• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمان سے بجٹ کی منظوری نے حکومت کو ریلیف فراہم کیا کیونکہ اس سے قبل میڈیا اور اپوزیشن نے پیالی میں طوفان برپا کیا ہو ا تھا ۔مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان سے حکومت کے دو اتحادیوں مری اوربگٹی کی پارٹیوں کی طرف سے ارکان پارلیمان کے اعزاز میں وزیراعظم کے عشایئے میں شرکت سے انکار نے قومی سیاست میں ہلچل بر پا کیے رکھی ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری جو شیخ رشید کی طرح ویک اینڈ پرمیڈیا میں اپنے بیان سے توجہ حاصل کرنے کے عادی ہیں ۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات کو میڈیا پر بیان کر کے اسد عمر ، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی ٹرائیکا کے الجھائو سے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش میں لگے رہے ۔ حکومت نے میڈیا میں پی آئی اے کراچی حادثہ کی رپورٹ ایوان میں پیش کر کے او ر اسے میڈیا میں اچھال کر توجہ ہٹانے کی کوشش کی مگر بجٹ سے قبل پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نے حکومت کی تمام کوششوں پر پھیر دیا اور توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہو گیا ۔ اس تمام منظر نامے میں وزیراعظم عمران خان پر سکون اور پر اعتماد نظر آئے ۔انہوں نے ارکان پارلیمان کے عشائیے میں تقریر کرتے ہوئے بڑے پر اعتماد لہجے میں ارکان کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت قائم رہے گی اور بجٹ بھی پاس ہو جائے گا۔کیونکہ ان کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے ۔اور چشم فلک نے دیکھا کہ ایوان میں یہی ہوا۔ بجٹ بھی پاس ہو گیا اور اپوزیشن بھی کچھ نہیں کر پائی ۔

بجٹ پاس ہونے کے بعد ایوان میں اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کر پشن کیسوں میں ملوث اپوزیشن رہنمائوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے مائنس ون ہونے کے باوجود اس عمل کو جاری رکھنے کا ارادہ کیا یعنی انہوںنے واضح پیغام دیا کہ اپوزیشن رہنمائوں پر نیب کیس بناتا رہے گااور حکومت انہیں جیل میں ڈالتی رہے گی۔ انہوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب آدمی پر مہنگائی کا بوجھ پڑنے کا کوئی ذکر نہیں کیا اور پیٹرول سے فائدہ اٹھانے والے مافیا کو یکسر نظر انداز کر دیا ۔ پیٹرول سستا ہونے پر اس کا فائدہ غریب عوام تک نہ پہنچنے کی وزیراعظم کو بہت فکر تھی اور انہوں نے حکام کو ہدایت بھی کی تھی کہ پیٹرول کی قیمت کم ہونے کے فوائد عوا م کو حاصل ہونے کو یقینی بنائیں مگران کی حکومت کے کار پرداز پیٹرول کی دستیابی کو یقینی نہ بناسکے تو فوائد کو یقینی بنانا چہ معنی دارد عشائیے اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے پر اعتماد خطاب نے حکومت کی ڈھیلی چولوں کو کس دیا اور حکومت پھر مستعد اور متحد نظر آنے لگی ۔ بکھری ہوئی اپوزیشن جسے اپنی فکر زیادہ اور بجٹ کو روکنے کی فکر کم تھی اس نے حکومت کو بجٹ پاس کروانے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی لہذا اسپیکر اسد قیصر کی پھر تیوں سے بجٹ بروقت پاس ہو گیا اور حکومت ایک بڑی مشکل سے بچ گئی ۔

اب حکومت نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے او ر اس کو کچھ وقت مل گیا ہے لہذا وہ پھر اپوزیشن کے کیسوں پر توجہ دے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف نیب کے سامنے پیش ہو گئے ہیں لہذا میاں شہباز شریف کے ساتھ ان کو بھی اب نیب میں مزید پیش ہونا پڑے گا۔ آصف زرداری صاحب کو بیماری کے باوجود کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا اور ان پر ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کرنے کی تیاری جاری ہے ۔پر اعتماد وزیراعظم اپنے غیر منتخب مشیران کے ذریعے اپنی حکومت کی جنگ میڈیا پر لڑ رہے ہیں۔ آدھے درجن کے قریب وزیر و مشیر روزانہ کی بنیاد پر میڈیا پر آ کر تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم کی اچھائیوں اور کارناموں کے گن گاتے ہیں ۔عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے وزیراعظم اور حکومت کے معاملات کو روزانہ کی بنیاد پر میڈیا میں زیر بحث لانے سے حکومتی موقف پھسپھسا ہوتا جا رہا ہے اور وزیراعظم کا اچھا بھلا امیج بھی خراب ہو رہا ہے ۔

موجودہ حالات کا غیر جانبدار تجزیہ یہ بتا رہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کو مزید دبائے گی اور اپنے نام نہاد کارناموں کو بڑھا چڑھا کر عوام کے سامنے پیش کرے گی ۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ایک بات زبان زد عام ہو گئی تھی کہ بھٹو صاحب خود قابل اور دیانت دار تھے مگر ان کے مشیروں نے انہیں مروا دیا۔کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر میڈیا پر پابندی اور میر شکیل الرحمان جیسے کہنہ مشق صحافی کی گرفتار ی خواجہ محمد آصف ، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ ، آصف زرداری و دیگر اپوزیشن رہنمائوں پر نیب کے ذریعے دبائو ڈال کر عوامی مسائل کو حل کرنے سے اجتناب برتنا حکومتی حق میں نہیں جاتا ۔ نہ ہی جمہوریت مل بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کرنے اور ڈائیلاگ کو فروغ دینے کا نام ہے ۔کورونا اور ٹڈی دل کے بعد از آمد نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور اپنے دل سے اپوزیشن کے خلاف غصہ نکال دیں جو اسمبلی میں پہلے دن انہیں تقریر نہ کرنے دینے پر ہے ۔ تقریروں کے کئی مواقع بعد میں آئے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے ۔اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر اور میڈیا کو ساتھ لے کر عوام کو ریلیف دیں اور ان کے مسائل حل کریں ۔یہی کامیابی ہے اور یہی جمہوریت کی روح ہے ۔

تازہ ترین