• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم میں سے اکثر مائیں اپنی بیٹیوں کو شادی سے پہلے یہ سوچ کر گھر کے کام کاج نہیں کرنے دیتیں کہ ساری زندگی انہوں نے یہی کچھ کرنا ہے، ابھی خُوب دِل لگا کر پڑھ لیں، اپنی زندگی انجوائے کرلیں، پتا نہیں کیسا سُسرال نصیب ہوگا۔درحقیقت یہ طرزِ فکر بظاہر تو بیٹیوں سے محبّت کی علامت دکھائی دیتا ہے،لیکن درحقیقت ان سے دشمنی کے مترادف ہے۔ ایک وہ بھی دَور تھا، جب مائیں، بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کھانا پکانا، سینا پرونا، صفائی ستھرائی بھی سکھاتی تھیں۔ 

اسکول کی چُھٹیوں میں عُمر کے لحاظ سے مختلف کورسزکروائے جاتے اور میٹرک کے بعد تو سلائی سیکھنا جیسے لازم تھا۔چھوٹی عُمر ہی سےان کے اندر گھر کے کام کاج کا شوق پیدا کیا جاتا۔مائیں باورچی خانے میں کام کرتیں، تو کم وقت ہی کے لیے سہی، اپنی بیٹی کو ساتھ رکھتیں اور ایک استاد کی طرح کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش کرتیں۔ ماؤں کی کوشش ہوتی کہ لڑکیوں کو فارغ بیٹھنے نہ دیا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُن ماؤں کو اپنی بچّیوں سے محبّت نہیں تھی، بلکہ یہ اُن کی محبت ہی تھی کہ جنہوں نے اپنی بچّیوں کومستقبل کی بہترین مائیں بنایا۔

ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ والدین اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم نہ دلوائیں،ضرور دلوائیں، لیکن ساتھ ساتھ انھیں گھر گر ہستی سےبھی دُور نہ کریں۔کیوں کہ اگر گھر کے کام کاج نہ کروا کر انہیں آرام کی عادت ڈال دی جاتی ہے، تو پھر یہی بچّیاں شادی کے بعدجب اپنے سُسرال جاتی ہیں، تو کام کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں لگتا ہے کہ ان پر ظلم ہورہا ہے اور یوں زیادہ تر گھر بسنے سے پہلے ہی اُجڑ نے لگتے ہیں، لہٰذا بچّیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ گھریلو امور بھی سکھائیں، کام کاج کی عادت ڈالیں، تاکہ ان کی شخصیت کا توازن قائم رہے اور وہ ایک کام یاب زندگی گزار سکیں۔ (مریم شہزاد)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کےتخلیق کار

٭فریج،لاک ڈاؤن اور آسان کھانوں کی فہرست،بنتِ شیروانی٭موسم ِگرما کے مسائل،حکیم راحت نسیم سوہدروی٭بچّوں کی تربیت،دانیہ محمود مشرقی٭حسبِ عادت،آمنہ آفاق٭نرسز ڈے اور پاکستان،آصف خان٭دُعا، پروفیسر مجیب انوار حمیدی،گلبرگ ٹاؤن،کراچی٭سوچ سمجھ کر بولیں، قراۃالعین، حیدرآباد٭کورونا وائرس،فیروز عالم، امریکا۔

تازہ ترین