کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے کہا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کے وکیل نے بہت اچھے انداز میں دلائل دیئے ‘ہمیں لگ رہاتھا جج صاحبان قائل ہوگئے ہیں ‘ ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ ہمارے ہاں ابھی بھی عدلیہ میں ضمانت کے معاملہ میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا تصور ہے‘جارج فلائیڈ کے قتل پر امریکا ہل گیا مگر پہلی پیشی پر پولیس والوں کی ضمانت ہوگئی ‘میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ آپ کو استغاثہ کی ایسی دلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا جواب آپ کے پاس نہیں ہوتا پھر تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے کوئی سرپرائز آرگیومنٹ دیا ہے جس کا معقول جواب دینے سے آپ قاصر رہے ہیں، ایسی کوئی بات پوری سماعت میں سامنے نہیں آئی کہ انہوں نے کوئی ایسی دلیل دی ہو جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو بلکہ ہمارے کچھ دلائل ہیں جس کا استغاثہ جواب دینے سے قاصر رہا ہے ۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیسز جلد اور بروقت نمٹائے کیوں نہیں جاتے، نیب ریفرنسز کئی کئی سالوں سے التوا کا شکار کیوں ہیں، کیسز منطقی انجام تک کیو ں نہیں پہنچتے، فیصلے تیس دن میں ہونے چاہئیں ان میں صدیاں کیوں لگ رہی ہیں۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی کہاکہ جب تک فیصلہ سامنے نہ آئے اس پر باقاعدہ گفتگو نہیں کی جاسکتی کہ جو resons دیئے ہیں وہ justifiable ہیں یا نہیں ہیں، ان کے سامنے جو میٹریل پیش کیا گیا اس کو جج صاحبان نے کس طرح ایگزامن کیا گیا اور کس تناظر میں دیکھا ارو اپنی فائنڈنگز دیں، اس وقت ہم ویکیوم میں ہیں جب تک وہ چیز سامنے نہیں آئے گی اس پر بات نہیں ہوسکتی، آج کی پروسیڈنگ میں میرشکیل الرحمٰن صاحب کے وکیل نے بہت اچھے انداز میں دلائل دیے اور بڑی جامع اور تفصیلی بحث کی اور تمام factual sides کو ٹچ کیا اور جو کیس لاء تھا اور سپریم کورٹ کی حالیہ ججمنٹس بھی پیش کیں، ہمیں تو لگ رہا تھا کہ جج صاحبان کنوینس ہیں لیکن بدقسمتی سے otherwise decision آیا ہے، میرے خیال میں فیصلے کے حوالے سے بات کرنا اس وقت قبل از وقت ہے، لیگل ٹیم اس کو واچ کررہی ہے کہ definately this matter would be taken to the Supreme Court وہاں ہمیں توقع ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کا جو اندازِ نظر ہے جیسے چیف جسٹس صاحب نے آج بھی نیب قوانین اور نیب ادارے کے حوالے سے کچھ معنی خیز کمنٹس کیے ہیں، آبزرویشن دی ہیں تو میرا خیال ہے کہ لگتا ہے کہ جب سپریم کورٹ میں جب یہ کیس جائے گا تو definately this case the no evidance اور یہ سامنے آرہا ہے کہ malafidy کی بنیاد پر ایک 34پرانے سال کے مقدمہ کی بنیادیں بنا کر اسے بنایا گیا ہے اور اس میں میر صاحب کو پھنسایا گیا ہے، ا س کا اصل مقصد تو آ پ کو پتا ہی ہے، پوری دنیا کو معلوم ہے کہ آزادیٴ اظہار رائے کے عمل پر جو پابندیاں، ضوابط قواعد نافذ کیے جارہے ہیں اور اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جارہا، ایک چینل کے بعد دوسر اچینل صحافی، ان پر سنسرشپ اعلانیہ غیر اعلانیہ ان کو پریشرائز کیا جارہا ہے، لوگوں کو خاموش رہنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں، یہ ایک اوور آل regim establish کیا جارہا ہے وہ dictitorial regim ہے، وہ آوازوں کو بند کرنے کا regim