مصطفیٰ کمال کے طرزِ سیاست سے میں نے کبھی اپنے آپ کو متفق نہیں پایا لیکن اس کے باوجود وہ سگے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور رہیں گے۔ کچھ بھی کر لیں، میرے دل میں ان کی قدر کم اس لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ میں ان کے بڑے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوں۔
وہ احسان انہوں نے اس عاجز پر اعتماد کی صورت میں کیا اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ 2012ء میں جب وہ ایم کیو ایم کے اندر الطاف حسین کے بعد دوسرے اہم رہنما سمجھے جاتے تھے تو اس وقت انہوں نے مجھے الطاف حسین کے بعض تباہ کن ارادوں سے آگاہ کیا۔
انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا کیونکہ اگر اس وقت میں کسی بھی انسان سے اس کا تذکرہ کرتا تو خاکم بدہن پارٹی کے ساتھ ساتھ دنیا سے بھی ان کی رخصتی یقینی تھی کیونکہ تب الطاف حسین اس زعم میں مبتلا تھے کہ ان کے سوا کوئی چوائس نہیں اور کراچی کی حد تک ہر چوائس ان کے ہاتھ میں تھی۔ تب اے این پی سے جنگ زوروں پر تھی۔
روزانہ دس بارہ لاشیں گرتی تھیں لیکن اس پر اکتفا کرنے کے بجائے الطاف حسین نے منصوبہ بنایا کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل مہاجر ووٹ کو سمیٹنے کیلئے پختونوں کے ساتھ ان کو لڑا کر چند ہزار لاشیں گرائی جائیں تاکہ جذباتی ماحول بنا کر پورے مہاجر ووٹ کو سمیٹا جائے۔
مصطفیٰ کمال اس وقت فیصل سبزواری اور چند دیگر قابل اعتماد بندوں کے ساتھ مل کر پارٹی کے اندر بیچ بچائو کر رہے تھے کہ خونریزی کا راستہ روکا جائے جبکہ مجھے اعتماد میں لیکر مصطفیٰ بھائی نے اے این پی کی قیادت کو متنبہ کرنے اور سمجھانے کا کہا۔
اب میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں اسفند یار ولی خان اور شاہی سید کو اپنا سورس بھی نہیں بتا سکتا تھا اور دوسری طرف ان کو اس بات پر قائل بھی کرنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے ساتھ تنائو میں کمی لائیں تاکہ خونریزی نہ ہو۔ اس کوشش میں ایک روز اے این پی کے سینیٹر عبدالنبی بنگش سے مصطفیٰ بھائی کی خفیہ ملاقات بھی کرائی۔
بہرحال اللہ نے یہ سرخروئی نصیب کی کہ ہم اس وقت دونوں پارٹیوں کے تنائو کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے اور یوں الطاف حسین کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ پھر جب الیکشن ہوئے اور پی ٹی آئی نے تین تلوار پر دھرنا دیا تو اس پر حملہ کرا کے ایک بار پھر خونریزی کا منصوبہ بنایا۔ ایک بار پھر مصطفیٰ بھائی نے اس ناچیز پر اعتماد کرکے آگاہ کیا۔
چنانچہ میں نے پی ٹی آئی کے اندر کچھ دوستوں تک یہ پیغام ان کا ذکر کیے بغیر پہنچا دیا۔ 2012ء میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں مجھے لندن جانا پڑا تو وہاں الطاف حسین نے مجھے پختون مہاجر ایشو پر گپ شپ کرنے کیلئے ظہرانے پر بلایا۔ میری دلچسپی یوں بھی زیادہ تھی کہ میں مصطفیٰ بھائی کی اطلاعات اور کراچی میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں براہِ راست الطاف حسین کے ارادوں کو سمجھنا چاہ رہا تھا۔
ظہرانے پر میں تین اور دوستوں (بی بی سی کے زاہد خان، عادل شاہ زیب جو اس وقت بی بی سی میں تھے اور میرویس افغان) کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ اس ملاقات میں ہم نے محسوس کیا کہ الطاف حسین کی نہ صرف صحت بہت خراب ہے بلکہ ذہن بھی کافی متاثر ہوا ہے۔ واپس آکر میں نے ازراہِ مذاق مصطفیٰ کمال سے کہا کہ بھائی! آپ کے لیڈر کی حالت تو بہت خراب ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں مر نہ جائیں۔
