مئی 2020کے آخری ہفتے میں امریکی ریاست میناپولیس میںایک افسوس ناک واقعہ نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک سیاہ فام نوجوان کو پولیس نے اس شک میں پکڑا کہ وہ بیس ڈالر کا جعلی نوٹ چلارہا تھا۔ پولیس والوں نے اس کو ہتھکڑی پہنادی اس ادھیڑ پن میں ایک پولیس مین نے اس سیاہ فام نوجوان جس کانام جارج فلائیڈ بتایا گیا زمین پر گراکر اس کو قابو کرنے کے لئے اپنا گھٹنا اس کی گردن پر رکھ دیا ۔جارج فلائیڈ نے دبی دبی آواز میں کہا میں سانس نہیں لے سکتا مگر وہ پولیس مین گھٹنے سے برابراس کی گردن دباتا رہا ۔یہ افسوسناک عمل آٹھ منٹ سے زیادہ دیر تک جاری رہا بالآخر جارج فلائیڈ دم توڑ گیا۔ اس تمام واقعے کی فوٹیج قریبی اسٹور کے کیمروں میں آرہی تھی۔ اسٹور کے ایک نوجوان نے ان فوٹیج کے ذریعہ ویڈیو بنا کر وائرل کردی۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ سیاہ فام نوجوانوں کے مشتعل جتھے توڑ پھوڑ میں مصروف ہوگئے اس رات دو درجن سپر مال لٹ گئے۔ درجنوں گاڑیاں نذر آتش ہوگئیں، بیشتر امریکی رہنماؤں کے مجسمے توڑ دیئے گئے پھر یہ احتجاج بڑھتا ہوا واشنگٹن تک جاپہنچا۔ پورے ملک کا نظام پہلے ہی کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے ابتر ہورہا تھا اس پر یہ مزید ہنگامے۔ احتجاج اور املاک کو نقصان پہنچانے کا عمل دوہری مصیبت بن گیا۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنی ترش طبیعت کے حو الے سے مشہور ہیں ملک کو فوج کے حوالے کرنے پرتل گئے۔ اس تمام واقعہ کی تحقیقات ہورہی ہیں اور ذمہ داران کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے۔
اس نوعیت کا نسلی فسادات کا واقعہ نہ پہلا ہے نہ آخری ہے۔ پولیس کی بربریت، نسل پرستی کے واقعات روز ہی نظر آتے ہیں۔ مگر اب اس سیاہ فام نوجوان کے آخری الفاظ ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ ضرب المثال بن گیا ہے یہ نعرہ امریکا کے ہر نوجوان کی زبان پر ہے۔
امریکا میں سیاہ فام افراد کی آمد کے ساتھ ہی نسل پرستی، غلامی کا رواج اور سیاہ فام افراد کے انسانی حقوق کی پامالی کی کہانی پرانی ہے۔ 1492ء میں کولمبس نے امریکا دریافت کیا۔ سولہویں صدی سے یورپی ممالک کی بڑی آبادی نے امریکا کا رخ کیا اور یہاں آکر آباد ہوئے ایسے میں کھیتی باڑی، تعمیراتی کام کے لئے وافر تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو افریقا نوزائیدہ یورپی نو آبادیات کے جرائم پیشہ افراد باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ معصوم افریقی عوام کو لالچ دے کر دھوکہ دے کر یا پھر اغوا کرکے جہازوں کے ذریعہ انہیں امریکا پہنچانے لگے۔
سینیگال سے ساڑھے سات لاکھ، سیرالیون سےچالیس لاکھ، بینسن سے دو لاکھ، سینٹرل افریقا سے سات لاکھ تیس ہزار ، جنوبی افریقا سے سوا پانچ لاکھ مرد، عورتیں اور بچے اغوا کرکے امریکا لائے گئے جن کو یہاں کے نوزائیدہ جاگیردار اور بردہ فروش خریدتے تھے۔ ان معصوم افریقیوں کو پانی کے جہازوں میں جانوروں کی طرح ٹھونسا جاتا تھا جس کی وجہ سے بیش تر افراد راستے میں ہی دم توڑ دیتے ان کو سمندر کے سپرد کردیا جاتا۔ بحر ہند کے افریقی ساحلوں کے علاقوں سے اغوا کرکےا نہیں ہندوستان، چین اور دیگر ممالک میں شاہوں، راجائوں اور نوابوں کے یہاں فروخت کیا جاتا تھا۔
