نیویارک (نمائندہ خصوصی) ایسے وقت میں کہ جب کورونا وائرس کے پھیلائو اور اثرات کے باعث مین ہٹن نیویارک کی بلند و بالا اربوں ڈالرز مالیت والی بلڈنگوں میں دفاتر خالی ہیں اور ہر طرح کی رہائشی اور کمرشل پراپرٹیز کی قیمتیں اور کرائے انتہائی کم ہوگئے ہیں اور ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں اور خریداری کا توازن فروخت کنندگان کے بجائے خریدار کے حق میں ہے اس ماحول میں پی آئی اے کی ملکیت نیویارک کے ہوٹل روز ویلٹ کیلئے نئی نجی پارٹنر شپ یا فروخت کے منصوبے تیار کرلئے گئے ہیں جو امریکی معیشت کے موجودہ ماحول میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
نیویارک میں کمرشل پراپرٹی کی خرید و فروخت اور روز ویلٹ ہوٹل کے بارے میں حقائق سے واقف امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر روز ویلٹ ہوٹل کی آمدنی و خرچ کے گوشوارے اور ریکارڈ کا فرانزک آڈٹ کرالیا جائے تو بہت سے چشم کشا حقائق سامنے آجائیں گے اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ یہ ہوٹل درحقیقت نقصان میں چلتا رہا ہے یا منافع کمایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 30؍ سال سے زائد عرصہ سے پی آئی اے (انوسٹمنٹ) کی ملازمت سے وابستہ اور موجودہ ایم ڈی روز ویلٹ ہوٹل کے تمام اعلانیہ اور خفیہ حقائق اور اسیکنڈلز سے بخوبی واقف ہیں اگر 73؍ سالہ منیجنگ ڈائریکٹر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیوں اور عوام کے سامنے حلفیہ طور پر مالی اور دیگر حقائق بیان کرنے کیلئے بلا کر پوچھ گچھ کی جائے تو پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کے چشم کشا حقائق عوام کے سامنے آجائیں گے۔
کمرشل پراپرٹی کے بارے میں ایک انتہائی معتبر امریکی ادارے سے اس نمائندہ جنگ کی حاصل کردہ تفصیلات کے مطابق 598248 پانچ لاکھ اٹھانوے ہزار دو سو اڑتالیس مربع فٹ کے روز ویلٹ ہوٹل کے1064 کمرے ہیں جبکہ 21011 فٹ پر ریٹیل اسٹور بھی ہیں اور 51542اسکوائر فٹ کے ایئر رائٹس ہیں جس کا مطلب یہ ہےکہ 19؍ منزلہ ہوٹل پر ابھی مزید فلور بھی تعمیر کرنے کے حقوق بھی حاصل ہیں جو کسی دوسرے شخص یا ہمسایہ بلڈنگ کے مالکان کو بھی فروخت کئے جاسکتے ہیں۔
ان حقوق کی مالیت بھی کئی سو ملین ڈالر تک ہوسکتی ہے، 1924ء میں تعمیر کردہ اس تاریخی اور لینڈ مارک بلڈنگ کو پی آئی اے کے چیئرمین ایئر مارشل نور خان کے دور میں پی آئی اے نے لیز پر حاصل کیا تھا اور شرط یہ تھی کہ اسے اگر فرسٹ کلاس ہوٹل کے طور پر چلایا گیا اور اس کی مینٹی ننس ٹھیک رکھی گئی تو لیز کے اختتام پر پی آئی اے کو 36؍ ملین ڈالرز میں خریدنے کا آپشن حاصل ہوگا۔
لیز کے اختتام سے قبل پی آئی اے انوسٹمنٹ نے کئی ملین ڈالرز کے قرضے حاصل کرکے 1997ء سے اس ہوٹل کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا جس پر 65؍ ملین ڈالرز سے زیادہ 1997 کے اخراجات بتائےجاتے ہیں۔ اس مرمت کے پروجیکٹ کےبارے میں بھی بہت سی کہانیاں نیویارک میں زبان زدعام ہیں آخر کار پی آئی اے انوسٹمنٹ نے ہوٹل کے مالک مل اسٹین سے 2004ء میں مالکانہ حقوق حاصل کرلئے۔
یہ ہوٹل پی آئی اے کی مقرر کردہ ایک ہوٹل مینجمنٹ کمپنی چلا رہی ہے بینکوں سے مرمت اوردیگر مقاصدکیلئے حاصل کردہ قرضوں کو یکجا کئے جانے کے بعد دو ارب ڈالر کے مالیت کے اس ہوٹل پر تازہ اعداد و شمار کے مطابق صرف 105؍ ملین ڈالر کا قرض باقی رہ گیا ہے جبکہ صرف ایک مالی سال میں 28؍ ملین ڈالرز کا نقد منافع کمایا ہے۔
