سند ھ اورپنجاب کی سرحد پر واقع، ضلع گھوٹکی کی تحصیل ، اوباڑو میں خواتین کے لیے سوائے کھیتی باڑی کے اور کوئی ذریعۂ معاش نہ تھا۔ غربت کے با وجود یہاں کی خواتین گھر سے باہر نکل کر محنت مشقّت کرنے کو اچھا نہیں سمجھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھوٹکی کے ایک باسی، اشرف علی ملک نے اپنے بیوی بچّوں کو رلّی بنانے کا ہنر سکھایا، تاکہ وہ گھر بیٹھے پیسے کما سکیں ۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہےکہ یہ سلسلہ یہیں نہیں رُکا کہ اشرف کے گھر والوں نے محلّے کی دیگر خواتین کو بھی رلّی بنانے کا ہنر سکھایا، جس کی بدولت آج ایک سو پچاس سے زائد خاندانوں کی خواتین گھر بیٹھے اپنے خاندانوں کی کفالت میں ہاتھ بٹا رہی ہیں اور اپنے بچّوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔ معاشرے میں پھیلی برائیوں کا ذکرتو سب ہی کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج بھی ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں، جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی بھلائی کاسوچتے ہیں، جیسے اشرف علی اور اُس کے اہلِ خانہ نے سوچا۔
اس حوالے سے اشرف علی ملک کا کہنا ہے کہ ’’مجھے رلّی بنانے کا خیال سندھ کے علاقے قمبراورٹھری سےآیا۔ ابتدامیں صرف چند خواتین کو رلّی بنانی سکھائی، جس میں کافی کپڑا بھی خراب ہوا، مگر میری دلی خواہش تھی کہ میرے گھر اور علاقے کی خواتین کسی طرح کوئی ہنر سیکھ کر اپنے پیروں پہ کھڑی ہو جائیں اور آج مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آدھا شہر اس ہنر سے آشنا ہو چُکا ہے۔ گھوٹکی کی زیادہ تر خواتین گھر بیٹھے رلّیاں بناتی اور بازار میں فروخت کے لیے بھیجتی ہیں۔ جب کہ بعض خواتین تو اب بازار میں رلّیاں فروخت کرنے بھی خود ہی جاتی ہیں۔
ہمارے شہر کی خواتین انتہائی محنتی اور قابل ہیں۔ انہوںنے فٹ بالز بنانے کا کام بھی کیا ہے، لیکن اس میں وقت اور مشقّت زیادہ لگتی ہے، تو وہ چاہتی تھیں کہ کوئی ایسا کام کریں، جو نسبتاً آسان ہو۔آج میرے لیے یہ امرانتہائی فخر وسکون کا باعث ہے کہ وہ افراد جن کے گھر بمشکل ایک وقت کا کھانا بنتا تھا ، اس ہنر کی وجہ سے اب تین وقت پیٹ بھر کےکھانا کھاتے ہیں۔ اوراسی کام سے پیسے جوڑ جوڑ کر بہت سی ماؤں نے اپنی بیٹیوں کا جہیز جمع کیا ہے۔‘‘ اشرف علی نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’ عام طور پر یہاں جو رلّیاں بنائی جاتی ہیں، ان میں ٹکا رلی،ٹکری رلّی، 27 پھول رلّی، 15 پھول رلّی، 60گری رلّی، کھجی ، جلیبی، لونج،ادلی ڈبل پھول رلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ جن کا ہول سیل ریٹ 280روپے اور مارکیٹ ریٹ 350سے 400روپے تک ہے۔ جب ان رلیوں کو دُور دراز علاقوں میں بھیجا جاتا ہے تو 500 روپے تک میں بھی فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کام خواتین گروپ کی صُورت بھی کرتی ہیں، جس کے انہیں فی رلّی کٹائی کےدس روپے، پھول بنوائی کےچالیس سے پچاس روپے،جڑائی کےبیس روپے تک دئیے جاتے ہیں۔ اس طرح پندرہ پھول والی ایک رلّی جلد تیا ر ہوجاتی ہے۔
اس قِسم کی رلّی کی تیاری میں قریباً 300روپے تک کی لاگت آتی ہے۔ یوں، فی خاتون ماہانہ 4500سے 10,000 روپے تک کما لیتی ہے۔پہلے تو رلیاںصرف ہاتھ ہی سے بنائی جاتی تھیں، لیکن اب مشینوں پر بھی تیّار کی جاتی ہیں۔ یاد رہے،ہاتھ سے بنی رلّی کی قیمت 750روپے سے 20,000روپے تک ہے۔یہاں مہر قبیلے سے تعلق رکھنے والی خواتین ایک خاص قِسم کی رلّی بھی بناتی ہیں، جسے باریک ٹانکا ،ریگستانی رلّی کہا جاتا ہے، جو لگ بھگ دو ماہ میں تیار ہوتی ہے۔ اس کی لائننگ جسے ’’تل ‘‘کہا جاتا ہے، علیحدہ لگائی جاتی ہے اور اس پر باریک سلائی کی جاتی ہے۔ سائیڈ میں کنگری، موتی ، ستارے اور پُھندے لگائے جاتے ہیں۔
عام طور پر یہ رلیاں گردو نواح کے علاقوں، جیسے بخشا پور، راجن پور، رجھان، عمر کوٹ وغیرہ ہی میں فروخت کی جاتی ہیں، مگر بدقسمتی سے حکومتی سطح پر اس کام کی بالکل سرپرستی نہیں کی جارہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہنوزرلیاں بنانے کا کام عروج حاصل نہیں کرپایا۔ اگر حکومت اس کام کی قومی و بین الاقوامی سطح پرپذیرائی کرے ، تو نہ صرف اس پیشےسے وابستہ خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوسکتی ہیں، بلکہ مڈل مین سمیت خود حکومت کو بھی بھر پور فائدہ ہوگا۔
