• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز ایک انتخابی امیدوار جو عمدہ کردار کے مالک ہیں، میرے پاس آئے اور کہا”آپ سے ایک چھوٹا سا کام ہے؟“ میں نے جواب دیا”ابھی بتائیں، ابھی تعمیل ہوگی“ بولے”میں نے فلاں حلقے سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ کے لئے اپلائی کیا ہے، آپ میاں برادران کو بس ایک فون کھڑکا دیں، وہ آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، میرا کام ”کھڑے کھلوتے “ہوجائے گا“۔ اس پر میں نے دل ہی دل میں ایک بھرپور قہقہہ لگایا کہ ان صاحب کی اس معصویت کو اسی طرح خراج عقیدت پیش کیا جاسکتا تھا تاہم میں نے انہیں مخاطب کیا اور کہا”لگتا ہے آپ کی تحریک انصاف کے ان صالح نوجوانوں سے ملاقات نہیں ہوئی جو میرے نزدیک ملامتی صوفی ہیں چنانچہ دنیا داروں کو خود سے دور رکھنے کے لئے ہر وقت گالی گلوچ کرتے ہیں“۔ بولے”میں واقعی ان سے کبھی نہیں ملا“ میں نے کہا” یہ آپ کی میانہ روی ہے، ویسے اگر آپ ان سے ملے ہوتے یا ان کے رشحات قلم فیس بک پر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہوتا یا میرے نام ان کے براہ راست کئے گئے میسیجز میں ان کی گل افشانی گفتار دیکھی ہوتی تو آپ کبھی نہ کہتے کہ میاں برادران میری بہت عزت کرتے ہیں“وہ صاحب حیران ہو کر بولے”مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟“۔ میں نے کہا”یہی کہ تحریک انصاف کے یہ صالح نوجوان پورے تواتر سے یہ بات کہتے ہیں کہ عطاء الحق قاسمی کو ہر مہینے میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے علیحدہ علیحدہ خاصے بھاری بھرکم”لفافے“ ملتے ہیں، نوجوانوں کے اخلاق میں تبدیلی لانے والے عمران خان کے یہ صالح پیروکار اتنی گھٹیا بات بلا وجہ تو نہیں کرسکتے،لہٰذا اب آپ خود ہی سوچیں کہ ایسے شخص کے کہنے پر وہ کسی امیدوار کو کیسے ٹکٹ دے ڈالیں گے جو ا ن سے ہر ماہ اپنے لکھیکی ”فیس“ وصول کرتا ہو؟“ یہ معصوم سا سائل میری یہ بات سن کر پریشان سا نظر آنے لگا اور بولا”میں تو سمجھتا تھا کہ آپ اپنے ضمیر کے مطابق لکھتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کی بکواس کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن آپ تو کچھ اور ہی نکلے“ یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے اٹھے تو میں نے انہیں روک لیا اور کہا”یہ تو کچھ بھی نہیں، میاں برادران جب جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں سختیاں برداشت کررہے تھے اور میڈیا کی اکثریت میاں برادران کی کردار کشی میں مشغول تھی، پرانے مسلم لیگی بھی کونوں کھدروں میں جا چھپے تھے، ملک میں ہوکا سناٹا تھا، عام پاکستانیوں کی اکثریت بھی بے پناہ پراپیگنڈے کے نتیجے میں میاں نواز شریف کو ہائی جیکر بلکہ انڈیا کا ایجنٹ سمجھنے لگی تھی، اس وقت بھی میں اور دو ایک دوسرے کالم نگار میاں صاحب کے پے رول پر تھے جس کے عوض جنرل کے خلاف سخت کالم لکھ رہے تھے، صرف یہی نہیں بلکہ ایک اخبار نے ان دنوں خبردی کہ میاں نواز شریف نے عطاء الحق قاسمی کو صحافیوں میں تقسیم کرنے کے لئے جدہ سے چودہ کروڑ روپے بھیجے ہیں“ میرا معصوم سا سائل میری باتوں کے نتیجے میں رونے والا ہوگیا تھا اور میں بھی اسے پوری طرح رلانے پر تلا ہوا تھا،چنانچہ میں نے کہا ”بات تو سچی تھی مگر اپنا پردہ بھی رکھنا تھا“ چنانچہ جب اس اخبار کے رپورٹر نے خبر شائع کرنے کے بعد اس حوالے سے میرا موقف پوچھا تو میں نے کہا”عزیزم اگر میاں صاحب نے صحافیوں کا منہ بند کرنے کے لئے چودہ کروڑ کی بجائے صرف چودہ سو روپے بھی بھیجے ہوتے تو کم از کم تم یہ خبر شائع نہ کرتے“ میری اس گفتگو کو میرے معصوم دوست نے صحیح جانا، دل برداشتہ ہو کر اپنی نشست سے اٹھا اور مجھ سے ہاتھ ملائے بغیر وہاں سے چلاگیا۔
آپ سوچیں گے کہ میں نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر میں یہ سب باتیں ان سے نہ کرتا تو ویسے بھی کام نہ ہونے کی صورت میں ان کے دل میں میرے لئے عزت نام کی کوئی چیز نہیں رہنا تھی، چنانچہ بعض اوقات اپنی عزت”بچانے“ کے لئے اپنی کردار کشی بھی خود ہی کرنا پڑتی ہے، تاہم مجھے اپنے رویے پر افسوس ضرور ہوا کہ یہ صاحب واقعی مسلم لیگ (ن) کے مشکل وقت کے ساتھی ہونے کے علاوہ اپنے علاقے کی بہت مقبول شخصیت تھے۔ مجھے اندر سے شرم محسوس ہوئی کہ وہ ٹکٹ کے لئے سفارش ڈھونڈتے نظر آئے حالانکہ خود پارٹی کو ان کے پاس جانا چاہئے تھا۔
اور ایسا صرف پہلی بار نہیں ہوا، پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت کے پانچ برسوں کے دوران کم سے کم پانچ ہزار لوگ مختلف وسیلوں سے میرے پاس آئے ان میں سے اکثریت اپنے جائز کاموں کے لئے ماری ماری پھرتی تھی لیکن میں انہیں بتاتا تھا کہ جب تک نظام تبدیل نہیں ہوگا، انفرادی کاموں کے لئے آپ جیسے لوگوں کو اسی طرح مارا مارا پھرنا پڑے گا۔میں انہیں حکومتی کمپلینٹ سیل کا رستہ بتاتا تھا، کسی کی شکایت دور ہوتی تھی ،کسی کی نہیں ہوتی تھی۔ میں نے اس عرصے میں بے شمار دوستوں، عزیزوں اور قریبی رشتہ داروں کو ناراض کیا اور یوں اس وقت میرے دشمنوں کی تعداد پرویز مشرف کے دشمنوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے حالانکہ میں نے ان کی صرف یہ خوش فہمی دور کرنے کی کوشش کی تھی کہ بے شک میاں صاحب میری عزت کرتے ہیں اور میں ان کی عزت کرتا ہوں لیکن میں ان کے قریبی لوگوں میں سے نہیں ہوں، میں ان کا نظریاتی ساتھی ہوں اور اس حوالے سے مکمل طور پر ”جانبدار “ ہوں۔ میں اگر سمجھتا ہوں کہ اب خامیوں کے باوجود ملک و قوم کے لئے بہترین چوائس مسلم لیگ(ن) ہے تو میں ا یسی غیر جانبداری پر لعنت بھیجتا ہوں جو لوگوں کو کنفیوژ کرے یا انہیں کسی ایسے دووازے پر بھیج دے جہاں سے قومی ذلت اور رسوائی میں مزید اضافہ ہوتا نظر آتا ہو، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ تصور ہی آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جارہا ہے کہ نظریاتی رفاقت بھی بغیر کسی ذاتی مفاد کے ہوسکتی ہے،میں پنجاب حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوں لیکن کیا اس امر میں کوئی شبہ ہے کہ چاروں صوبوں میں سے بہترین کارکردگی اس صوبے کی تھی اور کیا اس امر میں بھی کسی کو شبہ ہے کہ میگا کرپشن کا کوئی سیکنڈل شہباز شریف کے دور حکومت میں نظر نہیں آیا ،میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ صوبے میں ہر کام میرٹ پر ہوا لیکن کیا اس حوالے سے بھی صورتحال اگر مثالی نہیں تو کیا تسلی بخش بھی نہیں؟
اور جہاں تک میاں محمد نواز شریف کا تعلق ہے کیا اس میں کوئی دو رائے ہیں کہ اس وقت ان کے پائے کا کوئی لیڈر میدان سیاست میں موجود نہیں، انہیں قسطوں میں جو دو”باریاں“ ملیں، کیا ان ادوار میں ہونے والے اور نظر آنے والے مثبت کام کسی اور دور میں ہوئے ، میں سب کچھ یہ کہتا رہا ہوں اور کہتا رہوں گا جب تک میاں برادران سیدھے راستے پر ہیں ان کی سیاست کے درمیان میں کچھ پیچ و خم بھی آتے ہیں لیکن یہ اس طویل دور آمریت کی دین ہیں جس کے اثرات ہماری سیاست میں بھی دخیل ہوئے، تاہم ایک بات مجھے مسلم لیگ(ن) اور دوسری محب وطن سیاسی جماعتوں سے کہنا ہے اور وہ یہ کہ کام اب رفو گری کا نہیں ہے سارا دامن چاک ہے، زخموں پر صرف پنبہ رکھنے سے کام نہیں بنے گا کہ سارا تن داغ داغ ہوچکا ہے لہٰذا ملک کو اب انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور انقلابی تبدیلوں کے لئے کمزور مخلوط حکومت نہیں بلکہ بہت بڑی اکثریت کی حامل حکومت کی ضرورت ہے لہٰذا اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام اپنے ووٹ تقسیم نہ ہونے دیں کہ اس صورت میں پھر یہی سیٹ اپ ہمار مقدر بنے گا جس نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے ۔
اور ہاں…سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے امیدواروں کا انتخاب کرتے وقت ان کی خدمات اور اہلیت کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ خصوصاً مسلم لیگ(ن) سے یہ توقع کچھ زیادہ ہے اگر اس نے صرف”کمیٹیوں“ کی رپورٹوں پر اندھا دھند انحصار کیا تو وہ جیتی ہوئی جنگ بھی ہار جائے گی۔
تازہ ترین