ہے، لوگوں کی آنکھیں کان بند کر کے انہیں دولت شاہ کے چوہے بنا کر ان کا خیال ہے کہ لوگ اس طرح زندہ رہیں تاکہ ان کا نظام حکومت اور اقتدار کا سلسلہ اسی طرح قائم دائم رہے، لوگ اس پر نہ مزاحمت کریں نہ مخالفت نہ کریں نہ اپنے رائے کے اظہار کا انہیں موقع ملا، اس وقت ہم بڑی تاریک صورتحال سے گزر رہے ہیں جس کے لئے سول سوسائٹی کو اس ایشو پر مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، وہ جو بڑی لمبی جدوجہد کے بعد لوگوں نے بڑی قربانیاں دے کر یہ حقوق حاصل کیے تھے وہ آہستہ آہستہ ان سے چھینے جارہے ہیں ، لوگوں کو شہری سمجھنے کے بجائے رعایا سمجھا جارہا ہے، میں توقع کرتا ہوں کہ جبر بڑھے گا تو جبر کے خلاف بھی لوگ کھڑے ہوں گے اس سے آزادی کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں گے اور بالآخر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے کہا کہ ہمارا نظام انصاف مکمل طور پر انہدام کی طرف جارہا ہے، روز چیخ و پکار ہورہی ہے، لوگ سزائے موت پاکر پھانسی پر جھول جاتے ہیں بعد میں بری ہوتے ہیں، بیس بیس پچیس پچیس سال خواتین بچے لوگ جیلوں میں گل سڑ رہے ہوتے ہیں مگر انہیں نہیں سنا جاتا، ہمارے نظام انصاف کو مکمل اوورہال کرنے کی ضرورت ہے، ایک آزاد معاشرے کے لوگ جس طرح قانون سازی کرتے ہیں اس کے تحت معاشرے کو زندہ رہنے کا موقع ملنا چاہئے، میری رائے میں یہ نظام انصاف مکمل طور پر ناکام اور انحطاط کا شکار ہوچکا ہے،اس میں سے کوئی اچھائی حاصل کرنے کی توقع نظر نہیں آتی ہے۔ ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ ہمارے ہاں ابھی بھی عدلیہ میں ضمانت کے معاملہ میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا تصور ہے، مہذب معاشروں میں ضمانت کے معاملہ میں وہ تین چیزیں دیکھتے ہیں، کیا آپ سرکاری گواہ کو ٹیمپر کریں گے، ضمانت کا غلط استعمال کریں گے یا پراسیکیوشن سے مداخلت کریں گے، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو وہ ضمانت دیدیتے ہیں، امریکا میں جارج فلائیڈ کے معاملہ پر پورا ملک ہل گیا مگر پہلی پیشی پر پولیس والوں کی ضمانت ہوگئی، اب تصور یہ نہیں ہے کہ بے گناہ آدمیوں کو جیل میں سڑا کر مار دیں اور دس سال بعد اسے بری کردیں، سپریم کورٹ کو اس پر اپنا نظریہ بدلنا پڑے گا، اس ملک سے کرپشن ختم نہیں ہورہی ہے اور ہم ڈنڈا لیے بیٹھے ہیں کہ ہم نیب کو چلائیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ سب کو دوبارہ اپنا ریویو کرنا پڑے گا، یہ تصور اب نہیں ہے کہ آدمی بھاگ جائے گا ، اب سارا ریکارڈ نیب کے پاس ہوتا ملزم کس طرح ریکارڈ ٹیمپر کرسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیاسی انتقام زیادہ ہے، اگر یہ کیس بننا ہوتا تو چونتیس سال سے نہیں بن پایا اور اب کیسے بن گیا، نواز شریف جب یہاں تھے اس وقت کیس نہیں بنایا گیا،یہ وہ کیسز ہوتے ہیں کہ اگر کرائم ہوا بھی ہے تو ہمیشہ پیمنٹ کے بعد ریگولرائزیشن ہوجاتا ہے ، جہاں وزیراعظم کا گھر ہے ا س علاقے کو بھی ریگولرائز کیا ہے، یہ ایسا الزام نظر نہیں آتا کہ جس پر سزا دی جائے، اگر کوئی بے قاعدگی تھی تو وہ فائن لگا کر ریگولرائز ہوسکتی ہے، جیل میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ سیاسی انتقام ہے کوئی اور وجہ نہیں ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ آپ کو استغاثہ کی ایسی دلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا جواب آپ کے پاس نہیں ہوتا پھر تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے کوئی سرپرائز آرگیومنٹ دیا ہے جس کا معقول جواب دینے سے آپ قاصر رہے ہیں، ایسی کوئی بات پوری سماعت میں سامنے نہیں آئی کہ انہوں نے کوئی ایسی دلیل دی ہو جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو بلکہ ہمارے کچھ دلائل ہیں جس کا استغاثہ جواب دینے سے قاصر رہا ہے۔