نیز، اس طرح بے روزگاری میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے، کیو ں کہ اس ہنر کو سیکھنے کے لیے کسی اسکول جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی بھاری سرمایہ لگانے کی۔ آج کے دَور میں بڑھتی ہوئی منہگائی اور غربت کے پیشِ نظر ہر گھر میں خواتین کا کام کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ رلیاں بنانے کے علاوہ گھوٹکی میں خواتین تسبیح کے دانے پرو کر فی کس تسبیح کے حساب سے بھی اجرت حاصل کررہی ہیں ۔یہ تسبیحاں ٹرکوں کے ذریعے کراچی اور پھر سعودی عرب تک فروخت ہوتی ہیں ۔ اسی طرح مختلف علاقہ مکین گھروں میں روٹیاں لپیٹنے والے رومال اور ٹریکٹروں پر لگنے والی رنگ برنگی جھالریں تیار کرکے بھی گزر بسر کر رہے ہیں۔ ‘‘
اسی طرح کموں شہید کے علاقے کے بہت لوگ کھسّے بناکر فروخت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں کموں شہید کے ایک رہایشی ، اقبال چاچڑجن کا خاندان کھّے بنانے کے فن سے وابستہ ہے کا کہنا ہے کہ’’ ایک کھسّا بنانے میں تین خواتین اور دو مَردوں کی محنت شامل ہوتی ہے ۔ اس کی تیاری میں 250 روپے سے400 روپے تک کی لاگت آتی ہے، مگر منافع بہت کم ملتا ہے۔ اگر ان کھسّوں کی بین الاقوامی سطح پر نمایش کی کوئی صُورت بن جائے تو ممکن ہے ،غیر ملکی اس کی اچھی قیمت ادا کر سکیں ۔ ‘‘اسی حوالے سے سندھ رورل سپورٹ پروگرام کے ڈسٹرکٹ آفیسر، عاشق کلوڑ کا کہنا ہے کہ’’ ہم دیہی علاقوں کی خواتین کی ترقّی اور انہیں مالی امداد کے ساتھ روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں ہر پَل کوشاں ہیں۔
ہم نے کموں شہید کی رہایشی، تین خواتین کو کھسّے بنانے کا کام شروع کرنے کے لیے فی کس پچیس ہزار روپے تک اضافی رقم دی ،تاکہ وہ اپنے پَیروں پر کھڑی ہو سکیںکیوں کہ دیکھا گیا ہے مَردوں کے مقابلےمیں خواتین اچھی ا یڈ منسٹر یٹر اوروقت کی پابند ہوتی ہیں پھر یونین کاؤنسل کی سطح پر بھی پاورٹی ریڈکشن پروگرام کے تحت نمایا ں کام کیا جارہا ہے۔‘‘ اس ضمن میںحوّا فاؤنڈیشن کے رہنما ،حافظ منظور احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہم مائیکرو کریڈٹ کے تحت آسان شرائط اور بیس فی صد سالانہ اضافی چارجزکی بنیاد پر خواتین کو 20,000 ہزارسے 50,000 ہزارروپے تک قرض دیتے ہیں۔
دیہی علاقوںکی اکثر خواتین گھروں میں مال مویشی پال کر،رنگ برنگی جھالریں یارلیاں وغیرہ بنا کراپنا گزر بسر کررہی اور قرض بھی اُتار رہی ہیں۔‘‘ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ،سوشل ویلفئر ڈیپارٹمنٹ ،گھوٹکی، خیر محمّد کلوڑ کے مطابق ’’حکومتِ سندھ نےسندھ اسمبلی میں2019ء میں قانون منظور کیا تھا کہ گھروں میں یا باہر کام کرنے والے مزدوروں(مرد و خواتین) کی کم از کم اجرت لازماً 7500 روپے ہوگی۔‘‘اس حوالے سے بات کرتے ہوئے روشنی ترقیاتی تنظیم کے جنرل سیکریٹری، راجا مجیب کا کہنا ہے کہ ’’ حکومتِ سندھ نے یہ قانون صرف خانہ پُری کے لیے بنایا ہے کہ کہیں نافذالعمل ہوتاتو دِکھائی نہیں دیا۔‘‘ جب کہ ڈپٹی کمشنر گھوٹکی ،کیپٹن( ر )خالد سلیم کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کی جانب سے ضلعی سطح پر تو ہوم بیسڈ ورکرز کے متعلق کوئی پالیسی یا ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔
تاہم، سندھ رورل سپورٹ پروگرام کے تحت خواتین کو گھروں سےکام کرنے کے لیے تربیتی پروگرام اور مالی امداد فراہم کرنے کاایک طریقۂ کار ضرور بنایا گیا تھا،مگر اب وہ بھی لاک ڈاؤن کی صورتِ حال کے باعث تعطّل کا شکار ہے۔‘‘ اس حوالے سے سابق صوبائی وزیر،ڈاکٹر جام مہتاب حُسین ڈہر کا کہنا ہے کہ ’’حکومت نے ماہانہ اجرت میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے۔ نیز، مختلف تنظیموں کی مدد سے گھر بیٹھے کام کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی نمایاں اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ شہری علاقوں میں خواتین نے گھروں میں چھوٹی چھوٹی دُکانیں کھولی ہوئی ہیں۔ تاہم، اس کے باوجود ہوم بیسڈورکرز کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ بھی مَردوں کے شانہ بشانہ کام کرکےمعاشی طور پر مستحکم و خود مختار ہو سکیں ۔‘‘