فلم اور ادب کا تعلق دیرینہ اور گہرا ہے۔ دُنیا بھر کی طرح برِصغیر کی فلموں کی تخلیق میں شاعروں اور ادیبوں نے ہر عہد میں اپنا حصہ ڈالا۔ کبھی کہانی کار یا مکالمہ نگار کی حیثیت سے، تو کبھی گیت نگار، ہدایت کار یا پروڈیوسر کے طور! کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، فیض احمد فیض، احمد فراز، حبیب جالب، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، منو بھائی اور امجد اسلام امجد جیسے معتبر نام اس ضمن میں بہترین حوالے ہیں۔ فلم میکرز نے بھی فلم اور ادب کے مراسم کو مزید گہرا اور مضبوط بنانے کے لیے اپنی کہانی کے ہیرو کو کبھی شاعر، کبھی افسانہ نگار اور کبھی ناول نویس کے روپ میں پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ بعض نامور شعراء اور ادیبوں کی زندگی کو بھی فلم کے کینوس پر سجا کر پیش کیا گیا۔ 1968ء میں ہدایت کار بابا قلندر نے فلم ’’زندگی‘‘ بنائی تو کہانی کا ہیرو طارق عزیز (مرحوم) کو ایک نامور لیکن غریب شاعر جمیل کے روپ میں پیش کیا۔
فلم کے روایتی ہیرو خوبرو شکیل تھے۔ فلم کی کہانی کچھ یُوں تھی کہ طارق عزیز جس لڑکی (غزالہ) سے محبت کرتے ہیں، وہ انہی کے دوست شکیل کی شریک حیات بن جاتی ہے۔ اپنی اس محرومی اور دُکھ کو وہ نغمات کی صورت میں بیان کرتے ہیں، چوں کہ وہ دِل کے عارضے میں بھی مبتلا ہوتےہیں، لہٰذا کمزور اور شکستہ دل محبت کی شکست کی تاب نہ لاتے ہوئے جمیل کی سانسوں سے اپنا ربط قائم نہیں رکھ پاتا اور یُوں غریب شاعر محرومی محبت کی خلش لیے منوں مٹی تلے دفن ہوجاتا ہے۔ طارق عزیز نے ایک آشفتہ حال شاعر کے کردار کو نہایت خُوب صورتی سے نبھایا تھا۔ احمد رشدی کا گایا ہوا گیت
’’جی نہ سکوں گا لو یہ کہہ دیا دل سے بھلایا میرا پیار کیوں‘‘
جو طارق عزیز پر فلم بند ہوا، ایک شاعر کی محرومیوں کا نوحہ اور محبوبہ کی جانب سے مسترد کیے جانے کا شکوہ تھا۔ یہ گیت اپنے وقت میں خاصا مقبول ہوا۔ ’’زندگی‘‘ کے خُوب صورت نغمات سلیم کاشر نے تخلیق کیے تھے، جبکہ انہیں دل کش دھنوں سے آراستہ ماسٹر عبداللہ نے کیا تھا ۔ تاہم ایک بہتر فلم ہونے کے باوجود ’’زندگی‘‘ باکس آفس پر رنگ نہ جما سکی۔
1969ء میں ہدایت کار احتشام نے فلم ’’داغ‘‘ بنائی تو اس کی کہانی کا ہیرو ارشد (ندیم) ایک غریب شاعر تھا، جو اپنے مجموعہ کلام کی اشاعت کی خواہش تو رکھتا ہے، لیکن اتنی مالی استعداد نہیں ہوتی کہ اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کرے۔ یہی غربت اور تنگدستی اس شاعر بے نواء کی محبت کے حصول میں بھی آڑے آتی ہے اور اس کی بچپن کی منگیتر شباب (شبانہ) کا باپ جمیل افغانی ایک غریب، مفلوک الحال شاعر سے اپنی بیٹی کو منسوب کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ یہ شاعر اپنے دُکھوں اور محرومیوں کو اپنے شعروں میں یوں بیان کرتا ہے۔
’’کچھ دیر میرے غم کو محسوس کرکے دیکھے
