• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں ہجوم اس قدر زیادہ تھا کہ اگلی صف میں پہنچ کر صاحبزادہ فضل کریم مرحوم کا آخری دیدار کرنا اور ان کے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل رسول رضوی ،صاحبزادے حامد رضا اور قریبی ساتھیوں حاجی حنیف طیب اور صاحبزدہ حامد سعید کاظمی سے بالمشافہ تعزیت کرنا ممکن ہی نہ رہا۔سو پچھلی صف میں نماز جنازہ پڑھی ،دعائے مغفرت کی اور معطر یادوں کے ساتھ لاہور کی راہ لی۔
صاحبزادہ صاحب سے روابط کا آغاز ان دنوں ہوا جب جمعیت علماء پاکستان نام کی ایک مذہبی جماعت کا طوطی ملک میں بولتا تھا۔ حضر ت مولانا شاہ احمد نورانی ،مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی، علامہ عبدالمصطفی الازہری،پیر محمد کرم شاہ، مفتی محمد حسین نعیمی، مفتی عبدالقیوم ہزاروئی ،ملتان کے بے تاج بادشاہ مولانا حامد علی خان، کرنل عابد حسین کو شکست دینے والے مولانا محمد ذاکر، ظہور الحسن بھوپالی، حافظ تقی، حاجی حنیف طیب، ملک اکبر ساقی اور کتنے ہی دیگر نامور علماء اور سیاسی رہنما اس جماعت سے وابستہ تھے۔ بھٹو کی عوامی اور ضیاء الحق کی فوجی آمریت کو ان لوگوں نے اس وقت للکارا جب بہت سے جمہوریت پسند اور اسلام پسند عافیت پسندی کا شکار تھے۔
پہلے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء اور پھر میاں نواز شریف کی سول حکومت کی نظر اس جماعت کو ایسی لگی کہ یہ مذہبی جماعت حصوں بخروں میں بٹنا شروع ہوئی تو بٹتی ہی چلی گئی۔ صاحبزادہ فضل کریم بھی انہی دنوں مولانا نورانی سے الگ ہوئے اور پھر قریب نہ آسکے۔ نوے کے عشرے میں یہ جماعت ایک بار پھر متحد ہوئی مگر وہ مقام حاصل نہ کرسکی جو کسی زمانے میں اسے میسر تھا۔ رہی سہی کسر ایم ایم اے کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ انڈر سٹیڈنگ نے پوری کردی مگر تب تک صاحبزادہ فضل کریم مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رابطے مضبوط کرچکے تھے اور اس کے تعاون سے وہ دو تین بار رکن صوبائی اسمبلی اور دوبار قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ 1997ء میں میاں شہباز شریف نے صاحبزادہ کو پنجاب کا وزیر اوقاف بنایا تو انہوں نے راسخ العقیدہ بریلوی ہونے کے باوجود دوسرے مسالک کے علماء کو اکٹھا کیا اور تمام مکاتب فکر کی مسلکی کتابوں میں وہ تمام دلازار عبارتیں حذف کرنے پر آمادہ کرلیا جن کی وجہ سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے۔ اسی دور میں انہوں نے برسوں سے سرد خانے کی نذر ادارہ معارف اولیاء کا احیاء کیا اور میری تجویز پر وزیر اعظم میاں نواز شریف سے علی ہجویری یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی منظور کرائی جسے داتا دربار کی وقف آمدنی سے بآسانی چلا یا جاسکتا تھا۔ اس ضمن میں شریف خاندان کے خیر خواہ بزرگ صحافی نے بھی صاحبزادہ صاحب کا ہاتھ بٹایا مگرجنرل پرویز مشرف کی مادر پدر آزاد خیالی اور روشن طبع نے جہاں اور ستم ڈھائے وہاں یونیورسٹی کے منصوبے کو بھی لے ڈوبی اور داتا دربار کی آمدن پر محکمہ اوقاف کے ملازم پل رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کی جلا وطنی کے زمانے میں قومی اسمبلی کے اندر اور باہر جن لوگوں نے پرویز مشرف کی آمریت کو للکارا اور فوجی حکومت کے دباؤکامقابلہ کیا ان میں جاوید ہاشمی، انعام اللہ خان نیازی کے ساتھ صاحبزادہ فضل کریم بھی پیش پیش تھے۔ وطن واپسی پر میاں صاحب نے انہیں ایک بار پھر وفاداری کا صلہ دیا مگر رانا نثاء اللہ سے چپقلش ،میلاد النبی کے جلوس پرفائرنگ اور داتا دربار  پر خود کش حملے کے مبینہ طور پر نامزد ملزمان کی گرفتاری میں تساہل کی وجہ سے صاحبزادہ صاحب پہلے شریف برادران سے ناراض ہوئے اور پھر حریفوں کی صف میں کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ آخری دنوں میں مسلم لیگ(ق) سے ہاتھ ملالیا۔ اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کے لئے کی جانے والی کوششیں ناکام رہیں۔
صاحبزادہ فضل کریم نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے نہ صرف بریلوی مکتب فکر کو ایک بار پھر سیاسی شناخت دلائی بلکہ مساجد، مزارات اور پبلک مقامات پر خود کش حملوں کے خلاف جرات مندانہ موقف اختیار کیا مگر اس سلیقے اور احتیاط کے ساتھ یہ کسی قسم کی مسلکی اور فرقہ وارانہ چپقلش میں اضافے کا سبب نہ بن سکے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرناد یا تو جہاں کئی علماء نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف بیانات کے تیر چلائے وہاں صاحبزادہ صاحب خاموش رہے اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی خاموش رہنے کی تلقین کی کیونکہ وہ سیاسی نظام کو یرغمال بنانے والے جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی بھل صفائی کے حق میں تھے اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ذاتی و مسلکی اختلافات سے بالا تر ہو کر اس دھرنے کی کامیابی چاہتے تھے۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے علاوہ خود کش حملوں کے خلاف ان کے جرات مندانہ موٴقف کو حکومتی ایوانوں کے علاوہ امریکہ و یورپ میں بھی پذیرائی ملی مگر انہوں نے اپنے موقف کی قیمت وصول کرنے کے بجائے حکومتی نااہلی اور امریکہ و یورپ کے اسلام مخالف رویوں پر بھی کھل کر تنقید کی اور ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ تسلسل سے کیا۔ انہوں نے جس بات کو حق جانا خوف ملامت کے بغیر زبان پر لائے اور کسی دباؤ اور ترغیب کی پروا نہ کی، حق گوئی و بے باکی ان کا طرہ امتیاز تھا۔
صاحبزادہ صاحب کی وفات کے بعد قحط الرجال کا شکار بریلوی مکتب فکر ایک بار پھر قیادت کے بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ اپنے مسلک کو بڑی مشکل سے اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے والے اس رجل رشید کی خوبیوں اور خامیوں کا تذکرہ عرصہ دراز تک ہوتا رہیگا کہ بہرحال وہ ایک انسان تھے۔ فیصل آباد کے سفر میں سید امتیاز راشد اور ضیاء الحق نقشبندی ان کی یادیں تازہ کرتے رہے مگر میں ان کے جنازے پر رشک کرتا رہا جہاں اتنا بڑا اشکبار و سوگوار ہجوم اس دنیا میں ان کی مقبولیت کی علامت تھا اور اس ہجوم میں موجود کتنے ہی مستجاب الدعوات بزرگوں، نوجوانوں اور حفاظ و قرآء کی دعائیں ،درود و سلام کی صدائیں آخرت میں نجات اور قبولیت اعمال کا ذریعہ، پچھلے ڈیڑھ ماہ میں مجھے قاضی حسین احمد جسٹس کے ایم اے صمدانی ،محترمہ رقیہ سید، پروفیسر خالد پرویز اور صاحبزادہ فضل کریم جیسے دوستوں اور بزرگوں کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ ان سب کے لئے دعاؤں کی درخواست۔
تازہ ترین