1976ء میں الیکس ہالے نامی مصنف نے افریقی، سیاہ فام افراد کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر اور انسانیت سوز رویوں کا احاطہ کرتے ہوئے معروف کتاب ’’دی روٹس‘‘ تحریر کی اس کتاب کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں کہ کیا انسان اتنا ظالم، خودغرض اور بے حس ہوسکتا ہے۔
افریقا سے غلام بنا کر لانے والے زیادہ افراد کو امریکا کی جنوبی ریاستوں میں جہاں گیہوں، کپاس، دالوں، تمباکو اور دیگر اجناس کی کاشت ہوتی تھی کام پر لگایاجاتا تھا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنوبی ریاستوں میں عموماً گرمی کا موسم ہوتا تھا اس لئے افریقی یہاں بہتر محسوس کرتے تھے جبکہ امریکا کی شمالی ریاستوں میں سردی زیادہ پڑتی تھی اور برفباری بھی بہت ہوتی تو یہاں کے علاقوں میں یورپی تارکین وطن آرام کرتے تھےجو یورپ سے امریکا سولہویں صدی میں آنا شروع ہوچکے تھے، ان میں برطانوی، فرانسیسی، ہسپانوی، پرتگیزی اور دیگر شامل تھے ۔انیسویں صدی کے آخر تک یورپ کے ہر علاقے کے باشندے امریکا ہجرت کرکے آئے۔
امریکا آنے والے نوواردوں میں آپس میں کھنچاؤ رہتا تھا، لسانی تفریق زیادہ تھی کیونکہ برطانیہ کے علاوہ انگریز کا کہیں راج نہ تھا فرانسیسی کو اہم تصور کیا جاتا تھا تو سفید فام اقوام میں نسلی اور لسانی تعصبات موجود تھے جس پر امریکا میں شمال جنوب کی جنگیں بھی ہوئیں۔
جنوبی ریاستوں کی قوت کمزور کرنے کے لئے ابراہم لنکن نے سیاہ فام امریکیوں کو آزادی کا پروانہ دیا۔ اس حکمت عملی سے سیاہ فام افراد کی بڑی تعداد ابراہم لنکن کی حامی بن گئی اس سے صدر ابراہم لنکن کی طاقت میں بھی اضافہ ہوا اس لئے افریقی نژاد امریکی سیاہ فام صدر ابراہم لنکن کا احترام کرتے، مگر امریکا کی ترقی چمک دمک کے باوجود سیاہ فام امریکی غربت، پسماندگی اور انسانی حقوق سے محرومی کا شکار رہے۔ اس احساس محرومی سےمعروف انسانی حقوق کے علمبردار، سول رائٹس رضا کار مارٹن لوتھر کنگ نے نئی تحریک کو جنم دیا۔
ان کی تحریک پرامن رہی مگر انہیں بھی مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ جب ساٹھ کے عشرے میں مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک عروج پر تھی تو انہیں قتل کردیا گیا اس موقع پر مارٹن کنگ نے اپنی اہلیہ سے کہا، میرے خیالات کا پرچار کرتے رہنا، نوجوانوں میں مایوسی نہ پھیلنے دینا، تحریک ان ہی سے آگے بڑھے گی۔ مارٹن لوتھر کنگ کے بعد امریکی ریاست میناپولس ریاست کے شہید جارج فلائیڈ کے آخری الفاظ ’’مجھے سانس لینے دو‘‘ نوجوانوں کا نعرہ بن گئے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ فلائیڈ کے آخری دکھ بھرے الفاظ میں بھرپور معنویت ہے ، ان الفاظ میں انسانی حقوق کا پورا منشور سمٹا ہوا ہے۔ ایک مثبت نکتہ یہ بھی سامنے آیا کہ جارج فلائیڈ کی موت کا سفید فام عوام نے بھی بہت سوگ منایا ہے۔