جواب میں مصطفیٰ کمال نے کہا کہ سلیم بھائی انہیں کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے دوبارہ ان سے کہا کہ یار واقعی مجھے تو ان کی حالت بڑی تشویشناک لگی ہے، تو مصطفیٰ بھائی نے ذرا غصے کے انداز میں کہا کہ طبیعت جتنی بھی خراب ہو لیکن وہ زندہ رہیں گے، انہیں کچھ نہیں ہوگا۔
عرض کیا کہ آخر وہ کس بنیاد پر اتنے اعتماد کے ساتھ یہ بات کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سلیم بھائی! الطاف حسین نے انسانیت کی جو توہین کی ہے، اس کا عشر عشیر بھی آپ لوگوں کو معلوم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ کتنے لوگوں کی جانوں اور عزتوں سے کھیلے ہیں اور یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے کہ اس طرح کے انسان کو ایکسپوز اور رسوا کئے بغیر عزت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت کر دے۔
آج جب میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ مصطفیٰ کمال نے تو بالکل اولیاء اللہ جیسی کمال کی بات کی تھی۔ چند سالوں میں اللہ نے ہمیں دکھا دیا کہ وہ شخص جس کے بغیر کوئی چوائس نہیں تھی، اس پوزیشن میں آگیا کہ مہاجروں کی قیادت کیلئے ہر کوئی چوائس ہو سکتا ہے لیکن وہ نہیں۔ ان سے گالیاں کھا کر بھی ہر کیس میں ان کی وکالت کرنے والے فروغ نسیم آج عمران خان کے وکیل بن گئے ہیں۔
وہ پاکستانی میڈیا جو ان کے خوف سے کانپتا اور ان کے اشارہ ابرو کے مطابق چلتا تھا، اس میں ان کی تصویر دکھانا جرم قرار پایا۔ ایم کیو ایم کے وہ رہنما جو ان کی خوشنودی کیلئے چوبیس گھنٹے شہباز گل اور فیاض چوہان بن کر کبھی ایک تو کبھی دوسرے کی عزت پر حملہ آور ہوتے تھے، آج ان کو Ownنہیں کر سکتے۔
مصطفیٰ کمال تو کافی عرصہ سے لگے تھے لیکن آج محمد انور جیسے لوگ بھی ان کے خلاف گواہیاں دینے لگے اور دس سال تڑپنے کے بعد ڈاکٹر عمران فاروق کی مظلوم اہلیہ کو بھی انصاف ملنے لگا ہے۔ عمران فاروق کا قتل تو ایک طرف ان کی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا، وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ لندن میں ان کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جاتی تھی۔ اتفاق سے ان کا تعلق پختونخوا سے تھا چنانچہ ایک دن فون کرکے انہوں نے مجھے صورتحال سے آگاہ کیا۔
میں نے لندن میں ایک دوست کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ عمران فاروق کی اہلیہ سے بات کریں کہ میرے ایک دوست ان کو کسی اور ملک منتقل کرنے اور خرچہ اٹھانے کو تیار ہیں لیکن ان کی نگرانی اتنی سخت تھی اور انہیں اتنا ڈرا دیا گیا تھا کہ اپنے بچوں کی زندگی کی خاطر مجھ جیسے کسی بندے کے ساتھ رابطہ کرنے پر تیار نہ ہوئیں۔ اب تو پتا چلا کہ ولی خان بابر کو بھی اس بنیاد پر قتل کیا گیا کہ اس مظلوم خاتون کا انٹرویو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہرحال آج وہ وقت آگیا کہ اس مظلوم خاتون کی زبان بھی کھل گئی۔
الطاف حسین کا انجام ان لوگوں کیلئے سبق ہے جو آج صاحبِ اختیار ہیں اور طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر دوسروں کی عزتوں یا زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ الطاف حسین کے اس انجام کو دیکھ کر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میرے سوا کوئی چوائس نہیں حالانکہ اللہ جس کو طاقت دیتا ہے۔
وہ اس طاقت کو انسانیت کی خدمت کے بجائے اس کی تذلیل کیلئے استعمال کرتا ہے تو پھر مزید طاقت اور مہلت دیکر اصلاً اس کی اصلیت کو سامنے لاتا ہے۔ وہ رب کائنات ہے، سلیکٹر نہیں اور اس کے پاس چوائسز کی کوئی کمی نہیں۔