ہم نے جو رائے دینی ہوتی ہے یا اپنا مائنڈ میک اپ کرنا ہوتا ہے اس کی بنیاد قانون کا ٹیکسٹ ہوتا ہے اور اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر ہم اپنی رائے بھی دیتے ہیں اور ہمارا مائنڈ میک اپ ہوتا ہے کہ یہ کیس ضمانت کا اچھا کیس ہے یا برا کیس ہے، سپریم کورٹ اور چاروں ہائیکورٹس بشمول لاہور ہائیکورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں میری رائے میں یہ بہت اچھا کیس تھا، بہت اچھا کیس ہے۔ اس سوال پر کہ آپ کہتے ہیں بیس سال میں ایسا کیس نہیں دیکھا؟ امجد پرویز نے کہا کہ اچھا نہیں لگتا ایسا لگے گا کہ میں آپ کے پروگرام کے ذریعہ سے تعارف کروانا چاہ رہا ہوں، مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میں نے پیپلز پارٹی کے کیسز کیے ہیں، میں جہانگیر بدر کا وکیل تھا، میں نے ق لیگ کے کیسز کیے ہیں، میں مونس الٰہی کا وکیل تھا، میں نے بینک آف پنجاب کا کیس کیا ہے، میں ہمیش خان کا وکیل تھا، میں نے حج اسکینڈل کیا ہے، میں نے ای او بی آئی اسکینڈل کیا ہے، یہ میرا تجربہ ہے پچھلے بیس سالوں کاکہ کوئی پروفائل کیس ہو میں اس میں principal accuse کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، میں بائی نیچر ڈیفنس کونسل ہوں، میں جب کہتا ہوں کہ میں نے ان بیس سالوں میں ایک ہی دن میں authorization of enquiry اور اسی وقت وارنٹ گرفتاری کا اجراء نہیں دیکھا تو نہ صرف اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں بلکہ میری اس رائے کی بنیاد یہ بھی ہے کہ مجھے ان بیس سالوں میں ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں ملا جس میں کسی شخص کو شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر طلب کیا گیا ہو اور وہ باقاعدگی سے انکوائری آفیسر کے پاس پیش ہورہا ہے اور اسی دن اس کیخلاف authorization of enquiry ہو اور اسی روز اس کیخلاف وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوں، ہمارے قرآن پاک میں ہے کہ آپ کسی کو سنے بغیر سزا نہیں دیں، یہ جو انکوائری کا عمل ہوتا ہے یہ بنیادی طور پر شنوائی کا عمل ہوتا ہے کہ آپ ملزم کو اس کی صفائی کا پورا موقع دیں گے، عدالت عالیہ سندھ کے فیصلے ہیں شعیب وارثی کے کیس میں ہیں، ڈاکٹر عاصم کے کیس میں ہے کہ آپ کسی کو شنوائی کا مناسب موقع دیئے بغیرگرفتار کریں گے تو وہ غیرقانونی ہوگا، عدالت عالیہ سندھ نے سراج درانی کے کیس میں یہ کہا ہے کہ ٹھیک ہے چیئرمین نیب کا اختیار ہے کہ وہ انکوائری یا انویسٹی گیشن اسٹیج پر وارنٹ گرفتاری جاری کرے لیکن انکوائری اسٹیج پر جو وارنٹ گرفتاری جاری کرنا بادی النظر میں یہdue process of law کے حق کے برعکس ہے، آپ خود اپنے پروگرامز میں رپورٹ کرتے رہے ہیں کہ چیئرمین نیب کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار اس میں ان کی مرضی ہے، ہم نے دیکھا ہے کیسز میں انہوں نے کسی کو انویسٹی گیشن اسٹیج پر گرفتار کیا ہے، کسی کو ریفرنس فائل ہونے کے بعد گرفتار کیا ہے، کچھ کیسوں میں ریفرنس فائل کرنے کے بعد بھی گرفتار نہیں کیا اور یہ واحد کیس ہے جس میں انہوں نے same day