ہر شہر ہر ریاست سمیت واشنگٹن میں بڑے مظاہرے ہوئے ۔ اگر غیر جانبداری سے امریکی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ ا ٓج امریکا کو ترقی کی جس منزل پر کھڑا کیا ہے اور چمک دمک دی ہے تو اس میں سفید فام امریکیوں کے برابر سیاہ فام امریکیوں کا بھی کردار ہے۔ درحقیقت سفید فام نسلی تعصب کے ابدی شکار ہیں۔ امریکی گوروں کو سیاہ فام امریکیوں سے شدید حسد ہے جو نسلی تعصب میں ظاہر ہوتی ہے وہ حسد یہ ہے کہ سیاہ فام امریکی سنجیدگی سے جس کا م میں ہاتھ ڈالتے ہیں نہ صرف اس کو پورا کرتے ہیں بلکہ عمدہ طریقہ سے کرتے ہیں مثلاً امریکا کے جتنے معروف کھیل ہیں ان میں ان ہی کا غلبہ ہے۔
میوزک انڈسٹری بہت وسیع ہےاس میں بھی نمایاں ہیں، کسی شعبہ میں ہاتھ ڈالا وہاں کامیاب ہوکر نکلے۔ امریکی سیاہ فام بتدریج اپنے کو تبدیل کررہے ہیں گزشتہ سال بچانوے فیصد امریکی سیاہ فام لڑکوں لڑکیوں نے ہائی اسکول پاس کیا، اب یہ میڈیکل، انجینئرنگ، قانونی، بینکاری میں نمایاں ہورہے ہیں۔ امریکا کی ترقی اور کامرانی کومدنظر رکھیں تو اس جدوجہد میں سیاہ فام امریکیوں کا حصہ نمایاں نظر آتا ہے۔ فوجی خدمات میں بھی یہ نمایاں ہیں،مگر امریکا میں کائو بوائے کلچر کو فروغ دے کر امریکیوں نے امریکا کے اصل باشندوں کو چن چن کر مارا۔ کائو بوائے کلچر کےساتھ ہی گن کلچر پروان چڑھا۔ اس کی تاریخ پرانی اور جڑیں گہری ہیں ۔کئی نسلیں گزرنے کے بعد یہ مزید مستحکم ہوگئی ہے۔
امریکی سول وار کے تقریباً ہر گھر میں آتشیں اسلحہ آگیا اب لوگ ہتھیار رکھنا اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ امریکامیں کھلے عام اسلحہ کی فراوانی نے بھی نسلی تعصب، گینگ وار اور دیگر جرائم کو فروغ دیا۔ بعض امریکی ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ سابق نوآبادیاتی دور پھر موجودہ جدید سرمایہ دارانہ دور نے امریکی معاشرے کو اجتماعیت سے انفرادیت میں بدل دیا ہے۔ اب ہر فرد اکیلا ہے۔ وہ اپنی انفرادیت پسندی پر یقین رکھتا ہے۔ امریکی نوجوانوں کو سکھایا جاتاہےکہ اب ا ٓپ اپنے ذمہ دار ہیں ،اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے، خود حفاظت کرنا ہے۔ اس طرح ہر فرد معاشرے میں رہتے ہوئے خود کو الگ تھلگ محسوس کرتا ہے۔
اس مزاج نے نوجوانوں کو چڑچڑا، ضدی اور خبطی بنادیا ہے وہ جو سوچتا ہے کر گزرتا ہے۔ اس طرح وہاں جرائم کا سلسلہ بڑھ گیاہے۔ نسلی تعصب ایک طرح سے گہری نفسیاتی بیماری بن چکی ہے۔ گورا اگر قصور وار ہے تو سیاہ فام اس کو سزا ضرور دیں گے ،بھلے وہ اس دنیا سے چلاجائے اسی طرح سفید فام امریکی بھی کسی سیاہ فام کو مارے بغیر نہیں چھوڑتے۔ماہرین سماجیات کہتےہیں امریکا میںامن قائم کرنے کے لئے سب سے پہلے گن کلچر پرپابندی لگائی جائے لیکن اسلحہ ساز فیکٹریاں اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ وہ اربوں ڈالر کا آتشیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں جس میں پستول سےلے کر AK47 تک شامل ہے اب مزید جدید اسلحہ ڈیزائن کیا جاتا ہے جو ڈیجیٹل اور آٹومیٹک ہے۔ اس اہم مسئلے پر امریکی حکومت کب توجہ دے گی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