اس راہ بے کسی سے کوئی گزر کے دیکھے
سائے میں آنسوئوں کے ہم کیسے مسکرائیں
نغمے جو کھو گئے ہیں ان کو کہاں سے لائیں‘‘ لیجنڈری ہیرو ندیم نے ایک بے کس و غریب شاعر کا کردار بہ خوبی نبھایا۔ مجموعی طور پر ’’داغ‘‘ بہت عمدہ شاعری اور علی حسین اور روبن گھوش کے دل کش موسیقی میں گندھی ہوئی قابل دید فلم تھی، لیکن خلاف توقع کام یابی سے محروم رہی۔
پرویز ملک کی 1970ء کی ریلیز ’’سوغات‘‘ بھی ایک غریب شاعر کی بے کسی کا ’’نوحہ‘‘ تھی، جس میں شاعر کی تمثیل ایک بار پھر ندیم کے حصے میں آئی۔ ’’سوغات‘‘ کی کہانی میں دنیائے ادب کا ایک تاریک پہلو بھی بے نقاب کیا گیا کہ کس طرح ایک سرمایہ دار کا بیٹا جو جعلی شاعر ہے، وہ اپنی دولت سے ایک غریب شاعر کی مجبوریاں خریدتا ہے اور اس کی شعری تخلیقات کا استحصال کرکے ان پر اپنے نام کا لیبل لگاتا ہے، لیکن جھوٹ کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے اور اہالیان ادب بالآخر اس حقیقت سے آشنا ہو ہی جاتے ہیں کہ سرمایہ دار پرنٹر کا بیٹا مسعود اختر ایک جعلی شاعر ہے اور وہ ندیم کی غزلوں کو مشاعروں میں اپنے نام سے پڑھتا رہا ہے۔ ’’سوغات‘‘ کے لیے مسرور انور نے جس قدر خُوب صورت اسکرپٹ تحریر کیا، اسی عمدگی سے پرویز ملک نے اسے ٹریٹمنٹ دیا اور فلم کی دل کشی کو اعلیٰ شاعری، سہیل رعنا کی مسحورکن دُھنوں، احمد رشدی، مسعود رانا، مجیب عالم اور رونا لیلیٰ کی گائیکی نے مزید بڑھا دیا، جب کہ ندیم کی شان دار کردار نگاری بھی ’’سوغات‘‘ کا ایک مضبوط اور قابل ذکر حصہ تھی۔
’’تمہی کو مبارک رہے دوستو! مجھے ایسی دنیا نہیں چاہئے
دنیا والو! تمہاری دنیا میں یوں گزاری ہے زندگی ہم نے
تم سے مل کر میری دنیا ہی بدل جاتی ہے
روح کی ساری تھکن پیار میں ڈھل جاتی ہے‘‘
جیسے اعلیٰ اور دل پر اثر کرنے والی شاعری کے حامل گیت مختلف کیفیات میں کہانی کے ہیرو (ندیم) کے دلی جذبات و احساسات کے آئینہ دار تھے۔ ’’سوغات‘‘ نے باکس آفس پر ایوریج بزنس حاصل کیا اور 32؍ہفتے پورے کیے۔
1978ء میں شیون رضوی نے انجم نسرین رضوی کے خُوب صورت افسانے کو فلم ’’بات پہنچی تیری جوانی تک‘‘ کے قالب میں ڈھالا جو مکمل طور پر ادبی ماحول کی غماز تھی۔ تاہم فلمی مسالہ جات بھی اس میں پُ وری طرح موجود تھے۔ کہانی کے مطابق قیصر آفاق (رنگیلا) ایک بک اسٹال کا مالک ہے اور ساتھ ہی بھرپور ادبی ذوق کا حامل بہترین شاعر بھی ہے، جب کہ اس کا دوست خنجر برہان پوری (منور ظریف) بھی ایک شاعر ہے، جو اس کے اسٹال پر آکر کتب وغیرہ کا مطالعہ کرتا ہے۔ شہر کی خُوب صورت لڑکی شاہین ناز (سنگیتا) بھی ایک بہترین شاعرہ ہے۔ ایک مشاعرے کے موقع پر قیصر آفاق اور شاہین ناز کے مابین تکرار ہوجاتی ہے،یہ تکرار، اختلاف، ناپسندیدگی اور بیزاری سے شروع ہوکر شدید محبت کا روپ دھار لیتی ہے، لیکن ایک غیر متوقع واقعہ اور مجبوری شاہین ناز کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ غم دوران کی ستم ظریفی دیکھیے کہ زمانہ شباب میں ہی شاہین ناز کے بالوں میں چاندی چمکنے لگتی ہے۔ قیصر آفاق اپنے یارغار خنجر برہان پُوری کو ساتھ لے کر جوگیوں کا روپ دھار لینے کے بعد محبوبہ کی تلاش میں قریہ قریہ، کوچہ کوچہ چھان مارتے ہیں اور بالآخر شاہین ناز کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
