متحدہ ہندوستان کی تقسیم سے وجود میں آنے والا ’’سیکولر ڈیمو کریسی‘‘ کے تشخص کا حامل ’’ماڈرن انڈیا‘‘ اپنے جدید امتیاز کے ساتھ ایک صدی بھی نہ گزار پایا، حالانکہ اس کی یہ نئی شناخت چار پانچ عشروں میں یکسر تبدیل ہو جانے والی نئی دنیا میں قبولیت کے بلند درجے پر رہی۔ آنجہانی سوویت یونین کی طرف جھکائو اور اپنے غیرجانبدارانہ تشخص پر نازاں ہونے کے باوجود آزاد مغربی دنیا کے معاشروں اور علمی سیاسی حلقوں میں تو بڑے فیصد کے ساتھ اس ’’ماڈرن انڈیا‘‘ کو ’’ڈارلنگ‘‘ کا درجہ حاصل رہا۔ یوں نئی دہلی آزادی کے بعد سرد جنگ کے عشروں میں ایک ٹکٹ میں دو مزے لوٹتا رہا لیکن جدید بھارت کی سیاسی تاریخ کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ چھ عشروں پر محیط اپنے اس تاریخی پس منظر کو لئے بھارت کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے اپنے اسمارٹ آئین سے متضاد ہی نہیں بلکہ متصادم ہٹلرانہ مزاج کی ’’ہندو توا‘‘ (ہندومت کی طرف مکمل واپسی) فلاسفی کی لپیٹ میں آکر بذریعہ ووٹ ہندو بنیاد پرست بھارت بن گیا۔ ووٹ بھی اتنا اور غیرمتنازع کہ ’’سیکولر ڈیموکریسی‘‘ کی پیروکار ماڈرن انڈیا کی اصل پشت پناہ طاقت ’’آل انڈیا کانگریس‘‘ نے ہر دو گزشتہ انتخابات میں اپنی شکست کو مکمل جمہوری جذبہ سے تسلیم کیا۔ حیرت تو یہ ہے کہ کانگریس اور اتنے بھرے اور بڑے بھارت میں کسی نے بھی تو یہ آئینی سوال نہیں اٹھایا کہ کیا بی جے پی کا انتہائی سنجیدہ اور Focusedپروگرام کو انتخابی مہم کا منشور بنانا، بھارتی آئین سے متصادم نہیں؟ دیوار سے لگی گاندھی اور نہرو کی کانگریس کی بدنصیبی ملاحظہ ہو کہ اب مودی کے ویل مین ڈیٹڈ انتخابی پروگرام کے خلاف بھارت کے خلاف بھارتی عدلیہ سے رجوع کرنا بھی کارِ بیکار ثابت ہوا اور ہوگا کہ وہ بھی ’’ہندو توا‘‘ کے رنگ میں رنگی گئی۔ بھارتی نظام عدل کا تو یہ عالم پہلے ہی ہو چکا کہ حکومتی ذہنیت اور متنازع پالیسیاں وہاں آئین و قانون پر، کانگریس دور میں ہی حاوی ہو چکیں۔ بےگناہ معصوم کشمیری افضل گرو کو پھانسی کے حیران کن فیصلے سے لے کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے کورٹ ورڈکٹ تک بھارتی سپریم کورٹ کا معیار اور وقار پوری آزاد دنیا کے سامنے زمین بوس ہو چکا ہے۔
بھارت کے حالاتِ حاضرہ یہ ہیں کہ بحیثیت قوم و ملک اس طرح ہندو بنیاد پرست میں ڈھلنے کے ابتدائی نتائج بھارتی بپھری انتہا پسند حکومت کے دوسرے جنگجویانہ دور کے پہلے ہی سال میں بغیر کسی شک اور ابہام کے واضح طور پر سر نکالنا شروع ہو گئے ہیں۔ قومی معیشت کی بربادی کے بعد بنیاد پرستی کے نئے روپ میں بھارت کی سرحدی اور داخلی سلامتی، دونوں ہی ایک ہی درجے پر ڈگمگا رہی ہیں۔ چین نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو آئین کی ہی کھلی خلاف ورزی، مقبوضہ کشمیر اسمبلی کو اعتماد میں لئے بغیر اور ریاست کی ریکارڈڈ عالمی متنازعہ حیثیت کو بلڈوز کرتے ہوئے یکطرفہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور چینی دعوے کے حامل متنازع لداخ کو اپنی مین لینڈ کا آئینی علاقہ بنا لیا جس پر چین نے اپنے سرکاری ردِعمل میں دیر نہیں کی۔ یوں بھارت نے چین اور پاکستان دونوں کو مکمل فری ہینڈ دے دیا کہ وہ اپنے زور بازو پر ان متنازع علاقوں کو جنگ کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں تو کرلیں، یہ اب ان کا بالکل ایسے ہی استحقاق ہوگیا جس طرح بھارت نے متنازع علاقوں کو اپنا استحقاق جتا کر غیرآئینی اقدام سے اپنا علاقہ بنا لیا۔ دنیااس پر بولی نہ بول سکتی ہے۔ چین کا معاملہ فقط لداخ پر دعوے تک نہیں ہے، اب اس متنازعہ علاقے کی بغل سے وہ سی پیک بھی نمو دار ہونے کو ہے جو بلاشبہ عالمی امن و استحکام اور ترقی پذیر ممالک ہی نہیں خطوں کی خوشحالی کا ایک واضح منصوبہ ہے، جس کے آغاز کی قربت میں ہی بھارت کے حسد اور عالمی سودے بازی میں رنگے عزائم نہیں عملی سرگرمیاں بے نقاب ہو گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین فقط اپنے دعوے کے لداخی متنازعے علاقوں میں عسکری چوکیاں بنا کر اور بھارتی تعینات فوجیوں کو ہاتھوں ، ڈنڈوں سے پیچھے دھکیل کر ہی سی پیک اور اپنے دفاعی اسٹرٹیجک مفادات کو محفوظ کرلے گا، یا اس کے لئے مقبوضہ کشمیر کا آزاد ہو کر آزاد کشمیر میں ضم ہونا (جسے جنگ سے کرنا اب مودی کے یکطرفہ اقدام کے بعد مکمل جائز ہو گیا) بھی سی پیک اور چین و پاکستان کی سلامتی کا بنیادی تقاضا بن گیا ہے، جو نئے بنیاد پرست بھارت کی تشکیل کا پہلا (بھارت کے لئے) تباہ کن نتیجہ ہے۔ دوسرا بڑا یہ کہ ساری دنیا پر عیاں ہو گیا، جو کچھ سی سی اے کے نفاذ کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ہونے کو ہے، وہ مبہم نہیں۔ اس پر جس طرح مسلمانان بھارت بپھرے ہیں اور صدر ٹرمپ کی موجودگی میں نئی دہلی میں جو کچھ ہو گیا، پھر جس طرح عسکری طاقت میں جکڑی بھارت کی تنگ پھنگ ریاستیں چکن نیک کٹنے کی منتظر ہیں، نیپال کے عود آنے والے اور بھوٹان کے بنتے تیور، پھر سر اٹھاتی خالصتان تحریک، سب سے بڑھ کر چین کا بھارتی شمالی متنازع علاقوں میں مشکوک انفراسٹرکچر پر شرم میں ڈوبی بھارتی عسکری صلاحیت کا بھانڈا بیچ بازار میں پھوڑنا، بنیادپرستی کا روپ دھارنے والے بھارت کی تشکیل کے نکلتے ابتدائی نتائج نہیں؟ ابھی تو ابتدائے عشق ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