نسلی تعصب، انسانوں کو غلام بنانے، ملکوں کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کے حوالے سے براعظم افریقا سب سے زیادہ بدنصیب خطہ رہاہے۔ سترھویں صدی سے یورپی نسل پرست جرائم پیشہ ٹولے افریقا کے مغربی ساحلوں پر اپنے ڈیرے جماتے گئے۔ معصوم افریقی باشندے ان کے آتشیں اسلحہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے زیادہ تر پرتگیزی سمندری قزاق یہاں سے ہر روز درجنوں افراد کو اغوا کرکے جہازوں میں قید کرکے سمندر پار لے جاتے، کوئی فرد مزاحمت کرتا تو اس کو فوری گولی مار دیتے تھے اسی طرح افریقی عورتوں کو اغوا کرلیا جاتا ان کو شمالی امریکا اور میکسیکو میں فروخت کیا جاتا۔ یہاں لکڑی کے تنگ پنجروں میں انہیں ٹھونس دیا جاتا تھا اگر کوئی بیمار ہوجاتایا یا کسی وجہ سےزخمی ہوجاتا اس کو بھی شوٹ کردیا جاتا۔
محتاط جائزے کے مطابق اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران یورپی نسل پرست بردہ فروشوںاور یورپی جرائم پیشہ گروپوں نے افریقی ممالک سینیگال سے ساڑھے سات لاکھ، سیرالیون سے چالیس لاکھ، بینسن سے دو لاکھ ستر ہزار، سینٹرل افریقا سے سات لاکھ اسی ہزار، جنوبی افریقا سے چھ لاکھ پنتیس ہزار، دیگر ساحلی علاقوں سے ساٹھ لاکھ افراد جن میں مرد اور عورتیں شامل تھیں جبراً اغوا کرکے شمالی امریکا اسمگل کیے۔ بحر ہند کےمشرقی ساحلی علاقوں سے یورپی بحری قزاق جہازوں کو لوٹنے کے علاوہ ہزاروں افراد کو اسمگل کرکے ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں فروخت کیا جاتا تھا۔
غلامی کا دور ساڑھے تین سو سال قبل مسیح میں بھی رائج تھا اس دور میں قاہرہ اور میسوپٹیما میں غلاموں کی بڑی منڈیاں لگتی تھیں۔ بحیرہ روم کے اطراف تمام ممالک میں غلاموں کی خریداری عام تھی۔ یونان، اسپارٹا اور روم میں غلاموں کی اکثریت آباد تھی۔ بعد ازاں بنوامیہ، بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ میں بھی غلاموں اور کنیزوں کی مانگ رہی ،البتہ اسلامی تعلیمات میں بڑی حد تک غلاموں کو رعایت دینے کی ہدایات شامل تھیں اور غلامی کو ختم کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
افریقا کی جدید تاریخ میں اٹھارہویں صدی میں افریقاکے جنوب میں ہیروں کی تلاش کی جستجو میں برطانوی، ولندیزی، پرتگیزی اور دیگر سفید فام نسل پرستوں نے پورے جنوبی افریقا کو اپنی کالونی بنا کر سفید فام نسل پرستوں نے اپنی حکومت بنالی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جنوبی افریقا کی لوٹی ہوئی دولت سے اپنے جدید شہر تعمیر کیے، ریلوے لائنیں بچھادیں، دوسرے لفظوں میں جنوبی افریقا یورپ کا حصہ دکھائی دیتا تھا،مگر افریقا کے سیاہ فام عوام پر عرصہ حیات تنگ تھا۔
نسل پرست حکومت نےسیاہ فاموں کو بدترین قوانین میں جکڑ دیا ان کے محلے الگ ،بس اسٹاپ الگ تھلگ، ان کے اسکول کالج اسپتال الگ ہوتے ہیں، سڑک الگ، فٹ پاتھ الگ، مارکیٹیں الگ، افریقی باشندے اپنے ملک میں ہونے پر بھی اجنبی تھے، نادم تھے، بے بس تھے۔ اگر کوئی سیاہ فام سفید فام کی گاڑی کے آگے آگیاتو وہ اس پرگاڑی چڑھادیتا اور سیاہ فام کو ہی قانو ن کی خلاف ورزی کامرتکب پایا جاتا۔
دوسری طرف سفید فام لوگوں کی زندگی شاہانہ طریقے سے گزرتی ہے، ہر کام سیاہ فام کرتے ہیں، انہیں سفید فام کے گھر کے پچھلے دروازے سے آنے اور جانے کی اجازت تھی،ذرا ذرا سی بات پر گورے سیاہ فام فردکو زدوکوب کئے بغیر باز نہیں آتے تھے، اس پر بھی بس نہیں کیا جب ہیروں کے علاوہ جنوبی افریقاکی کانوں نے سونا اگلنا شروع کیا تو نسل پرستوں کی مضبوط لالچی لابی اقتدار پر قابض ہوگئی ،جس میں برطانیہ اور ہالینڈ کے نسل پرست جو افریقن ایسٹ انڈیا کمپنی سے وابستہ تھے انہوں نے نسل پرستی کو فروغ دینے اور سیاہ فام باشندوں پر مزید عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے بدترین قوانین وضع کئے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سفید فام، افریقیوں سے خائف تھے۔
انیسویں صدی کی آخری دہائی میں جنوبی افریقا کا بہت بڑا قبیلہ زولو، گیارہ حصوں میں تقسیم تھا اور جنوبی افریقاکی مین لینڈ کے پہاڑوں میں آباد تھا۔ 1879ء میں سفید فام حکومت نے زولو قبیلہ کے سرداروں کو پیغام دیا کہ وہ سرینڈرکردیں اور ہتھیار رکھ دیں، مگر زولو سرداروں نے انکار کردیا جس کے نتیجے میں جنوبی افریقاکی سفید فام نسل پرست حکومت نےاپنے گھمنڈ میں فوج تیار کرلی اور زولو قبیلہ سے ٹکراگئے۔ جو تاریخ لکھی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اس لڑائی میں زولو قبیلے نے گوروں کو لوہے کے چنے چبوادیئے۔ سفید فام فوجیوں کو جان بچا کر بھاگنا پڑا ۔زولو قبیلے نے ان کا پیچھا کیا اور گورے فوجی جو بچے کچھے تھے وہ اپنے علاقے تک پہنچ پائے۔
مفرور سفید فام باشندوں کواس کی توقع نہ تھی کہ افریقی اس طرح لڑیں گے۔ نسل پرست حکومت نے زولو افراد کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا۔زولو لمبے چوڑے اسمارٹ صرف جانگیا پہنتے تھے ہر ایک کے پاس نیزہ، تیرکمان اور چابکدست گھوڑا ہوتا تھا۔ خود سفید فام گوروں نے اس کا اعتراف کیا ہے کسی اور لڑائی میں ہمیں اتنی ذلت نہیں اٹھانی پڑی جتنی زولو قبیلہ کی وجہ سےاٹھانی پڑی۔ اس حوالے سے معروف انگریز مصنف نے ناول ’’ دی ڈان آف زولو‘‘ جس پر فلم بھی بنائی گئی ہے مگر بعد میں رفتہ رفتہ انگریزوں نے زولو قبیلہ کی جنگ چھوڑ کر تمام علاقوں پر قبضہ کرلیا سیکورٹی کا نظام بھی قائم کرلیا۔