شاہین ناز کہتی ہے کہ شباب کی عمر میں میرے بالوں کی سفیدی نے مجھے بوڑھا کردیا ہے، لہٰذا مجھے بھول جائو۔ قیصر آفاق نہایت محبت اور خلوص سے جواب دیتا ہے کہ ’’اس حُسن سے نہیں، مجھے تم سے پیار ہے‘‘ یُوں قیصر اور شاہین کی محبت کو خُوب صورت انجام مل جاتا ہے۔ ’’بات پہنچی تیری جوانی تک‘‘ میوزک، شاعری، گائیکی، کردار نگاری اور ڈائریکشن کے تناظر میں ایک دلچسپ اور معقول معیار کی حامل فلم تھی، لیکن باکس آفس پر فلم کو قطعی رسپانس نہیں ملا، حالاں کہ سنگیتا، رنگیلا، منور ظریف اور صاعقہ نے شعبہ اداکاری میں اپنے اپنے کرداروں سے خُوب انصاف کیا تھا۔
1972ء میں نامور فلم میکر نذرالاسلام نے الیاس رشیدی کی پروڈکشن ’’احساس‘‘ تخلیق کی۔ ’’احساس‘‘ کی کہانی کا ہیرو پرویز بھی (ندیم) ایک ناول نگار ہوتا ہے۔ اسے اپنے نئے ناول کے لیے پلاٹ کی تلاش ہوتی ہے۔ ٹی وی پر وہ نگار نامی شوقیہ گلوکارہ، رقاصہ (شبنم) کو دیکھتا ہے، تو کسی نہ کسی طرح اس کے گھر تک رسائی حاصل کرلیتا ہے اور ’’پیارے‘‘ کے نام سے نگار کے گھر میں بہ طور (باورچی) کام کرنے لگتا ہے۔ یُوں اسے اپنے نئے ناول کے لیے پلاٹ مل جاتا ہے۔ وہ راتوں کو اپنے سرونٹ کوارٹر میں ناول لکھنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ ایک روز نگار چھپ کر اس کے کمرے کی تلاشی لیتی ہے اور جان لیتی ہے کہ بے وقوف سے نوکر پیارے کے روپ میں ملک کا مقبول ناول نگار پروفیسر ہے۔ ’’احساس‘‘ ایک مکمل اعلیٰ معیار کی حامل فلم تھی، جو باربار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
مایہ نگار فن کار ندیم نے نہ صرف ناول نگار کے روپ میں بلکہ ایک ان پڑھ، بدھو ملازم کے کردار سے بھی بھرپور انصاف کیا۔ ’’احساس‘‘ باکس آفس پر ایک سلور جوبلی ہٹ فلم شمار کی جاتی ہے۔ ندیم اسی اعتبار سے سب سے زیادہ قابل ذکر فن کار ہیں کہ فلموں میں بہ طور ادیب یعنی شاعر یا رائٹر کے طور پر سب سے زیادہ انہی کا چنائو کیا گیا۔ رفیق علی راکھن کی تو نغمہ بار تخلیق ’’سہرے کے پھول‘‘ میں بھی وہ ایک شاعر کی تمثیل بہت خُوب صورتی سے نبھاتے نظر آئے۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد، قمر زیدی کی ’’سالگرہ‘‘ اور شباب کیرانوی کی ’’سہیلی‘‘ میں شاعر کے روپ میں نظر آئے، جب کہ لیجنڈری محمد علی نے قمر زیدی کی ’’پالکی‘‘ میں شاعر کا کردار ادا کیا۔ ہدایت کار یونس راہی کی ریلیز ’’جلوہ‘‘ شعر و ادب کے ماحول سے آراستہ ایک بڑی ہی دل کش نغمہ بار تصویر تھی، جس میں درپن مرحوم نے (اختر کلیم) نامی شاعر کا کردار نہایت عمدگی سے نبھایا تھا۔
