• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
بیشتر قارئین جان لیوا بیماری ’’کووڈ19‘‘ کی حقیقت تسلیم کرنے پر دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جب دنیا اس پریشانی سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی طرف چل پڑی تھی تو ہم برطانوی، پاکستانی، کشمیری کمیونٹی کے درمیان اس معاملہ پر بحث تک نہ ہوئی، جیسا کہ ہم ’’کووڈ‘‘ پروف ہجوم ہوں۔ معتبر انگریزی اخبارات میں سے اکثریت شروع ہی سے کہہ رہی کہ لاک ڈائون کرنے میں دیر ہوگئی اور اموات کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے اور ایسے لوگ جن کو یہ بیماری لگ چکی ہے کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد لاک ڈائون کو نرم کرنے کے مختلف مراحل طے کرنے میں ہرگز جلدی نہ کی جائےکیونکہ ملک ابھی کورونا کی گرفت میں ہے۔ چار ہزار سے زائد اموات اور کئی ہزار انفیکٹڈ کی وجہ سے پچھلے چھ ماہ کے بیشتر اخبارات کی لیڈ اسٹوریز اس بیماری سے جڑی ہوئی ہیں۔ جب اٹلی، اسپین اور چین میں اموات کی شرح انتہائی عروج پر تھی تب کہیں ہم میں سے بھی آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں کہ حفاظتی تدابیر کی طرف بڑھنا اچھا قدم ہے۔ ایک مضبوط طبقہ جس میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، روز اول سے بضد ہے کہ یہ ایک زکام ہے، جو پیرا سیٹامول، شہد اور ایک دو دوسری دیسی دوائیاں کھانے سے ختم کیا جاسکتا ہے، ہم میں سے کسی کو ہسپتال نہیں جانا چاہیے، کیونکہ وہاں سے کوئی زندہ واپس نہیں آتا۔ ہماری سیاسی اور سماجی اشرافیہ بھی اسی رویہ کا حصہ بن گئی۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ہم میں سے پڑھے لکھے لوگوں کا ایک بڑا حصہ بھی اس مائنڈ سیٹ کا حصہ بن چکا ہے، جسے ایک قسم کی انتہائی پسندی کہا جاسکتا ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے مگر علاج معالجے کی ہدایت ہمارا دین بھی کرتا ہے اور ہمارا سماج بھی۔ میرے اپنے شہر لوٹن میں ’’کووڈ‘‘ اموات ایک سو سے تجاوز کرگئی ہیں اور اکثریت ایسی اموات کی ہے جو رہائش گاہوں پر ہوئیں، کئی جو بیمار ہوئے اور ہسپتال گئے، صحت یاب ہوگئے، ہر بیماری سے نمٹنے کے لیےجہاں دعائوں کی ضرورت ہے وہاں علاج کی ضرورت بھی اہم ہے۔ جب تک ہمارے یہ دونوں عمل مل کر چلتے رہیں گے، لوگ صحت یاب گھر لوٹتے رہیں گے، ہمارے درمیان یہ منفی مائنڈ کس طرح اتنا زور پکڑ گیا؟ کیونکہ عقل و فہم والوں نے مباحثہ میں حصہ لینا بند کردیا۔ تمام اہم اخبارات کی اہم خبروں کا ٹریک رکھنا ایک مشکل عمل ہے۔ صرف The Times اور The Sunday Times کی پچھلے ہفتہ کی اہم خبروں کا ہی اگر ہم جائزہ لیں تو اعداد و شمار کی بدولت دونوں اخبارات اپنی تصاویر اور تجزیوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈائون صورت حال سے زیادہ سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تقریباً چھ ماہ گھروں میں بند رہنے کے بعد جوں ہی لاک ڈائون نرم ہوا نوجوانوں نے ساحل سمندر شہروں کا رخ کرلیا اور پانی میں اچھل کود اور سیرو تفریح شروع کردی۔ ان تمام مقامات پر اقلیتی طبقات کے بھی لوگ نظر آئے، مگر اکثریت انگریزوں کی تھی۔ ابتدائی دنوں میں حکومتی بیانات کو لوگوں نے اہمیت دیتے ہوئے ان پر عمل کیا اور بھاری اکثریت اپنے گھروں میں مقید رہنے پر تیار ہوگئی اور ان ہی وجوہات کی بنا پر ہی لاک ڈائون کم ہوا اور شرح اموات میں بھی کمی آئی۔ اگلے چند دنوں میں لاک ڈائون مزید نرم کیا جارہا ہے اور جس طرح کا ماحول جس میںSocial Distanceکو اکچر عوام نے بھلا دیا ہے گیا ہے نوجوان بغیر کسی پروا کے آپس میں گھل مل رہے ہیں، ہر کوئی جو چاہے کرنے کا تاثر دے رہا ہے، یہ ایسی وہ نشانیاں ہیں جو ’’کووڈ‘‘ انفیکشن کو بڑھانے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ اس سنیاریو کی دو تفصیلات The Time میں موجود ہیں۔ ان ہی اخبارات میں پہلی بار حکومتی اور کونسل شخصیات کے درمیان اختلافات کی خبریں چھپی ہیں۔ حکومت لاک ڈائون مزید نرم کرنے کا فیصلہ چاہتی ہے مگرلیسٹر کے میئر اس کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ نیشنل لاک ڈائون مزید دو ہفتے جاری رہے، وہ اس وجہ سے بھی ناراض ہیں کہ لیسٹر شہر میں ایک بار پھر لاک ڈائون لگا دیا گیا ہے۔ کیونکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس شہر میں اموات بڑھ رہی ہیں اور مذبحہ خانوںAbetirsجو لیسٹر میں کئی ہیں میں صفائی، ستھرائی کے انتطامات تسلی بخش نہیں ہیں اور ان تمام انتظامات کو مکمل اور درست کرنے میں وقت لگے گا اس لیے اس نیشنل لاک ڈائون کی ضرورت ہے، جو اب باضابطہ طور پر نافذ کردیا گیا ہے۔ گورنمنٹ اس وقت تمام اداروں سے اس بیماری کے حوالہ سے تعاون مانگ رہی ہے اور ایسا ہی ایک ماہرین پر مشتمل گروپ جس پر حکومت زیادہ انحصار کرتی ہےSageکے نام سے پہچانا جاتا ہے، جس میں ملک کے بہترین سائنسی دماغ موجود ہیں۔ اس گروپ کے ایک اہم رکن سرجرمی فرار کے مطابق کیونکہ نرمیاں مئی کے آخر سے سامنے آلسی شروع ہوگئی تھیں، اس لیے وہ جون کے آخر اور جولائی کے پہلے ہفتہ میں ’’کووڈ‘‘ کیسز میں اضافہ ہوتا دیکھ رہے ہیں اور یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے، جسے دیکھتے ہوئے پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ آنے والے ہفتوں میں ان کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اسی مرض سے جڑی فیلڈ میں کئی دوسری آوازیں بھی لاک ڈائون کو جس تیزی سے اٹھایا جارہا ہے یہ اپنے تحفظات کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
تازہ ترین