وہ اس کو distinguish کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کو ہم نے انکوائری اسٹیج پر پکڑا تھا ان کو انہوں نے انکوائری کے اسٹیج پر نہیں پکڑا تھا، جس اسٹیج پر میر صاحب کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، بادی النظر میں میں یہ سمجھتا ہوں ، عدالتی مثال بھی ہمارے پاس نہیں ہے، ایک فیصلہ ایسا نہیں ہے جس کے حالات وواقعات اس کیس جیسے ہوں کہ ایک شخص کو شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر طلب کیا گیا، وہ آیا ہوا ہے اور آپ اسی دن اس کے خلاف authorization of enquiry بھی کریں اور وارنٹ گرفتاری بھی جاری کریں، آپ روز ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ نیب کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ ہوتی ہے جس کا اجلاس اسلام آباد میں ہوتا ہے، ایک ریجنل بورڈ میٹنگ ہوتی ہے جس کا اجلاس ڈویژنل سطح پر ہوتا ہے، یہ سارے فیصلے کہ authorization of enquiry ہونی چاہئے یا نہیں اس کی سفارش ریجنل بورڈ کرتا ہے، ریجنل بورڈ کی سفارش ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں جسے چیئرمین نیب ہیڈ کرتے ہیں ان کے سامنے رکھا جاتا ہے، آپ اس کیس کا ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں آپ کے ساتھ کوئی شیئر کرے، آپ کے کیس میں نہ کوئی آر بی ایم ہوئی ہے نہ کوئی ای بی ایم ہوئی ہے بلکہ نیب کے اپنے ایس او پیز جو آر بی ایم اور ای بی ایم کے ہیں ان کو بھی اس کیس میں violate کیا گیا ہے، مجھے کوئی ایسا فیصلہ نہیں ملا جس کے حالات و واقعات اس کیس سے ملتے جلتے ہوں۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیسز جلد اور بروقت نمٹائے کیوں نہیں جاتے، نیب ریفرنسز کئی کئی سالوں سے التوا کا شکار کیوں ہیں، کیسز منطقی انجام تک کیو ں نہیں پہنچتے، فیصلے تیس دن میں ہونے چاہئیں ان میں صدیاں کیوں لگ رہی ہیں، شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر گرفتاریاں کرلی جاتی ہیں، کئی کئی ماہ تک لوگ جیل میں رہتے ہیں پھر ان کی ضمانت تک ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود کیسز کا فیصلہ کیوں نہیں ہوپاتا، خود سپریم کورٹ احتساب کے عمل پر سوالات اٹھارہی ہے، احتساب کے ادارے نیب پر برہمی کا اظہار کررہی ہے کہ کیسوں کے فیصلوں میں کئی سال کیوں لگ جاتے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ نیب کی طرف سے شکایت کی تصدیق کے مرحلہ اور انکوائری کی سطح پر ہی کئی گرفتاریاں کرلی جاتی ہیں پھر میڈیا پر ٹرائل ہوتا ہے، کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کی بات کی جاتی ہے مگر بعد میں اعلیٰ عدالتوں سے ضمانتیں ہوجاتی ہیں جبکہ ماتحت عدالتوں میں برسوں تک کیس چلتا رہتا ہے،اس کی ایک مثال حال ہی میں سامنے آئی، نیب نے 2012ء میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کیخلاف تحقیقات کا آغاز کیا، آٹھ سال بعد احتساب عدالت نے انہیں رینٹل پاور کیس کے د و مقدمات میں بری کردیا ہے، آٹھ سال تک یہ کیس ہیڈلائنز میں رہا، بار بار الزامات دہرائے گئے مگر نیب کچھ ثابت نہیں کرسکا، صرف سیاستدان ہی نہیں ایسے کئی بیوروکریٹس بھی ہیں جنہیں انکوائری مرحلہ پر گرفتار کرلیا گیا، فواد حسن فواد ڈیڑھ سال تک گرفتار رہے، کیس ابھی تک چل رہا ہے مگر کچھ ثابت نہیں ہوا، اسی طرح احد چیمہ کی گرفتاری کو دو سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے مگر ابھی بھی ملزم ہیں مجرم نہیں ثابت ہوئے۔