نمائندہ جنگ / جیو کی حاصل کردہ امریکی ادارے کی رپورٹ میں 2018ء تک ہوٹل کی آمدنی و خرچ کی تفصیلات میں ذیلی تفصیل بھی درج کی جاتی تھی مثلاً 2017ء میں ہوٹل کے کمروں سے 65,993,068 ڈالرز اور فوڈ کی فروخت سے 13,570,312 ڈالرز کی آمدنی ہوئی اور کل آمدنی 186,930,646 ڈالرز بتائی گئی لیکن 2018ء سے روم انکم، فوڈ انکم، کانفرنس انکم، فون، پارکنگ اور دیگر ذرائع آمدنی کی تفصیلات فراہم کرنے کا سلسلہ ختم کرکے صرف ٹوٹل آمدنی بیان کرنے کا طریقہ نہ جانے کیوں اپنالیا گی۔ اسی طرح روم اخراجات، فوڈ، ایڈمنسٹریشن اور مارکیٹنگ پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل بھی ختم کرکے صرف کل اخراجات کی رقم بیان کی جارہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ اکائونٹس اور گوشوارے تیار کرنے والے ماہرین اپنے کسٹمرز کو فائدہ پہنچانے کیلئے قانونی گنجائشوں اور بہت سی عملی ترکیبوں کا بھرپور استعمال کرکے بہت سی باتوں کی پردہ پوشی اور تحفظ کا کام ہر ملک اور معاشرے میں کرتے ہیں۔
وہ امریکا میں بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود روز ویلٹ ہوٹل ہر لحاظ سے منافع بخش ہوٹل نظر آتا ہے صرف 2017ء میں مارکیٹنگ پر تقریباً 8؍ ملین ڈالرز اور ایڈمنسٹریشن اخراجات 50؍ ملین ڈالرز سے زیادہ چرچ دکھایا گیا ہے جبکہ یہ ہوٹل اب ایک ہوٹل مینجمنٹ کمپنی معاہدے کے تحت چلارہی ہے۔
2018ء سے ابتک ان مدوںمیں ہونے والے خرچ کی تفصیل امریکی ادارے کی اس رپورٹ میں درج نہیں ہے۔ اسی طرح ہوٹل روز ویلٹ کی مالک پی آئی اے انوسٹمنٹ کے ذمہ داروں نے ہوٹل کے سلسلے میں ’’انٹرا فیملی‘‘ کارپوریشنیں بنانے کا کھیل بھی خوب خوب کھیلا ہے جس کے مقاصد بھی وہ خود ہی بیان کرسکتے ہیں۔
پی آئی اے انوسٹمنٹ کی ایک ذیلی قائم کردہ روز ویلٹ ہوٹل کارپوریشن ہالینڈ میں قائم کی گئی تھی جو روز ویلٹ ہوٹل کی ملکیت سے قبل ہوٹل کے لیز کے درو میں اس کا انتظام چلارہی تھی پھر 8؍ اپریل 1999ء کو ایک کارپوریشن روز ویلٹ ہوٹل کارپوریشن کے نام سے امریکا میں قائم کی گئی یہ ایل ایل سی کارپوریشن اب ہوٹل کی (DEED) کی حامل ہے اور آپریٹنگ کارپوریشن ہے۔ پھر 9؍ مارچ 2004ء میں ایک انٹرا فیملی کارپوریشن کا وجود بھی ملتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہوٹل کے مالک یعنی پی آئی اے انوسٹمنٹ کی جانب سے نیویارک سٹی کے کمشنر فنانس کے ایک فیصلے کے خلاف ایک اپیل بھی دائر ہے۔
اس کے علاوہ بعض ماہرین پراپرٹی یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ ہوٹل کیلئے مختلف اوقات میں مختلف امریکی بینکوں سے جو قرضے حاصل کئے گئے ایسے قرضوں کی ڈیل میں رول ادا کرنے افراد کو بینک کی جانب سے خدمات کا جوبھاری کمیشن دیا جاتا ہے اس کی تفصیل سامنے لانے سے بھی پتہ چلے گاکہ پاکستان عوام کے اس غیر ملکی اثاثے سے کس طرح اور کس کس نے ہاتھ رنگے ہیں اور اس کا انتظام چلانے والوں نے روز ویلٹ ہوٹل کو کس کس طرح لوٹا ہے۔
پی آئی اے انوسٹمنٹ کے موجودہ منیجنگ ڈائریکٹر نجیب سامی اس ہوٹل کے انتظام اور تمام امور کی تفصیلات کے ریکارڈ اور اصل حقائق سے بخوبی واقف ہیں اور گزشتہ 30؍ سال سے پی آئی اے انوسٹمنٹ سے وابستہ اور پاکستان میں حکومتی تبدیلیوں کے ساتھ انتقامی اور احتسابی کارروائیوں سے محفوظ رہ کر روز ویلٹ ہوٹل کے امور کی نگرانی اور فیصلے کرتے چلے آرہے ہیں ہوٹل کے بارے میں کسی نئے فیصلے یا اقدام سے قبل ان سےحقائق معلوم کرنا مفید رہے گا۔