• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

جہاں تک آئینی ترمیم کاتعلق ہے، ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل مشرف کوآئین میں ترمیم کا اختیار ہے۔ بشرطیکہ آئین میں کوئی ایسی شِق نہ ہو جو جنرل مشرف کو سات نکاتی ایجنڈا نافذ کرنے میں رُکاوٹ بنے تاہم آئین کے تحت سات نکاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں کوئی رُکاوٹ نہ تھی، اس کے علاوہ آئین کی کسی شق میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔علاوہ ازیں مندرجہ بالا ترمیم کے لئے بھی بہت سی شرائط عائد کی گئیں۔ جن کا ذکر تفصیل سے ظفر علی شاہ کیس میں کیا گیا ہے اور ان شرائط کو پورا کرنا ممکن نہ تھا، جنرل مشرف کو جو ترمیم کا اختیار دیا گیا وہ محض نمائشی اختیار تھا۔صاف لفظوں میں آئین میں کسی ترمیم کی اجازت نہیں دی گئی۔اس بے بنیاد الزام کا مفصل جواب بھی ’’ارشاد نامہ‘‘ کے باب 24میں’’ ظفر علی شاہ کیس ترمیم :تین سال حقیت اور افسانہ! ‘‘کے زیرِ عنوان دے دیاہے۔اس سلسلے میں اس کی تصدیق اُس دور میں اخبارات میں لکھے گئے اداریوں تبصروں اور کالموں کی ورق گردانی سے کی جا سکتی ہے۔ معاف کیجئے گا، تمہید طویل ہو گئی، لیکن جناب کالم نگار کی بعض گوہر افشانیوں کی گرفت کرنے سے پہلے، پس منظر سے خواہ مختصر ہی سہی، آگاہ کرنا ضروری تھا۔صدیقی صاحب نے جسے ’’ پھڈا یا اڑچن ‘‘ قرار دیا ہے، اُس کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ یہ سرکاری آداب اور روایت میں شامل ہے، کہ حلف دینے اور حلف لینے والا دو نوں، ہا ل میں اکٹھے داخل ہوتے ہیں۔یہ ہر گز اڑچن یا پھڈا نہیں تھا بلکہ ایک مسلمہ روایت کی پاسداری کا معاملہ تھا، جہاں تک سج دھج کا تعلق ہے،میں کوئی میلہ دیکھنے نہیں گیا تھا، کہ کوئی خاص یا بقول موصوف مضحکہ خیز لباس پہنتا یا انوکھی وضع اختیار کرتا یا بن ٹھن کر جاتا،یہ ساری باتیں پروٹوکول کا حصّہ ہیں،میں نے سپریم کورٹ کا روایتی لباس پہن رکھا تھا۔ اس حوالے سے بھی صدیقی صاحب کی لا علمی افسوسناک ہے، جہاں تک قامت و جسامت کا تعلق ہے، اس بارے میںکالم نگار کے خیالات پڑھ کر لگا، کہ اُن کے نزدیک عقل نہیں بھینس بڑی ہے۔غالباً وہ اس کرسی پر کم ازکم کسی پہلوان یا ہاتھی کو بیٹھا دیکھنے کے متمنی تھے۔جثہ خالق کی تخلیق ہے، جیساوہ بنا دے شکر ہے اللہ پاک کا۔البتہ جیسا بھی قدوقامت ہو، خداسے دُعا مانگنی چاہئے، کہ اُس میں ایسا ذہن ہو، جو راست فکری اور سلامت روی کا حامل ہو، اور جسے خدانے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشی ہو۔

محترم رفیق تارڑ صدرتھے، جب اُنہوں نے مجھ سے چیف جسٹس آف پا کستان کا حلف لیا۔ یہ حلف برداری اُسی پی سی او کے تحت ہوئی، جس کے تحت میں نے جنرل مشرف سے بہ طور صدرِ مملکت حلف لیا۔ تب تو صدیقی صاحب نے نہیں پوچھاکہ تارڑ صاحب73کے آئین کا کیا ہوا؟چیف جسٹس کو پی سی او کے تحت حلف کیسے دیا جا سکتا ہے۔ عرض ہے، اور انتہائی انکساری کے ساتھ صدیقی صاحب کے علم میں لایا جارہا ہے کہ وہ میری حلف برداری کی تقریب کی خوبصورت فریم میںمزین تصویر صدر صاحب کی جانب سے عاجز کو دینے، خود تشریف لائے تھے۔

محترم رفیق تارڑ علیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں صحت کا ملہ و عاجلہ عطاکرے۔ بلاشبہ، وہ دوسروں کے برعکس، ایوان صدر سے تقریباً مختصر سامان کے ساتھ رخصت ہوئے۔ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، مگر دلیل اور بیان کی صحت او لین ترجیح ہے،دوسرا جگہ کی تنگ دامانی کا احساس بھی ہے۔عاجز کسی بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا اور نہ ہی جواب الجواب کے دنگل میں کودنا۔ حر ف ِآخر، قائدا عظم کی پیروی کے جذبے نے وکالت کے پیشے تک پہنچایا۔ زندگی میں جوکچھ بھی دیا اللہ تعالیٰ نے دیا۔مناصب کو استعمال کرتے ہوئے، فیکٹریاں لگائیں، نہ فارم بنائے اورنہ بینک بھرے۔ نہر کنارے، جوہر ٹائون میں عام رہائش گاہ ہے کئی ایکڑوں پر محیط قصر نہیں۔ اولاد باپ کے بینک بیلنس پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی خدادا د صلاحیتوں کو استعما ل کر کے کما کھا رہی ہے۔ شُکر الحمدللہ۔ آرزوہے کہِ رب ذوالجلال عاقبت بخیر کرے، آمین ثم آمین اور ان معروضات کا خلاصہ

شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم

تازہ ترین