’’کوئی جاکے ان سے کہہ دے ہمیں یوں آزمائیں
لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں‘‘
جیسے خُوب صورت کلام گیتوں کی صورت اختر کلیم نامی شاعر کے محسوسات اور جذبوں کا اظہار تھے، جب کہ ’’جلوہ‘‘ کی کہانی میں ’’زمرد محل‘‘ نامی کردار ایک طوائف کا تھا، جو اختر کلیم کی شاعری کی بہت بڑی قدردان ہوتی ہے۔ یہ یادگار کردار (سلونی) مرحومہ نے کافی مہارت سے نبھایا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پیش لفظ میں ذکر کیا کہ کچھ فلموں میں نامور شعراء کی زندگی کو بھی فلم میکرز نے اپنا سبجیکٹ چُنا، جیسے کہ عطا اللہ شاہ ہاشمی نے 1961ء میں عظیم شاعر اسد اللہ خان غالب کی زندگی پر فلم ’’غالب‘‘ بنائی جس میں لالہ سدھیر نے ’’غالب‘‘ کا رول ادا کیا، جب کہ نورجہاں ان کی ہیروئن تھیں۔ ’’غالب‘‘ نقدونظر کے تناظر میں قدردان فن سے پذیرائی و تحسین سے محروم رہی۔
تاہم فلم کی موسیقی و نغمات کا شعبہ نہایت توانا اور سدابہار اہمیت کا حامل ہے۔ نوجوان ہدایت کار سرمد کھوسٹ کی شاہ کار تخلیق ’’منٹو‘‘ نے سب سے بولڈ اور جرات مندانہ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی اور ان کے شاہ کار افسانوں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ’’کھول دو‘‘ ’’اوپر نیچے درمیان‘‘ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ ’’لائسنس‘‘ وغیرہ کی خُوب صورت اور اثرخیز تمثیل پر مبنی ایک قابل دید اور لائق تحسین مووی تھی، جس کا اسکرپٹ کمال مہارت اور مشاقی سے لکھا گیا، بلکہ ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے بھی ایک بہترین لائبریری، متحرک دستاویز ہے۔ سرمد کھوسٹ نے منٹو کی تمثیل میں حقیقت کے یادگار رنگ بھر دییے اور بہ طور اداکار اپنا فنی قد خوب بلند کیا۔ منٹو جیو فلمز کی وساطت سے ریلیز ہوئی اور نہ صرف باکس آفس پر بہترین بزنس کیا بلکہ ناقدین سے بھی خوب دادتحسین پائی۔
معروف ہدایت کار انجم شہزاد نے 2016ء میں ’’ماہ میر‘‘ کے ٹائٹل سے شاعری کے قدیم اسالیب اور نئی نسل کے فکری کنفوژن کو موضوع بنایا۔ فلم میں نئی نسل کا شاعر ’’جمال‘‘ فہد مصطفی جو روایتی شاعری کے خلاف ہوتا ہے، لیکن جب اسے 18؍صدی کے عظیم شاعر ’’میر تقی میر‘‘ کی سوانح اور شاعری کے مطالعے کا موقع ملتا ہے، تو اس کی فکر میں یکسر تبدیلی آجاتی ہے اور اس کے اعصاب پر میر کی شخصیت، میر کی شاعری یُوں غالب آتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت میں میر تقی میر کا عکس محسوس کرنے لگتا ہے۔ ’’ماہ میر‘‘ باکس آفس پر تو نہ چل سکی، لیکن مبصرین نے اسے ایک نادر الوجود فن پارہ قرار دیا۔
علاوہ ازیں ’’ثریا بھوپالی‘‘ ’’امرائو جان ادا‘‘ ’’رم جھم‘‘ اور بہت سی فلمیں ہیں کہ جنہیں شعر و ادب کے نمائندہ کرداروں کو کہانی میں مرکزیت دی گئی۔