بیسویں صدی کے اوائل ہی سے جنوبی افریقا کے ہیرے اور سونا بہت شہرت حاصل کرچکا تھا۔ 1961ء میں نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھیوں نے افریقن نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔ کانگریس کامنشور سادہ تھا، آزادی اور خود مختاری۔ پارٹی پرامن جدوجہد کی حامی تھی۔ نیلسن منڈیلا نے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پرتحریک شروع کی مگر پھر بھی بائیس سال جیل کی شدید اذیتیں برداشت کیں۔ منڈیلا نے اپنے دوستوں کو جیل سے خط لکھے لیکن انہیں شائع نہیںکیاگیا کیونکہ عین خدشہ تھا خطوط پڑھ کر کہیںنوجوان اشتعال میںآجائیں گے اور تحریک میں تشدد کا عنصر داخل نہ ہوجائے۔
بائیس سال صبر آزمائی کے بعد جب نیلسن منڈیلاکو نسل پرست حکومت نے 1994ء میں رہا کیا تو جوہانسبرگ، ڈبلن اور دیگر شہروںمیں ہزاروں کا مجموعہ اکٹھا ہو گیاتھا اور نسل فام حکومت اس پر بہت خائف تھی، مگر ان ہزاروں نوجوانوں کو نیلسن منڈیلا نے اپنی تقریر سے قابو رکھا۔ ان کا مقصد آزادی اور خودمختاری تھی جب سفید فام نسل پرست حکومت نے آزادی کے پروانہ اور مختار نامہ پردستخط کئے تو پوری دنیا حیران رہ گئی ۔جنوبی افریقا کا مشتعل ہجوم ناچنے گانے لگا۔
نیلسن منڈیلا نے اقتدار سنبھال لیا یہ منڈیلا جیسے لیڈروں کا تدبر، مزاج ا ور حالات کی گہرائی پر نظر کانتیجہ ہوتاہے۔ یہ بڑے دل گردہ کی بات ہے کہ سفاک خود غرض ظالم اور جابرحکمرانوں کے ہزار ظلم و ستم سہتے ہوئے بھی معاف کردینا۔ یہ تھی نیلسن منڈیلا کی فراست۔ افریقا میں آج خود افریقی قبائلی نسلی، مذہبی، لسانی تعصبات کی وجہ سےایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں اور اپنے ہی لوگوں کا خون بہا رہے ہیں سر کاٹ رہے ہیں ان کے مکانات اور کھلیانوں کو آگ لگارہے ہیں۔
دنیا میں اب تک جتنے انسانی تعصبات، نفرتیں، ایک دوسرے کو کمتر سمجھنا اور غلام بنانا ان تمام ناپسندیدہ رویوںا ور اعمال میں سب سے زیادہ ظلم آرین قوم نے ہندوستان کے بھیل اور دراوڑ قوموں کےساتھ کیا ۔ ہندوستان میں آرین کی آمد سے پہلے چھوت چھات، نچلی ذات، بڑی ذات، کمتر اور برترکا وہ تصور نہ تھا جو صدیوں سے وہاں قائم ہے۔ اگر دنیا کی غلاموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو انہیں بھی کم از کم انسان کا درجہ تو حاصل ہےمگر ہندوستان برہمنیت نے دنیا کا سب سے بدترین نظام لاکھوں افراد پر لاگو کرکے ان کو ان کی زمینوں، شہروں، گائوں، عبادت گاہوں سے نہ صرف بے دخل کردیا بلکہ پورے سماج سے کاٹ کر پھینک دیا۔
انہیں برہمنوں کے مندروںمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں، کسی اور ذات والے کی کسی چیز کو چھونے کیاجازت نہیں۔ اگرکسی برہمن کو یہ محسوس ہوجائے کہ کسی اچھوت کا ہاتھ یا کپڑا اس سے چھوگیا ہےتو وہ ایک طوفان مچادیتا ہے، کپڑے تبدیل کرکے فوراً اشنان کرتا ہے ۔دس بیس منتر پڑھ کراپنے کو پاک کرتا اور اس اچھوت کی چمڑی ادھیڑ دیتا ہے۔ مندروں سے دور بھیک مانگنے والےا چھوتوں کو دور سے کھانا پھینک دیا جاتا ہے یا پھینک کر خیرات دی جاتی ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان میں قدم جمائے تو یہ سب کچھ دیکھ کران کی باچھیں کھل گئیں کہ ہم جو سلوک کالوں سے کرتے آئے ہیں وہ تو اس چھوت چھات کے آگے کچھ نہیں ہے۔ اچھوت عوام کی زندگی اجیرن رہی ۔قدیم دور سے تاحال شیڈول کاسٹ کے ساتھ شدید نسلی تعصب برتا جاتا ہے۔ برہمن ذات کو اونچی ذات مانا جاتا ہے اور اسی میں سے پنڈت اور استاد چناجاتا، برہمنوں نے اچھوتوں کی زمینیں چھین لیں، جھونپڑیاں جلادیں، ان کاکہنا ہے کہ یہ عذاب سہنے کے لئے پیدا کئے ہیں ان کو جتنا عذاب دو گے تمہیں اس کا ثواب ملے گا۔ ہندوستان میں مغل دور میں نچلے درجے کے کام سونپ دیئے جاتے تھے مگر جب انگریز ہندوستان آیا تو اس نے اچھوتوں کے حوالے سے کچھ ضابطہ تیار کئے لیکن تمام برہمن جاتی انگریزوں کے خلاف کھڑی ہوگئی انگریزوں کو وہ ضابطے واپس لینے پڑے۔
مسلمانوں کے دور میں انہیں کچھ آسرا ہوا ،ان میں سے بہت سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے، اس سے ان کی زندگی بدل گئی، مگر برہمنوں اور دیگر ہندوجاتیوں نے اچھوتوں کو مسلمان ہونے کے بعد مزید تنگ کرنا شروع کیا،مگر اچھوت کم تعدادمیں سہی مسلمان ہوتے رہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اس وقت مسلمان ملا جلا کر بیس کروڑ کے قریب ہیں۔
مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد سے بہت پہلے ہندوستان میں کاسٹ سسٹم جاری ہوچکا تھا ۔ہندو متعصب طبقے نے معاشرے میں نئی اختراع نکالی اور اس کو ہندو دھرم سے جوڑ کر کہ پرمیشور نے انسانوں کو چار خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ پہلا برہمن، دوسرا کشتری، تیسرا وشواس اور چوتھا شودر اچھوت۔
برہمن تمام مذہبی اور سماجی معاملات کا نگراں ہوگا، کشتری فوجی خدمات سرانجام دیں گے۔وشواس تجارت چلائیں گے اور شودر اچھوت معاشرے کے نچلے درجے کے کام سرانجام دیں گے ۔الگ بستیوںمیں رہیں گے انہیں مندر کے قریب آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یورپین مصنفین نے لکھا کہ نسلی تعصبات کے حوالے سے بہت کچھ پڑھا ، دیکھامگر ہندوستان میں انسان کو شودر بنا کر اس کی اس طرح تحقیر کہیں نہ دیکھی نہ سنی۔ درحقیقت ہندوجاتی یا سماج صرف شودر اچھوتوں سے نسلی تعصب نہیں کرتا ،مسلمانوںاور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے بھی ایسا ہی برتائو کرتاہے۔ وہ اپنے برتن کسی کو چھونے نہیںدیتا پھر مزید تعصبات ملاحظہ کیجئے۔
ہندوستان کے گائوں میں مختلف برادریاں ہیں ان کا آپس میں تعصب الگ ہے۔ ذات برادری، نسل کا تعصب الگ ہے، گائوں گائوں کا تعصب ہے۔ سیکڑوں کلچر ہیں جو کروڑوں دیوی دیوتائوں کو پوجتے ہیں۔ تب بھلا دھرم یا مذہب کہاں رہا۔ ثقافتیں ہیں جو صدیوں سے اپنے اطوار پر قائم ہیں اس لئے ہر طرف بھگوان ہی بھگوان ہیں۔ پتھر کی مورتی کو تو چومتے ہیں مگر انسان کو حقیر اور ذلیل کرتے ہیں بلاشبہ ہندو سماج کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ مذہب کی کوئی حقیقی منطق یہ صرف نسلی تعصب اور جاتیوں کے الجھائو میں الجھا ہے۔