پاکستان کی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو دو مواقع ایسے ہیں جب حقیقی طور پر ریاست کی سالمیت خطرے میں تھی۔ پہلا موقع دسمبر 1971جب پاکستان دو لخت ہوا اور لوگوں کی نااُمیدی انتہائوں کو چھورہی تھی اور دوسرا موقع محترمہ بےنظیر بھٹو کی 27دسمبر2007کو شہادت جب ملک جل رہا تھا اور لوگ مایوسی میں ڈوب چکے تھے۔ ان دونوں کربناک لمحات میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے آگے بڑھ کر ملک کی ڈوبتی کشتی کو پار لگایا۔ باقی ماندہ پاکستان کے عوام کو امید دینے والے قائدِ عوام بھٹو شہید تو لوک کہانیوں اور گیتوں کا حصہ بن کر امر ہو گئے مگر پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے والے آصف علی زرداری کو ایک خاص تعصب و بعض کی وجہ سے خراج تحسین پیش کرنے میںسب نے بخل کا مظاہرہ کیابلکہ ’’جھوٹ کو بلند آواز میں اتنا زیادہ بولو کہ سچ بن جائے‘‘ جوزف گوئبلز کا یہ فارمولا آصف زرداری کے لئے مکمل طور پر استعمال ہوا۔
سابق صدر زرداری کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک بےنظیر بھٹو کی شہادت سے قبل کا حصہ اور دوسرا اُن کی شہادت کے بعد کا وقت، بی بی کی زندگی میں زرداری صاحب نے اپنی قائد کی نہ صرف پیروی کی بلکہ ان کے نظریہ کے فروغ کے لئے صف اول میں شامل رہے۔ بھٹو صاحب میر شاہ نواز اور میر مرتضیٰ کی شہادتیں ثابت کرتی ہیں کہ اس نظریہ کے لئے سینہ سپر ہونا کوئی آسان راستہ نہ تھا، اس کے باوجود زرداری صاحب نے یہ پُر خطر راہ پوری دلیری کے ساتھ چنی اور اس راہ پر محترمہ کے ساتھ سفر کے دوران زرداری صاحب کو سب سے زیادہ تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر الزام اور دشنام کا نشانہ زرداری صاحب کو بنایا گیا لیکن تیس سالہ مقدمات کا سامنا کرنے اور تقریباً 12سال بےگناہ قید میں رہنے کے باوجود صدر زرداری پر ایک بھی الزام ثابت نہ کیا جا سکا۔ انہی قربانیوں اور ثابت قدمی کی وجہ سے بےنظیر بھٹو نے اُنہیں پاکستان کا نیلسن منڈیلا اور معتبر دانشوروں نے انہیں مرد حر کا خطاب دیا۔ زرداری صاحب نے قید اور تشدد کے باوجود محترمہ کے ساتھ رشتہ نہ توڑا اور آمریت کی پروردہ سوچ کو شکست ِفاش دی۔
مکافاتِ عمل شروع ہوا، اُن پر ظلم ڈھانے والے جب جیل میں گئے تو ان کا رونا دھونا سب نے دیکھا مگر زرداری صاحب بکتر بند قیدیوں کی گاڑی سے سینہ تان کر بھرپور مسکراہٹ کیساتھ وکٹری کا نشان بناتے تو دشمنوں کے دل دہل جاتے۔ محترمہ نے اپنی کتاب اور پھر وصیت میں اپنے مشن کا نگران زرداری صاحب کو مقرر کیا۔ زرداری صاحب نے محترمہ سے اپنا تعلق سیاہی سے نہیں خون سے لکھا۔ تمام تر زہریلے پروپیگنڈہ کے باوجود پاکستان کے دانشور اور بیدار مغز آصف زرداری کی جرأت اور بےگناہی کو اجاگر کرنے لگے۔
آصف علی زرداری کی زندگی کا دوسرا باب مزید کٹھن رہا، محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت پر عوام کا غم و غصہ انتہائوں کو چھورہا تھا، تین دن تک ملک ہنگاموں اور جلائو گھیرائوکا شکار رہا، کوئی قانون تھا نہ کوئی محافظ، ملک جل رہا تھا کہ زرداری صاحب آگے بڑھے اور پاکستان نہ کھپے کے نفرت انگیز نعروں کو رد کرکے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور ملک کو کسی ناخوشگواری سے بچا لیا۔ محترمہ کے خلا کو پُرکرنا ناممکن تھا مگر زرداری صاحب نے پارٹی کو متحدرکھا، انتخابات میں کامیابی حاصل کی وزیراعظم کے لئے دستیاب بہترین شخص کا انتخاب کیا۔ آمر مشرف کو گھر بھیجا، مفاہمت کی بنیاد رکھی، ماضی کے مخالفین کے ساتھ اتحاد کیا، دہشت گردی کے خلاف ریاست کا بیانیہ بنایا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعہ غریب خاندانوں کی کفالت کا آغاز ہوا مزدوروں اور سرکاری ملازمین کے تنخوائوں میں 175فیصد تک اضافہ ہوا۔ 1973کا آئین اپنی اصل روح میں بحال ہوا۔ عدلیہ کو بحال کیا۔ سوات آپریشن کے ذریعہ ان علاقوں میں شہید بی بی کی وصیت کے مطابق پاکستان کا جھنڈا لہرایا، دہشت گردی کو ختم کیا اور پہلے جمہوری صدر کے طور پر اپنے تمام اختیارات پارلیمان کو منتقل کردیے۔ تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی کے لئے اقدامات کئے اور اداروں کو خود مختار بنایا۔
ملکی سیاسی تاریخ میں صدر زرداری کے کردار کو سب سے زیادہ مسخ کیا گیا لیکن جو لوگ ان کے قریب ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک ذہین ، محب وطن، سخی، یاروں کے یار، دریا دل، معاف کر دینے والے، روادری اور روایات کے امین ایک جمہوری مدبر متحمل اور دلیر انسان ہیں ان کے سیاسی تدبر کو ان کے مخالفین بھی مانتے ہیں۔ صدر زرداری مستقبل کا ایک وژن رکھتے ہیں اور بطور صدر ان کے کئے گئے فیصلے وہ خارجہ امور ہوں یا ملکی معاملات اس بات کو ثابت کرتے ہیں، چین، ایران، ترکی، افغانستان اور دوسرے ممالک سے دوستانہ تعلقات کو استوار کرنے اور بڑے بڑے منصوبوں پر مل کر کام کرنا۔ عالمی طاقتوں میں پاکستان کے موقف کو مضبوطی سے منوانا اور پاکستان کے وقار کو بحال کرنا صدر زرداری کے کارناموں میں شامل ہے۔
نہ جانے کیوں ہم اپنے محسنوں کو ان کی زندگیوں میں ان کے شایان شان مقام نہیں دیتے اور اس کی زندہ مثال آصف علی زرداری کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔ آئین جمہوریت صوبائی خود مختاری، انسانی حقوق غریب اور کمزور طبقات کے لئے آصف زرداری کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ صدر زرداری کی اپنی دھرتی، اپنی قائد و شریک حیات اپنی جماعت اور کارکنوں اپنے نظریہ اور عوام کے ساتھ وفاداری بےنظیر ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)