھڑپ اس وقت ہوئی جب کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے ہر دو اطراف سے میجر جنرل لیول کے مذاکرات چل رہے تھے اور یہ طے پا رہا تھا کہ دونوں اطراف کی افواج متنازع علاقوں سے نکل جائیں جبکہ چین کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ بھارت متنازع علاقے میں جس طرح کی تعمیرات کیلئے بضد ہے اور اُنہیں جاری رکھے ہوئے ہے، یہ جھڑپ اُس کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف بیجنگ میں چین کے نائب وزیر خارجہ اور چین میں بھارت کے سفیر کے درمیان بھی بات چیت چل رہی ہے اور بھارتی آرمی چیف نے اپنا دورۂ پٹھانکوٹ ملتوی کر دیا ہے۔یہاں یہ واضح رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 3488کلو میٹر طویل بارڈر ہے جسے ایکچوئل لائن آف کنٹرول کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بیشتر پہاڑی خطہ ہے جو مشرق میں جموں و کشمیر اور لداخ سے ہوتے ہوئے درمیان میں ہماچل پردیش اور اُترا کھنڈ سے گزر کر مشرق میں ارونا چل پردیش سے سکم تک پھیلا ہوا ہے۔ دیرینہ تنازع لداخ کے علاوہ سکم کے بارڈر پر بھی ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ 1890 میں برٹش انڈیا کے ساتھ اُس کا جو معاہدہ ہوا تھا اُس کے مطابق تبت اور سکم کا درمیانی علاقہ چین کا ہے ۔ چین نے ڈوکلالم کے راستے تبت کے شہر لہالہ اور بھارتی ایکچوئل لائن آف کنٹرول کے قریب واقع نتھو درہ کو جوڑنے کیلئے سڑک کیساتھ ریلوے لائن کی تعمیرو توسیع بھی شروع کروائی ہے۔ علاوہ ازیں تبتی دارالحکومت میں چین اپنی ائیر بیس کو بڑے پیمانے پر توسیع دے رہا ہے۔

اصل تنازع گزشتہ ماہ سکمکی سرحد کے نزدیک بھوٹان کے علاقے ڈوکلالم سے شروع ہوا۔ چین یہاں ایک بڑی سڑک تعمیر کرنا چاہتا ہے جبکہ بھوٹان کا موقف ہے کہ یہ زمین اُس کی ہے اور بھارت اُسکے ساتھ کھڑا ہے۔ اِس کیساتھ ساتھ یہ امر بھی پیش نظر ہے کہ بھارت بھی اِس خطے میں اپنی عسکری طاقت بڑھانے کیلئے بڑی تیزی سے سڑکیں اور دیگر ذرائع مواصلات تعمیر کر رہا ہے۔ پانچ برس قبل بھارت، چین اور بھوٹان کے مابین سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا کہ مشترکہ بائونڈری تینوں کی مشاورت سے طے کی جائے گی۔ چین کا بھارت سے مطالبہ ہے کہ جس طرح ہم نے سکم پر آپ کے کنٹرول کو تسلیم کیا ہے اُسی طرح تبتی علاقوں میں آپ چین کے کنٹرول کو تسلیم کریں جبکہ بھارت نے 1960سے نہ صرف دلائی لاما کو بلکہ اُن کے ساتھ ایک لاکھ بدھوئوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے اور دلائی لاما نے یہیں تبت کی جلا وطن حکومت قائم کر رکھی ہے۔ نوجوان دلائی لاما کو کن حالات میں تبت سے بھاگنا پڑا تھا یہ ایک طویل کہانی ہے۔ پچھلے دنوں 81 سالہ دلائی لاما نے ارونا چل پردیش کا دورہ کیا تو چین کو شکایت ہوئی کہ وہاں کئی تبتی علاقوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں ، جسے چین اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتا ہے۔

گلوان ویلی کی طرح حالیہ دنوں پینگونگ جھیل کے علاقہ میں بھی ہاتھا پائی اور پتھرائو کے نتیجے میں دونوں طرف کے اہلکار زخمی ہو چکے ہیں کیونکہ وہاں اقصائے چن کے علاقے پر بھی چین کا دعویٰ ہے۔ سیک موہن لائن کو بھی چین بھارتی علاقہ تسلیم نہیں کرتا اور اِس حوالے سے سیکورٹی کونسل بھی جا چکا ہے۔ اُتراکھنڈ کے لپو لیکھ کے علاقے میں بھارت نے جو نئی تعمیرات کی ہیں ،8 مئی کو بھارتی وزیر دفاع نے اُس کا افتتاح کیا تو چین نے اُس پر بھی اعتراضات اُٹھائے تھے۔ نتھو درہ سے جو 300 کے قریب بدھ اور ہندو یاتری کیلاش ناتھ کی سالانہ یاترا پر گئے تھے چین نے اُنہیں بھی روک دیا تھا اور یہ معاملہ مابعد بات چیت سے حل ہوا۔ اِس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر ایکچوئل لائن آف کنٹرول کیساتھ چین نے تعمیرات کی ہیں تو کمی بھارت نے بھی نہیں چھوڑی۔ بالخصوص بی جے پی کے موجودہ دور میں تعمیری بجٹ کا اچھا خاصا حصہ یہاں خرچ ہوا ہے۔ یہاں کچھ ہی عرصہ میں 1800کلو میٹر سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں اور دیگر کئی پروجیکٹس پر کام تیزی سے جاری ہے۔ بالخصوص آئینی شق 370 تبدیل کرنے کے بعد زیادہ زور لداخ میں عسکری تعمیرات پر دیا جا رہا ہے۔ سڑکوں کے علاوہ فوجی بنکر بھی بنائے جا رہے ہیں تاکہ جنگ کی صورت میں اپنی پوزیشن کو مضبوط سے مضبوط بنایا جا سکے۔ خطے کے دریائوں کو اگرچہ نصف میں بانٹا گیا تھا لیکن طرفین کی کوشش ہے کہ خطے کے دریائوں اور جھیلوں پر اپنا اپنا کنٹرول قائم کیا جائے۔

عالمی سفارتکاری میں اِس وقت اگرچہ بھارت بوجوہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ وہ دو برس کیلئے سلامتی کونسل کا ممبر بھی بن گیا ہےلیکن وہ یو این سیکورٹی کونسل کا ممبر بھی بننے کیلئے سرگرداں ہے جس کیلئے بشمول امریکہ 48میں سے 47ممالک کو کو ئی اعتراض بھی نہیں ہے جبکہ چین کو NSGیعنی نیو کلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شمولیت پر اعتراض ہے کہ اُس نے تاحال NPTپر دستخط نہیں کیے ہیں ۔ بھارت کا اصرار ہے کہ اُس نے MTCRیعنی میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم کو قبول کرتے ہوئے اِس پر دستخط کر رکھے ہیں اِس لیے چین کو رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے ۔ سی پیک پر بھی بعض حوالوں سے چین پر بھارت کو تحفظات ہیں۔ (جاری)

تازہ ترین