عوام میں یہ غصہ پایا جارہا ہے کہ ہمیں ریلیف دینا ہوتا ہے تو حکومتی خزانہ خالی ہوجاتا ہے جبکہ پسندیدہ صنعتکاروں کو سبسڈی دینے کیلئے یہ بھر جاتا ہے ۔ماضی میں صدر مملکت کی تنخواہ 2لاکھ 75ہزار ہوا کرتی تھی جبکہ موجودہ صدر کی تنخواہ میں 227 فیصد اضافہ کرکے 9 لاکھ کرنے،وزیر اعظم کی تنخواہ میں 344 فیصد اضافہ کرکے 8 لاکھ کرنے پر عوامی حلقے حکومت پر سخت تنقید کررہے ہیں ۔ وفاق اور گلگت بلتستان سمیت تمام صوبوں میں بجٹ پیش کئے جاچکے ہیں۔
گلگت بلتستان نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میںپندرہ فیصد اور سندھ نے دس فیصد اضافے کا اعلان کرکےریلیف د یدیا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے وفاق سمیت پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا ہے جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین میں نہ صرف بے چینی بلکہ شدید مایوسی پھیل چکی ہے۔ انھیں یہ یقین ہو گیاہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں بالکل بھی عوام دوست نہ ہیں۔سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ حکومت جھوٹ سے کام لے کر خود کو دھوکا دے رہی ہے، 40 فیصد فصلیں تباہ ہوچکیں ہیں۔
حکومت نے معیشت کے ساتھ ساتھ زراعت کو بھی تباہ و برباد کردیا ہے۔ عمران خان کو جب کے پی میں حکومت ملی تھی تو فرمایا کرتے تھے کہ بجٹ وفاق کے پاس ہے صوبہ کیا کرے ؟اب جبکہ دوسال ہوگئے ہیں وفاق ملاہے تو اب خان صاحب فرماتے ہیں یہ کیسا نظام ہے وفاق صوبوں کو پیسے دے،سارا بجٹ توصوبے لے جاتے ہیں وفاق کے پاس کچھ بچتا ہی نہیں ہےوہ کیا کرے؟کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر وزیر اعظم نے اپنا مدعا نہ بدلا ہو جس کی وجہ سے معاملات چلانے اور احکامات کے نفاذ میں تحریک انصاف کی حکومت عملی طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ چینی اور آٹا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے عوام میں حکومتی مقبولیت کا جہاز کریش ہوچکا ہے ۔ حکومت اور اس کے وزرا ہی نہیں مانتے لیکن ملک کا بچہ بچہ جان چکا ہے کہ چینی کی برآمد کی اجازت وزیر اعظم نے خود دی۔
عوام برملا اظہار کررہی ہے کہ شوگر ملوں کوسبسڈی کی اجازت وزیر اعلیٰ خود ہرگز نہیں دے سکتے کیونکہ وہ تو ربڑ سٹیمپ ہیں اور کوئی کام وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے ہیں۔ عوام کا ماننا ہے چینی کی قیمتوں میں اضافے سمیت تمام تر گڑ بڑ میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ براہ راست ذمہ دار ہیں جن کے نام کمیشن کی رپورٹ میں ہیں ہی نہیں۔ اس طرح یہ رپورٹ صرف کاغذی کارروائی ہے۔ آٹا ملوں کو کنٹرول ریٹ پرگندم کی عدم دستیابی ، مارکیٹ میں اس کی قیمت میں اضافے نےحکومتی اقدامات ،بیانات اور اصل صورتحال کو مشکوک بنادیا ہے۔گندم کی خریداری کرتے ہوئے حکومتی سطح پر بڑے بڑے بیانات جاری کئے گئے تھے کہ اس بار ریکارڈ گندم پیدا ہوئی ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تھا تو اس کی قیمتیں کیوں بڑھیں ؟
