• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس ایک ناگہانی آفت کی صورت میں دنیا پر نازل ہوا،دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی اس کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہ تھا،کورونا کے پھیلاؤ کا سب سے زیادہ خطرہ تعلیمی اداروں میں محسوس کیا گیا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں طلبا ء وطالبات زیرتعلیم ہیں، لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہی بیشتر اسکول کالجوں نے تو تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا لیکن ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کو انٹرنیٹ کے ذریعے زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا۔میری نظر میں ایچ ای سی کا یہ اقدام بہت قابل ستائش تھا کیونکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ان طلباء و طالبات کوبہت جلد عملی زندگی میں قدم رکھنا تھا، ایسے نازک موقع پر قوم کے ہونہاروں کو گھروں میں فارغ بٹھانا کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں۔ تاہم آن لائن ایجوکیشن کے حوالے سے جس چیز کی کمی محسوس کی گئی وہ ایچ ای سی کی جانب سے تمام تعلیمی اداروں کیلئے ایک جامع اور یکساں پالیسی کا فقدان ہے،یہی وجہ ہے کہ اسٹوڈنٹس کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے چیک اینڈ بیلنس کی عدم موجودگی نے حالات اس نہج پر پہنچا دئیے ہیں کہ آج ملک بھر کے طلباء و طالبات آن لائن ایجوکیشن سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔پاکستان میں گزشتہ اٹھارہ سالوں سے فاصلاتی تعلیم کیلئے بہترین خدمات سرانجام دینے والی ورچوئل یونیورسٹی کا آن لائن لرننگ منیجمنٹ سسٹم (ایل ایم ایس)اپنی مثال آپ ہے، میرےخیال میں تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ورچوئل یونیورسٹی کو رول ماڈل بناتے ہوئے آن لائن نظام تعلیم سے استفادہ کرنا چاہئے تھا ۔اس وقت کم و بیش ہر اسٹوڈنٹ کو اپنے اداروں کے عجلت میں تیارکردہ ایل ایم ایس سے بہت شکایات ہیں،مثلاََ یونیورسٹی کا ویب سرورتمام اسٹوڈنٹس کی ٹریفک برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور اسائنمنٹ جمع کروانے کے وقت سرور ڈاؤن ہوجاتا ہے لیکن اسٹوڈنٹس کیلئے ڈیڈ لائن نہیں بڑھائی جاتی، بذریعہ ای میل اسائنمنٹ جمع کرانے کو قابل قبول نہیں سمجھا جاتا،کچھ یونیورسٹیز کا ایل ایم ایس تو برائے نام ہے ، ایچ ای سی یونیورسٹیوں کو آن لائن لیکچرز کی آڈیو،وڈیو ریکارڈنگ ایل ایم ایس پر مہیا کرنے کا پابند نہیں کرسکا۔ اسی طرح اسٹوڈنٹس کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ اگر ایک چھوٹے سے گھر میں چار پانچ بہن بھائی زیر تعلیم ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ان کے والدین ہر ایک کے لئے الگ موبائل فون یا لیپ ٹاپ اورانٹرنیٹ کنکشن کا انتظام کریں جبکہ لاک ڈائون کے باعث مارکیٹس کو بند کردیا گیا تھا ۔دوسری طرف بیشتر اساتذہ کرام کا رویہ بھی کوئی حوصلہ افزاء نہیں رہا، کچھ ٹیچرز نے ٹائم ٹیبل نظرانداز کرتے ہوئے اپنی سہولت کے مطابق

کلاسزلیتے ہوئے اٹینڈنس کے معاملے میں بہت سختی برتی،بیشترنے تو زندگی میں پہلی بار اسکائپ اور زوم جیسی موبائل ایپ /سوفٹ ویئرکے بارے میں سنا اور بد قسمتی سے ایچ ای سی بھی یونیورسٹی ٹیچرز کواس حوالے سے کسی قسم کی ٹریننگ فراہم نہ کرسکی، کچھ اساتذہ نے تین کریڈٹ آور کی کلاس آدھے گھنٹے میں نمٹا دی اور زیادہ بوجھ اسائنمنٹ کی صورت میں اسٹوڈنٹس پرڈال دیا ۔ کچھ طلبا کو شکایت ہے کہ ایک تو اسائنمنٹ کی بھرمار کر دی گئی اور پھر سب نے جمع کروانے کی ڈیدلائن بھی ایک ہی دن رکھ دی، چربہ سازی (پلیجیئرازم)کے حوالے سے سخت پالیسی نافذ کرتے ہوئے زمینی حقائق کو نظرانداز کردیا گیا کہ جامع لیکچرکی عدم موجودگی میں مسائل کا شکار طالب علم کیسے اتنے قلیل وقت میں اپنے ذہن کا استعمال کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟ پھر مڈ ٹرم امتحانات کے موقع پر امتحانی پرچوں میں سخت مارکنگ کی گئی،ہر ٹیچر نے اپنی مرضی کا امتحانی طریقہ کار رکھا، مبینہ طور پر کچھ اساتذہ کرام نے تو بنا پیپرچیک کئے ہی اسٹوڈنٹس کوذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اندازے سے نمبر دے دئیے۔اب تمام یونیورسٹیوں میں فائنل امتحان سر پر آچکے ہیں لیکن اسٹوڈنٹس اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھے سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، بد قسمتی سے ہمارے ملک کا یہ ایک بہت بڑا المیہ بن چکا ہے کہ جب تک احتجاج میں شدت اور تشدد کا پہلو شامل نہیں ہو تا، تب تک ہمارے اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی نے ایک طالب علم کو آن لائن نظام تعلیم کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں یونیورسٹی سے نکال دیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نامناسب فیصلہ ہے اورا سٹوڈنٹس کااپنے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے پر امن احتجاج کرناآئینی حق ہے ، ہر اعلیٰ تعلیمی ادارے کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنے کیلئے پابند کیا جائے جہاں اسٹوڈنٹس کے مسائل اور جائز مطالبات یونیورسٹی کی سطح پر ہی حل ہو جائیں تاکہ سوشل میڈیا کی زینت نہ بنیں۔میرا مطالبہ ہے کہ ایچ ای سی کو فوری طور پر اسٹوڈنٹس کے احتجاج کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے متعلقہ یونیورسٹیوں سے جواب طلب کرنا چاہئے، ایچ ای سی کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں جب تک آپ موثر چیک اینڈ بیلینس نہیں رکھتے، تب تک آپ کسی بھی اچھے کام کے مثبت نتائج حاصل نہیں کرسکتے،اسی طرح کورونا کی وجہ سے غیر معمولی حالات کے تناظر میں اساتذہ کرام اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے،میں اسٹوڈنٹس سے بھی کہنا چاہوں گا کہ سسٹم میں بہتری کیلئے خامیوں کی ضرور نشاندہی کریں لیکن جس ادارے میں آپ زیر تعلیم ہیں، اس کو اپنا دشمن مت سمجھیں۔میںاگر کورونا وبا کی تشخیص کی وجہ سےقرنطینہ میں نہ ہوتا تو میںضرور طلباکے ساتھ عملی طور پر اظہارِ یکجہتی کرتا اور خود اسٹوڈنٹس کے جائز مطالبات کوچیئرمین ایچ ای سی کے سامنے پیش کرتا ، تاہم مجھے امید ہے کہ میرا یہ کالم چیئرمین ایچ ای سی کی نظر سے ضرور گزرے گا اور وہ قوم کے مستقبل کی خاطر فوری ایکشن لیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین