کراچی (نیوز ڈیسک) معلوم ہوا ہے کہ نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ شکست کو بھانپتے ہوئے، اسرائیل نے ایران کیخلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جن کا مقصد ایران کو نقصان پہنچانا یا اسے دبائو میں لانا ہے۔
اس بات کا انکشاف اسرائیل کے ایک سابق سینئر عہدیدار نے کیا ہے جبکہ یورپی یونین کے ایک انٹیلی جنس افسر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نومبر میں امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ شکست کے تناظر میں نومبر سے پہلے ہی ایران کیخلاف کسی کارروائی پر غور کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتوں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایران میں 22؍ جون کو میزائل تیار کرنے کی ایک فیکٹری میں ہونے والے دھماکے، 2؍ جولائی کو ایران کے سب سے بڑے یورینیم افزودگی کے مرکز نتانز میں جوہری تنصیبات کی تباہی اور بدھ کو بوشہر میں اہم ترین بندرگاہ پر ہونے والی تباہی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ان حملوں کی وجہ سے ایران فی الحال شدید دبائو کا سامنا کر رہا ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں سے آتشزدگی، دھماکوں اور بری خبروں کا تواتر سے سامنے آنا اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ ان کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہو سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ایک عہدیدار نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں اسرائیل انٹیلی جنس سروسز نے ہی ایران میں جوہری ٹھکانے پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیبی اشکینازی نے 5؍ جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔
اس صورتحال کے حوالے سے ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ پیش آنے والے واقعات معمول کا حصہ ہیں لیکن کچھ معاملات میں دشمن کے ملوث ہونے کا شبہ ضرور ہے۔ اسرائیل کے ایک سابق دفاعی عہدیدار نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے خفیہ حلقوں میں یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات میں اسرائیلی انٹیلی جنس کا ہاتھ شامل ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کون سا آپریشن کس گروپ نے کیا لیکن ان کارروائیوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایران کو دبائو میں لایا جائے اور انہیں اس بات میں گھمایا جائے کہ وہ سوچتے رہیں کہ یہ کیسے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے بارے میں اسرائیل کی پالیسی بہت ہی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی اسی پالیسی پر عمل کیا جائے کہ ایران پر دبائو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران بھی سخت جوابی رد عمل کا اظہار کر سکتا ہے کیونکہ جنوری میں وہ اپنے اعلیٰ ترین کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے نسبتاً پر امن رویے کا اظہار کر رہا ہے۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ میری رائے ہے کہ ایران پر دبائو اس قدر بڑھانا ہے کہ وہ مشتعل ہو کر کوئی اقدام کرے جس کے بعد باضابطہ طور پر عسکری کارروائی شروع کی جا سکے لیکن اس دوران ٹرمپ اپنے عہدے پر ہی موجود ہوں۔
امریکا کے اتحادی سمجھے جانے والے ملک اسرائیل میں وسیع پیمانے پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ غالب امکان ہے کہ ٹرمپ اگلا الیکشن ہار جائیں گے اسلئے کارروائی اس سے پہلے ہی ہو جانا چاہئے کیونکہ اگر الیکشن سابق نائب صدر جوزف بائیڈن جیت گئے تو ان کی تمام تر توجہ اوباما دور کے جوہری معاہدے کی بحالی ہو سکتا ہے جسے ٹرمپ نے ختم کر دیا۔
یورپی یونین کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر بائیڈن انتظامیہ سامنے آئی تو ایران کیخلاف کارروائی کیلئے حمایت ملنا بہت ہی محدود ہوگا۔ جب اس عہدیدار سے سوال کیا گیا کہ 2020ء کے انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے امریکا کے اتحادی اپنی پالیسی کیسے تشکیل دیں گے تو اس عہدیدار کا جواب بڑا ہی سخت تھا؛ انہوں نے کہا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہم آپ (امریکا) کے انتخابات اور سی این این چینل ایسے ہی دیکھتے ہیں؟