اگر ریکارڈ خریداری کی گئی توفلور ملوں کوکنٹرول ریٹ پر گندم کیوں نہ ریلیز کی گئی؟یہ بلیک مارکیٹ کس چڑیا کا نام ہے؟کون مہنگی گندم مارکیٹ میں بیچ رہا ہے؟ حکومتی ادارے سوئے ہوئے ہیں؟اگر ریکارڈ خریداری کر لی گئی تھی تو پھر درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سوشل میڈیا پر حکومتی پالیسیوں پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے بیانات پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم نے کہاملک سے گندم اسمگل ہونے کا خطرہ ہے۔جس پر کہا گیا وزیر اعظم صاحب اطلاع نہ دیں کوئی کام کریں ، آپ اور آپ کے ادارے کس مرض کی دوا ہیں؟ عملی حقیقت تو یہ کہ قائد ملت کہہ کر لانے والے جان لیں کہ یہ مجسم قائد قلت بن گیا ہے۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں پچاس فیصد کٹوتی کے بعدسرکاری یونیورسٹیز کو چندہ جمع کرنے کی ہدایت کردی گئی ۔
جس پر تعلیمی حلقے کہہ رہے ہیں کہ والدین اب آپکو “ فیس چالان “ کے ہمراہ “ چندہ برائے جامعہ” کیا بھی چالان ملا کرے گاآپ نے گھبرانا نہیں ہے۔پبلک سیکٹر یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ منظر عام پر آنے کے بعد تعلیمی حلقوں میں یہ رائے راسخ ہوگئی ہے کہ نجکاری کا ڈھنڈورا پیٹنے والی انصافی حکومت یونیورسٹیوں کی آزادی اور خود مختاری چھین کر ان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔وائس چانسلرز پر ریٹائرڈ بیوروکریٹ بٹھانے سےاسکول ایجوکیشن کے بعد ہائیر ایجوکیشن میں بھی ریورس گیئر لگ جائے گا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف سمیت سنجیدہ حلقوں نے بھارت کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب ہونے کی شدید مذمت کی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی کامیابی سے مظلوم اور قانون پسند انسانوں کو اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے متعلق منفی پیغام ملا ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے نامزدگی میں بھارت کی حمایت کرکے پاکستان اور کشمیرکے عوام کے ارمانوں کا خون کیابھارت کا سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن بننا مودی کے یاروں کی مہربانی ہے ۔بھارت کے مقابلے میں متبادل نامزدگی کی کوششیں نہ ہونا سفارتی محاذ پر ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ 5 اگست2019 کے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی اقدامات کے بعد یہ عہدہ بھارت کو ملنا اقوام متحدہ کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ جتنا زور ملک میں اپوزیشن کے خلاف لگاتے ہیں، بھارت کے خلاف مظاہرہ کرتے توبھارت کا راستہ روکا جاسکتا تھا۔وفاقی حکومت نے سمارٹ اور سلیکٹڈ لاک ڈاؤن کرکےملک میں کورونا کے متاثرین کی تعداد دو لاکھ کے قریب پہنچا دی ہے۔
عوام شدید تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیںکہ پاکستان کا فہرست میں تیرھویں نمبر پر آنا بہت ہی خطرناک ہے لیکن حکومت اس ضمن میں ایک بھی سنجیدہ قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس جنگ گروپ اور جیو ٹی وی کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو سو روز سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن نیب اس بارے سنجیدہ کارروائی کرنے میں اس لئے ناکام رہا ہے کہ کیس ہی نہیں بنتا ہے ۔ ماضی میں بھی حکومتوں نے ہمیشہ سچ بولنے پر جنگ اور جیو پر معاشی پابندیاں عائد کیں جیو کو بند بھی کیا گیا۔ جنگ اور جیو کے اشتہارات بھی بند کئے گئے تاہم اس بار 34 سال پہلے خریدی گئی نجی جائیداد کے حوالے سے ناجائز طور پر میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرکے نیب اور حکومت نے اپنے تابوت میں آ خری کیل ٹھونک لیا ہے۔